کورونا وائرس اور اسلام آباد میں بڑھتا خوف
عمران خان صاحب کے وزیرِاعظم بننے کے بعد بنی گالہ ایک گاؤں سے ایک بارونق جگہ میں تبدیل ہوگیا ہے۔ نئی ہاؤسنگ سوسائٹیوں اور گھروں کی تعمیرات کے بعد مقامی آبادی بھی بہت بڑھ گئی ہے۔ ہمہ وقت چہل پہل رہتی ہے۔ سڑک پر ہر وقت پیدل چلنے والوں اور تیز رفتار گاڑیوں کا رش لگا رہتا ہے لیکن منگل کی صبح عام صبحوں سے بہت مختلف تھی۔
مسلسل بارش نے سڑک کو دھو کر چمکا دیا تھا۔ پہاڑوں پر بادل روئی کے سفید گالوں کی مانند اُڑ رہے تھے۔ موسم میں خوشگوار سی خنکی تھی۔ لیکن موسمِ بہار کی تمام تر رعنائی کے باوجود فضا بوجھل تھی۔
ہر طرف ہُو کا عالم تھا۔ میرے کمرے کی کھڑکی سے نظر آنے والی پنکچر کی دکان بند تھی۔ گاڑیاں دھونے والا احاطہ بھی ویران تھا۔
آج لاک ڈاؤن کا پہلا دن تھا۔ سوموار کو رات گئے پولیس، فوج اور رینجرز نے ایک مشترکہ فلیگ مارچ کیا تھا جس میں لاؤڈ اسپیکر پر شہریوں سے گھر میں رہنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ کورونا وائرس کی علامات ظاہر ہونے کی صورت میں فوراً ایمرجنسی نمبر 1122 پر کال کی جائے۔ سائرن چنگھاڑتی 50 سے زائد گاڑیوں پر مشتمل قافلے کو جس نے بھی دیکھا سہم گیا کہ ایک روز پہلے تک تو وزیرِاعظم شہر کو بند نہ کرنے کی یقین دہانی کروا رہے تھے۔ اچانک یہ کیا ہوگیا ہے!
اب کیا ہوگا؟ یہ وہ سوال تھا جو سب کے لبوں پر تھا۔ دوست فون کرکے پوچھ رہے تھے۔ وہ جاننا چاہتے تھے کہ شہر کی کون سی دکان کھلی رہے گی اور کون سی بند کی جائے گی اور جو بند ہوگی تو اس کا متبادل کیا ہوگا؟
اب دوستوں کو کیا معلوم کہ مجھے اور مجھ جیسے دوسرے صحافیوں کو تو آج کل پریس ریلیز کے ذریعے بس نپی تلی معلومات ہی مہیا کی جاتی ہیں جنہیں ہم پوری ایمانداری سے من و عن چھاپ یا براڈ کاسٹ کردیتے ہیں۔
انتظامیہ کو فون کیا تو معلوم ہوا وہ ابھی اپنا لائحہ عمل ترتیب دے رہے ہیں۔ کل کیا ہوگا انہیں بھی پتا نہیں تھا۔ سوچا اہم ضرورت کی اشیا خرید لاؤں۔ نکلا تو دیکھا کہ بنی گالہ سے متصل نیم دیہی علاقہ بہارہ کہو جزوی طور پر بند تھا۔ کھانے پینے یا ادویات کی دکانوں کے علاوہ دوسری تمام دکانیں بند تھیں۔ شہریوں کی ایک بڑی تعداد ویگنوں کے انتطار میں اڈوں پر کھڑی تھی۔ ٹھیلے والوں کے علاوہ سڑکوں پر دیاڑی دار مزدور تھے جو پریشان نظروں سے ہر آنے جانے والوں کو تک رہے تھے کہ شاید کوئی کام آجائے۔
بارش میں بھیگتے پولیس اہلکار لوگوں کو منتشر کرنے کی اپنی سی کوشش کر رہے تھے۔ چند بچے اور نوجوان ٹھیلوں پر ماسک بیچ رہے تھے۔ ہرطرف ایک سراسمیگی تھی۔
ایک روز پہلے بہارہ کہو کی ہی ایک مسجد میں مقیم ایک تبلیغی گروہ میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی تھی جس کے بعد مسجد اور اس کے ملحقہ سارے علاقے کو سیل کردیا گیا تھا۔ مکینوں میں اس واقعے کی دہشت موجود تھی۔ دکانداروں نے ماسک کے علاوہ دستانے بھی چڑھائے ہوئے تھے۔ تاہم کئی اس مہلک وائرس کی سنگینی سے بے نیاز خوش گپیوں میں مصروف تھے۔
سیرینا چوک پہنچا تو دیکھا ٹریفک تو ہے مگر معمول سے بہت کم۔ سب نے دھول سے بچنے والے ماسک چہرے پر لگائے ہوئے تھے کہ کورونا کے خلاف مؤثر سمجھے جانے والے N-95 ماسک تو جنوری میں ہی مارکیٹ سے غائب ہوگئے تھے۔ چاروناچار ڈاکٹر اور پولیس اہلکاروں سمیت سب یہی چیتھڑے چہروں پر پہنے تھے کہ کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا تو بہرحال بہتر ہے.
آبپارہ پہنچا تو دیکھا کہ متوسط طبقے کی ساری مارکیٹ بند ہے۔ سبزی پھل کی چند دکانیں کھلی تھیں یا پھر ہوٹل اور بیکریاں۔ ہر طرف خاموشی تھی۔ ایک طرف چند نوجوان کرکٹ کھیل رہے تھے۔ شہری پریشان تھے کہ انتظامیہ شہر کی مرکزی سبزی منڈی بند کرنے لگی ہے تو ایسے میں دکانوں کو سبزی پھل کہاں سے مہیا ہوگا۔ چھابڑی والوں اور دوسرے دیہاڑی دار مزدوروں کا کیا ہوگا؟ ان کے خاندانوں کو روٹی کیسے مہیا ہوگی؟ اگر منڈی کھلی بھی رہے تو دوسری شہروں سے یہاں تک پہنچے گی کیسے۔
ہر طرف سوالات ہی سوالات تھے۔ پیٹرول پمپ گیا تو وہاں معلوم ہوا کہ کراچی سے 2 دن سے تیل کی کمک نہیں آئی اور پنڈی میں واقع ذخیرے سے ضروریات پوری کی جارہی ہیں۔ چند دن میں جب یہ ختم ہوجائے گا تو پھر کیا ہوگا؟ شہری شاکی تھے کہ شہر بند کرنے سے پہلے عوام کو وقت نہیں دیا گیا کہ وہ اپنے گھروں میں راشن اور دوسرا سامان ذخیرہ کرلیں۔ بینک گیا تو رش لگا ہوا تھا۔ لوگ دربان سے الجھ رہے تھے۔
معلوم ہوا کہ بینک ایک وقت میں محض 5 لوگوں کو داخل ہونے کی اجازت دے رہے ہیں۔ بینک کے اندر صرف ایک کیشئیر موجود ہے جو بہت دیر سے ایک پٹرول پمپ کا کیش گن رہا ہے اور باہر قطار طویل ہوتی جارہی ہے۔ عملے کا کہنا تھا کہ اسٹیٹ بینک کے احکامات کی روشنی میں عملہ انتہائی مختصر کردیا گیا ہے اور اگر کسی کو شکایت ہے تو اسٹیٹ بینک سے رجوع کرے۔
پی ٹی سی ایل سمیت موبائل فون کمپنیوں کے دفاتر پر نوٹس لکھ کر لگا دیا گیا تھا کہ وہ غیر معینہ مدت تک بند رہیں گے۔ پاکستان سیکریٹریٹ اور شاہراہِ دستور پر واقع دوسرے سرکاری دفاتر کھلے تھے مگر حاضری بہت کم تھی۔ شہر کی پوش مارکیٹیں دن کے وقت تو کھلیں لیکن دوپہر تک پولیس نے انہیں بند کروادیا۔
اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ افسران ایک اعلیٰ سطح اجلاس میں مصروف ہیں۔
ایک شناسا افسر سے بات ہوئی۔ وہ بہت خوش تھے کہ آخر انتظامیہ اسلام آباد کو بند کروانے میں کامیاب ہو ہی گئی۔ انہوں نے بتایا کہ انتطامیہ کئی دنوں سے شہر کو بند کروانا چاہتی تھی کہ شہر میں اتنے وسائل نہیں کہ کسی وبا کا مقابلہ کیا جاسکے۔ جبکہ وزیرِاعظم کا اصرار تھا کہ شہر کو بند کردینے سے غربت سے نیچے بسنے والے 25 فیصد سے زائد شہری پِس جائیں گے۔
اب انہیں کیا پتہ کہ ڈالر کی حالیہ انگڑائی سے 70 فیصد آبادی تو ویسے ہی غربت کی لکیر سے نیچے چلی گئی ہے۔ تاہم انتظامیہ نے وزیرِاعظم کو یہ کہہ کر قائل کیا کہ شہر کے واحد ہسپتال میں محض 200 مریضوں کی گنجائش ہے۔ اگر بیماری پھیلی تو طبّی سہلوت کی عدم دستیابی پر بھی تو لوگ سڑکوں پر نکل آئیں گے۔
پھر جب اداروں نے تسلی دلائی تو وہ مانے۔ اس اجازت کے پیچھے ہفتہ اور اتوار کے روز سامنے آنے والے نئے کورونا کے کیس بھی تھے۔
خدشہ ہے کہ ان مریضوں نے کئی لوگوں کو متاثر کیا اور یہ دوسرے صحت مند افراد میں مسلسل بیماری پھیلا رہے ہیں۔ آنے والے دنوں میں کورونا مریضوں کی بہت بڑی تعداد سامنے آسکتی ہے، پھر امریکی سفارت خانے سے حال ہی میں 70 سے زائد سفارتی عملے کا انخلا بھی موضوعِ بحث ہے۔
کمشنر آفس کے عملے سے رابطہ ہوا تو پتا چلا کہ اداروں سے مل کے لائحہ عمل تیار کیا جارہا ہے جو جلد ہی مکمل ہوجائے گا۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ کورونا کے حوالے سے جو اقدامات پنجاب نے اٹھائے ہیں اسلام آباد میں بھی چند ترامیم کے ساتھ انہیں لاگو کیا جائے گا اور شام تک حکم نامہ جاری ہوگیا۔
ضلعی مجسٹریٹ کی جانب سے جاری ہونے والے اس حکم کے تحت دارالحکومت کی تمام مارکیٹیں، شاپنگ مالز، ریسٹورینٹس اور نجی دفاتر 7 اپریل تک بند رہیں گے۔ جبکہ سرکاری دفاتر صبح 10 بجے سے شام 4 بجے تک جبکہ جمعے کے روز ایک بجے تک کام کریں گے۔ ملک کے دوسرے صوبوں، شہروں اور ضلعوں کے مابین بسیں اور کوچیں معطل رہیں گی جبکہ میٹرو بس محدود اوقات کے لیے چلائی جائے گی۔
2 صفحوں کے اس حکم نامے میں ساری تفصیل درج ہے اور اگر نہیں ہے تو یہ کہ جب پورا شہر بند کردیا گیا ہے تو دیہاڑی دار مزدور اپنی روزی کیسے کمائیں گے؟
واقفینِ حال جانتے ہیں کہ شہر میں واقع 7 سرکاری پناہ گاہوں میں محض ایک ہزار افراد کی گنجائش ہے۔ اس تھوڑی سی تعداد پر بھی انتظامیہ پر الزام لگتا رہتا ہے کہ وہ ناجائز ذرائع سے ان پناہ گاہوں کو محض نمائش کے لیے چلارہی جس کی ڈپٹی کمشنر آفس سے گاہے بگاہے تردید ہوتی رہتی ہے۔ ہاں کبھی یہ نہیں بتایا گیا کہ فنڈنگ آتی کہاں سے ہے؟
پھر اس حوالے سے بھی کوئی بات نہیں کی گئی کہ کارخانوں اور دکانوں میں دیہاڑی پر کام کرنے والوں کا چولہا کیسے جلے گا۔ ٹیکسی ڈرائیور کیسے اپنے کنبے کا پیٹ پالے گا؟
کورونا کے ڈر سے لوگوں نے گھروں میں کام کرنے والوں کو برخواست کردیا ہے۔ ان کا کیا بنے گا؟ اس حوالے سے بھی یہ حکم نامہ خاموش ہے۔ اگر جمع خرچ کیا جائے تو ان مزدور پیشہ افراد کی تعداد لاکھوں میں ہوگی۔
اگر یہ فرض بھی کرلیا جائے کہ شہر میں موجود ایک چوتھائی ضرورت مندوں کو 3 ہزار روپے فوری فراہم ہوجائیں گے تو صاحب اسلام آباد میں آٹا 60 روپے کلو، دودھ 120 روپے، تیل گھی 240 روپے لیٹر، بڑا گوشت 550 روپے کلو جبکہ پیاز 100 روپے کلو ہے ایسے میں 3 ہزار کتنے دن چل سکتے ہیں؟
سرکاری ہسپتالوں کے روزمرہ امور معطل ہونے کے بعد شہری اپنے دوسرے جملہ امراض کے لیے کہاں جائیں اس بات کا بھی اس حکم نامے میں کوئی ذکر نہیں۔ اگر کسی غریب کو دل کا دورہ پڑجائے تو وہ کہاں جائے گا۔ اسی طرح مرکزی منڈیوں کی بندش کے بعد سبزی سلف محلے کی دکانوں تک کیسے پہنچے گی اس بات کا تذکرہ بھی موجود نہیں۔
ماہرین کا خیال ہے کہ وبا کے پھوٹتے ہی پے در پے غلطیوں کے باعث اب معاشی مضمرات سے فرار ممکن نہیں۔ ساتھ ہی پاکستان نے عالمی منڈی میں تیل کی گرتی قیمتوں یا پھر کورونا کے بعد تبدیل ہوتی دنیا سے کاروباری فائدہ اٹھانے کے موقع کو بھی گنوا دیا ہے۔