کورونا وائرس کو ہرانے کے لیے پُرعزم اور قابل پاکستانی نوجوان میدان میں
پاکستان کو اس وقت ملکی تاریخ کے سب سے بڑے چیلنج کا سامنا ہے اور ایک طرف جہاں کورونا وائرس کے سبب عوام خوف اور مایوسی سے دوچار ہے وہیں کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جو اس وائرس کو منہ توڑ جواب دینے کے لیے پاکستان کی اجتماعی قابلیت، اہلیت اور علمی خزانے کو بروئے کار لانے میں مصروف ہیں۔
ہمارے شعبہ صحت سے وابستہ کارکنان، ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں، صاف ستھرائی کا کام انجام دینے والے ہمارے ہم وطنوں اور عوامی خدمات میں حصہ لینے والے دیگر تمام پاکستانیوں کے ساتھ ساتھ طلبہ و نوجوانانِ پاکستان بھی کسی طور پر اس جنگ میں پیچھے نہیں ہیں، جبکہ کچھ نوجوان کارآمد حکمت عملیوں کی تجاویز بھی پیش کر رہے ہیں جن میں سے چند پر کم پیسوں میں عمل درآمد کیا جاسکتا ہے۔
سائنسدانوں کی صف بندیاں، متحرک کوششیں
ایسے پلیٹ فارم میں سے ایک (Scientists Against COVID-19 Pakistan - (SACP-19 نامی ورچؤل نیٹ ورک ہے جہاں 3 ہزار سے زائد نوجوان سائنسدان اکٹھا ہوچکے ہیں۔
’لوگوں کی ایک کثیر تعداد رضاکارانہ طور پر اس کوشش میں اپنا حصہ ڈالنے کے لیے تیار ہے‘، یہ بات 25 سالہ بائیو ٹیکنولوجسٹ محمد اسمٰعیل نے کہی جنہوں نے ایک ہفتہ قبل پشاور میں مقیم فزیولاجی کے طالب علم عادل سالم، کراچی میں مقیم مائیکرو بائیولوجسٹ سعدیہ خلیل اور لاہور میں مقیم ریسرچ ایمیونولوجسٹ مریم احمد جیسے لوگوں کے ساتھ مل کر اس پلیٹ فارم کا آغاز کیا۔
محمد اسمٰعیل کا کہنا ہے کہ، ’ہم چاہتے ہیں کہ آزمائشوں اور تجربات کا دائرہ وسیع کرنے کی خاطر پاکستان کی یونیورسٹیاں اور لیبارٹریاں اپنے سازو سامان دے کر ہماری مدد کریں، اور امریکا میں بھی ایسا ہورہا ہے‘۔ تاہم ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں مختلف شعبہ جات کے درمیان ’بے ربطی‘ کی وجہ سے یہاں ایسے آئیڈیاز پر عمل مزید مشکل بن جاتا ہے۔
اس وقت جہاں ایک طرف اس عالمی وبا کے خلاف جنگ لڑنے کے لیے بھرپور توانائی، بہت سارے تازہ آئیڈیاز اور پختہ عزم اور جذبہ موجود ہے وہیں دوسری طرف ان اذہان کو کام میں لانے کے لیے کہیں کوئی بندوبست دکھائی نہیں دیتا۔
محمد اسمٰعیل اور ان کے دوست آج کل صرف 3 سے 4 گھنٹے ہی سوپاتے ہیں اور ان کی اس وقت ساری توانائی اس کوشش میں لگ رہی ہے کہ ان تمام لوگوں کو ان کے تجربے کی روشنی میں مختلف چھوٹے چھوٹے ذیلی گروہوں میں تقسیم کرلیں، تاکہ انہیں ایک مرکز پر اپنا ذہن دوڑانے اور اپنی ماہرانہ رائے و تجاویز دینے کا موقع میسر آسکے اور یوں پاکستان کو مشکل کی اس گھڑی سے نکالنے میں وہ بھرہور اپنا کردار ادا کرسکیں۔
گروہ میں شامل ہونے والے نئے مائیکرو بائیولوجسٹ، انجینئر، ڈیٹا سائنسدان، اور حتٰی کہ ویڈیو گرافر اور وی لاگر کہ جنہیں اس وقت مسابقتی انداز کے بجائے یکجہتی کے ساتھ کام کرنا ضروری ہے، ان کے نام پکارتے وقت محمد اسمٰعیل کہتے ہیں کہ، ’ہمارا مقابلہ وقت سے ہے۔‘
انہوں نے ٹیلی فون پر ولولہ خیز لہجے میں بتایا کہ ’کام آسان نہیں لیکن ہمارے پاس زبردست ٹیم ہے اور ہم کافی اچھا کام کرتے ہیں‘۔ وہ ضلعی حکومتوں کے افسران سے رابطہ قائم کر رہے ہیں تاکہ ان سے پوچھا جاسکے کہ وہ اور یہ گروہ ان کی کس طرح مدد کرسکتا ہے۔
ہیلپ لائن کے لیے عملہ، آئیسولیشن مراکز پر مدد کے لیے حاضر
(Student Taskforce Against Covid-19 - (Stac-19 نامی ایک دوسرا گروہ ہے جس کا آغاز آغا خان یونیورسٹی ہسپتال (اے کے یو ایچ) میں زیرِ تعلیم آخری سال کے طلبہ نے کیا تھا۔ یہ گروہ اب 500 سے زائد ممبران پر مشتمل ایک کمیونٹی میں بدل چکا ہے جس میں نہ صرف نوجوان ڈاکٹر بلکہ شعبہ طب کے علاوہ دیگر شعبہ جات کے طلبہ بھی شامل ہوچکے ہیں۔
اس گروہ کے بانیوں میں سے ایک کلیم احمد کہتے ہیں کہ، ’مشکل کام ہماری تیزی سے بڑھتی ٹاسک فورس کا انتظام سنبھالنا ہے'۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ، ’محض ایک ہفتے کے اندر بڑے پیمانے پر لوگوں کی شمولیت ایک منفرد اور دلچسپی کا باعث امر ہے‘۔
ہم کسی ایک کو بھی شمولیت سے نہیں روکتے لیکن ہم مختلف حصوں یا چھوٹے گروہوں کی صورت میں انہیں ٹاسک دیتے ہیں تاکہ ہر کوئی کام میں جٹے رہے اور ساتھ یہ یقینی بھی بنایا جاسکے کہ کوئی بھی کسی قسم کی مشکل میں نہ پھنس جائے۔
Stac-19 مختلف کاموں کے ساتھ ساتھ کورونا وائرس کی ہیلپ لائن پر عملے کی تعیناتی کا کام بھی انجام دیتا ہے۔ احمد کہتے ہیں کہ، ’اس کام کے لیے صرف اے کے یو ایچ کے طلبہ یا پھر اس کے ان ملازمین کو ہی اجازت دی جاتی ہے جنہیں سائنسی طریقہ کار کے ساتھ کال کرنے والوں کی رہنمائی فراہم کرنے کی تربیت دی گئی ہوتی ہے'۔
وہ کہتے ہیں کہ کانٹیکٹ ٹریسنگ کے عمل میں بھی یہ ٹاسک فورس اے کے یو ایچ اور حکومتِ سندھ کو معاونت فراہم کرتی رہے گی۔ اس سے مراد کورونا وائرس کے شکار مریض کے رابطے میں رہنے والے افراد کی موجودہ صورتحال کی ٹریکنگ اور اس کا پتا لگانا اور ان کے لیے ضروری 14 روزہ قرنطینہ کے بارے میں رہنمائی فراہم کرنا ہے۔
یہ ٹاسک فورس کراچی کے ایکسپو سینٹر میں واقع قرنطینہ وارڈ کی معاونت کے لیے بھی رضاکاروں کے انتخاب میں پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کو مدد فراہم کر رہی ہے۔
طبّی کارکنان کے لیے حفاظتی سامان کا بندوبست
کراچی میں کام کرنے والا ایک بہت ہی اہمیت کا حامل گروہ ہے۔ یہ گروہ 400 سے زائد میڈیکل کے طالب علموں پر مشتمل ہے جو اپنی مہم کے ذریعے اکٹھا ہوئے ہیں۔ یہ ممبران طبّی کارکنان کے لیے ذاتی تحفظ کے سامان یا Personal Protective Equipment (پی پی ای) کو جمع کرنے میں مصروف ہیں۔
اس تنظیم کی نائب صدر ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز میں زیرِ تعلیم آخری سال کی طالبہ رجہ فاطمہ کہتی ہیں کہ ’ہم چھٹی کے دن 100 پی پی ایز جمع کرنے میں کامیاب رہے جنہیں اب ہم ڈاکٹر رتھ فاؤ سول ہسپتال، جناح پوسٹ گریجویٹ سینٹر اور عباسی شہید ہسپتال میں تقسیم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں‘۔
جس قسم کی پی پی ای کٹ درکار ہے اس کی بنیاد پر فی کٹ ایک سے 7 ہزار روپے کی لاگت آسکتی ہے۔ ہمارے اندازے کے مطابق ہمیں مذکورہ تینوں ہسپتالوں کو کم از کم 150 کٹیں فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔
مگر یہ چیلنج بھی ناممکن نہیں ہے۔
رابطہ سازی، وینٹی لیٹرز اور غیر رابطہ تھرما میٹرز کا بندوبست
اسلام آباد میں کام کرنے والا (Pakistan Against Covid-19 — Volunteers group (Pac-V نامی گروپ پی پی ای کٹ کا مٹیریل تیار کرنے والوں اور کٹ سپلائرز کو اس طرح کی بھرپور رہنمائی فراہم کررہے ہیں جن کی مدد سے وہ یہ سامان کم داموں پر یا مفت میں فراہم کرسکیں۔
Pac-V سے وابستہ 39 سالہ مکینکل انجینئر ڈاکٹر بلال صدیقی اور ان کی ٹیم تھری ڈی ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے پروٹو ٹائپ وینٹی لیٹر پر کام کر رہے ہیں۔
وہ ڈان ڈاٹ کام کو بتاتے ہیں کہ، ’ہم آئی سی یو گریڈ کے وینٹی لیٹر تیار کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اگرچہ اس کام میں 10 دن یا اس سے کچھ زائد وقت لگ سکتا ہے لیکن کورونا وائرس کے مریضوں کے لیے یہ نہایت اہمیت کی حامل چیز ہے‘۔
وہ یہ بھی جانچ کر رہے ہیں کہ آیا امریکا کی طرز پر ہسپتال میں پہلے سے زیرِ استعمال وینٹی لیٹرز کو ایک سے زائد مریضوں کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے یا نہیں.
شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال و ریسرچ سینٹر میں اس حوالے سے آزمائشیں کی جارہی ہیں۔ انجینئر کہتے ہیں کہ اگر تجربہ کامیاب رہا تو ہم ایسے پائپوں کے نیٹ ورک کی تیاری شروع کریں گے جنہیں ایک مشین سے جوڑا جاسکے، اور کسی حد تک ایک بڑا مسئلہ حل ہوجائے گا‘۔
مگر وینٹی لیٹر کی تیاری مسئلے کا مکمل حل نہیں۔ بلال صدیقی کہتے ہیں کہ ’ان کی ٹیم نے امریکا سے سینسر منگوائے ہیں جو پاکستان پہنچنے والے ہیں اور ان کی مدد سے جلد ہی غیر رابطہ تھرما میٹر تیار کرلیا جائے گا۔ پروٹو ٹائپ تیار ہے اور ہم پہلے اسے چند صحت مراکز کو فراہم کرچکے ہیں۔ چونکہ ان تھرما میٹروں کی سپلائی کمی کا شکار ہے اس لیے ان کے دام اچانک ساڑھے 3 ہزار سے بڑھ کر 35 ہزار تک پہنچ چکے ہیں۔ ہم انہیں کثیر تعداد میں تیار کرنے اور ایک سے ڈیڑھ ہزار روپے میں ہر ایک کی رسائی میں لانے کی کوشش کرسکتے ہیں‘۔
بلال صدیقی سمیت 5 ارکان پر مشتمل ان کی ٹیم اب بڑھتے بڑھتے 500 افراد کے گروہ میں تبدیل ہوگئی ہے، جس میں نہ صرف انجینیئر شامل ہیں بلکہ ایسے بھی لوگ جڑے ہیں جو کراؤڈ سورسنگ (عوام سے فنڈ لینے) اور اس کے ساتھ مالی مدد فراہم کرنے میں ذرا بھی کوتاہی نہیں کرتے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’اس وقت کراچی، اسلام آباد اور لاہور میں انجینئروں کے 3 گروہ سرگرمِ عمل ہیں اور ہم مسلسل ایک دوسرے سے رابطے میں ہیں‘۔ وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ ہمیں خوشگوار حیرت ہے کہ اس گروہ کو اعلیٰ تعلیمی شعبہ (تعلیمی ادارے)، نجی کاروباری ادارے یا صنعت اور حکومت (این ڈی ایم اے، پاکستان انجینئرنگ کونسل) کے ساتھ ساتھ عام عوام اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی بھی پشت پناہی حاصل ہے۔
بلال صدیقی نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ پاکستان میں قریب 20 ایسے مراکز موجود ہیں جہاں پہلے ہی تھری ڈی پرنٹنگ کا کام جاری ہے، اور اس کے لیے زیادہ جگہ کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔ ہم انہیں مفت میں اپنے ڈیزائن فراہم کرسکتے ہیں اور وہ وینٹی لیٹرز بنانے کا کام شروع کرسکتے ہیں جبکہ ہسپتال معیار کو یقینی بنانے کا کام انجام دے سکتے ہیں۔
مگر پیسے کہاں ہیں؟
بلال صدیقی کہتے ہیں کہ ’اگر ہم 2 دنوں کے اندر 3 لاکھ روپے اکٹھا کرسکتے ہیں تو کیا آپ کو ابھی بھی یہ بڑا مسئلہ محسوس ہوتا ہے۔ ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کے نزدیک پیسے کی مشکل سب سے کم مشکل ہے‘۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ہمارے لیے اصل مسئلہ وقت ہے‘۔ نیند سے محروم نوجوان کہتے ہیں کہ، ’ہمیں جلد از جلد یہ کام انجام دینا ہے کیونکہ یہی اس بحران کا تقاضا ہے‘۔
ہائی رسک مریضوں کی جانچ کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال
کراچی میں مقیم انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہر 40 سالہ سلمان خان گزشتہ 2 برسوں سے شعبہ صحت میں کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے برطانیہ سے لوٹنے کے بعد پیک (Pac) میں شمولیت اختیار کی اور اپنی ایپ Kwickdoctor.com کے ذریعے مدد فرام کرنے کی پیش کش کی۔ یہ ایپ عوام کو کنسلٹنٹس، ڈاکٹروں، فارمیسیوں، لیبارٹریوں سے جوڑنے کے ساتھ ساتھ طبّی نسخے ان کے دروازے تک پہنچانے کا کام بھی انجام دیتی ہے۔
ان کی یہ ایپ بہت ہی جدید محسوس ہوسکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت کو استعمال میں لاتے ہوئے وہ اس کی کارگزاری ثابت کرسکتے ہیں اور گہرے مطالعے کے ذریعے الگورتھم کی تیاری بھی ممکن ہے۔
وہ یہ دعوٰی کرتے ہیں کہ ان جیسے لوگ جن کی تعداد پاکستان میں بہت کم ہے وہ اسمارٹ فونز اور اسمارٹ کلائی میں پہنی جانے والی گھڑیوں کے ذریعے یہاں مرض کے پھیلاؤ کو گھٹا اور اس پر ضابطہ لاسکتے ہیں۔
خان کہتے ہیں کہ ’یہ بہت ہی سادہ سا طریقہ کار ہے، بس اس کے لیے ڈیٹا، بلکہ بہت سارا ڈیٹا چاہیے، جس کا الگورتھم کے ذریعے حساب لگایا جانا ہوتا ہے۔ اس عمل کے ذریعے ہم سیکنڈوں میں بہت حد تک لوگوں کی صحت کا ٹھیک ٹھیک اندازہ لگاسکتے ہیں‘۔ ساتھ ہی وہ اس کی مثال بھی دیتے ہیں کہ کس طرح وہاں اسمارٹ فونز یا کلائی میں پہنی ہوئی اسمارٹ کلائی والی گھڑیوں کے ذریعے انسانی نبض کے اتار چڑھاؤ کو جان کر کر ہائی رسک مریضوں کا پتا لگایا جاسکتا ہے۔
خان کہتے ہیں کہ ’اس طریقے کو اپنا کر اسکریننگ کے لیے استعمال ہونے والی کِٹوں کی کمی کے مسئلے کو حل کیا جاسکتا ہے۔ ڈیجیٹل طرز اور قابلِ کلک آپشنز کے ساتھ چیٹ بوٹس استعمال کرنے والے فونز سے اس عمل میں مزید تیزی آسکتی ہے کیونکہ ہم اس طرح یہ ٹریک کرسکتے ہیں کہ ایک شخص کہاں کہاں جا چکا ہے‘۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جنوبی کوریا اسی ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی روک تھام میں کامیاب ہوا تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ وبائی پھوٹ کے بعد سے ان کی ویب سائٹ پر رش بڑھ گیا ہے اور زیادہ سے زیادہ کنسلٹنٹس اور لوگ ویب سائٹ پر رجسٹر ہونا چاہتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ، ’چونکہ کوئی بھی ڈاکٹر یا عام شخص وائرس کا شکار نہیں ہونا چاہتا اس لیے ڈیجیٹل کیئر کو زبردست تقویت مل رہی ہے‘۔
کورونا وائرس سے پاکستان کو بچانے کی خاطر اپنا اپنا حصہ ڈالنے والے ان ذہین نوجوانوں کے ساتھ پُرعزم و بلند حوصلہ افراد کی بھی ضرورت ہے بھلے ہی ان کا ٹیکنالوجی کے شعبے سے تعلق کیوں نہ ہو۔
خان کہتے ہیں کہ ’مجھے ایسے افراد کی فوج کو تلاش کرنے میں زیادہ مشکل پیش نہیں آئے گی‘۔
محمد اسمٰعیل مزید کہتے ہیں کہ ان کا گروپ لوگوں کو بائیو سیفٹی کے حوالے سے تربیت بھی فراہم کر رہا ہے تاکہ انہیں مختلف علاقوں میں بھیجا جاسکے جہاں اگر وہ وائرس کی زد میں آجائیں تو انہیں پتا ہو کہ انہیں اپنی صحت کا خیال کس طرح رکھنا ہے۔
چونکہ بائیولوجسٹ لیبارٹریوں میں تربیت حاصل کرچکے ہوتے ہیں اس لیے ہم اس صورتحال سے وابستہ رسک کو سمجھتے ہیں اور یہ یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ اسے ہر ایک شخص سمجھے کہ مریضوں کی اسکریننگ، ان کی ٹیسٹنگ یا ان کے علاج معالجے کے دوران مناسب پی پی ای کا پروٹوکول کیا ہوتا ہے اور ان پر عمل کس طرح کیا جائے۔
لکھاری فری لانس صحافی ہیں۔ ان سے ٹوئٹر پر رابطہ کریں: Zofeen28@
ذوفین ابراہیم فری لانس جرنلسٹ ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: zofeen28@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔