طالبان حملہ بھی حوصلہ پست نہ کر سکا، رومینین کوہ پیما

اسلام آباد: جب طالبان نانگا پربت کے بیس کیمپ پر غیر ملکی کوہ پیماؤں کے ایک گروپ کے بہیمانہ قتل میں مصروف تھے تو دوسری طرف رومانیہ کے کوہ پیما زولٹ توروک ہزاروں میٹر بلند پاکستان کی دوسری سب سے اونچے چوٹی کو سر کرنے میں لگے ہوئے تھے۔ وہ اس بات سے غافل تھے کہ کچھ ہزار میٹر نیچے کیا قیامت گزر رہی ہے۔
انہوں نے بتایا: 'میں نے سٹیلائٹ فون سے اپنی بیوی کو کال کی تو اس نے بتایا کہ طالبان نے بیس کیمپ میں سب کو مار دیا۔ اس اطلاع پر مجھے ایک جھٹکا لگا۔ ہم صرف اس لئے بچ گئے تھے کہ ہم نے دوسرا راستہ چنا تھا'۔
اس واقعہ کے باوجود نڈر اور بے خوف، توروک اور چار دیگر رومینین کوہ پیماؤں نے اپنا سفر جاری رکھا اور گزشتہ ایک دہائی میں پاکستان میں غیر ملکیوں پر ہونے والے سب سے خونریز حملے کے بعد گزشتہ ہفتے نانگا پربت چوٹی کو سر کرنے والی پہلی مہم بن گئے۔
پاکستانی طالبان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے جس میں 22 جون کو صبح ہونے سے پہلے پولیس کی وردیوں میں ملبوس مسلح افراد نے 4600 میٹر بلندی پر موجود بیس کیمپ پر دھاوا بولا اور دس غیر ملکی کوہ پیماؤں اور ایک پاکستانی گائیڈ کو ہلاک کر دیا۔
مرنے والوں کا تعلق چین، لتھوینیا، نیپال، سلوواکیہ اور یوکرائن سے تھا جبکہ ایک کوہ پیما کے پاس چین اور امریکا کی دہری شہریت تھی۔ اس واقعہ میں صرف ایک چینی کوہ پیما ہی جان بچا پایا تھا۔
اس واقعے کے بعد سے 8126 میٹر بلند، اور دنیا کی نویں بلند ترین چوٹی نانگا پربت کو سر کرنے کی بہت سی مہمات منسوخ ہو گئی ہیں۔
نانگا پربت، کوہ پیماؤں میں 'قاتل پہاڑ' کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ان مہمات کی منسوخی سے پاکستان میں کوہ پیمائی کے شعبے کو ایسے وقت میں زد لگی ہے جب اس کا سیزن اپنے عروج پر تھا۔
توروک اور ان کی ٹیم، انیس جولائی کو چوٹی سر کرنے کے بعد اپنے وطن واپس جاتے ہوئے اسلام آباد میں ٹہرے اور بتایا کہ حملے کے باوجود ان کے اعصاب متاثر نہیں ہوئے اور وہ اپنے کیمپ کی حفاظت پر مامور دس پاکستانی مسلح گارڈز کی موجودگی میں خاصا محفوظ محسوس کر رہے تھے۔
توروک نے رومانیہ کے سفیر کی اسلام آباد میں رہائش گاہ پر رائیٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا: 'مارے جانے والے کوہ پیما معصوم تھے۔ صاف نظر آتا ہے کہ دہشت گرد اپنی کارروائی کے لیے پوری طرح تیار تھے۔ وہ سب کو حیران کرنا چاہتے تھے'۔
تشدد کے سال
پاکستان کے دیگر کئی پہاڑوں کی طرح نانگا پربت بھی اپنی برفیلی ڈھلانوں اور دھوکہ دینے والی دراڑوں کے ساتھ، چڑھنے میں انتہائی دشوار ہے اور یہی بات اسے دنیا میں تیزی سے پراون چڑھتی ایکسٹریم سپورٹس انڈسٹری میں اور بھی زیادہ پرکشش بناتی ہے۔
پاکستان سات ہزار میٹر سے زیادہ بلندی والے پہاڑوں میں نیپال کا ہم پلہ ہے۔ یہاں دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو بھی ہے اور دنیا کی آٹھ ہزار میٹر سے بلند 14 میں 4 چوٹیاں بھی یہیں واقع ہیں۔
لیکن ممکنہ طور پر پاکستان میں یہ منافع بخش سیاحتی صنعت، سالوں سے جاری تشدد کی وجہ سے پروان ہی نہیں چڑھ پا رہی۔
مستقبل میں پہلے سے طے شدہ مہمات کی تعداد روز بروز گھٹتی جا رہی ہے اور اس کی وجہ سے وہ لوگ بری طرح متاثر ہو رہی ہیں جن کا گزر بسر اس صنعت سے وابستہ ہے۔
سیاحوں کا یہاں رخ نہ کرنے کی وجہ سے پاکستان کو بھی اس کثیر زر مبادلہ سے محروم رہنا پڑ رہا ہے جو مقامی معیشت کو سہارا دینے میں معاون ثابت ہو سکتا تھا۔
ملک میں آخری بار سیاحت کی صنعت 1970 کے عشرے میں پھلی پھولی تھی جب پاکستان مغربی عوام کے لئے یوریشیا کی ایک ہپی ٹریل (راستے) پر واقع تھا اور اس کی شہرت افسانوی خوبصورتی کی وجہ سے تھی۔
بعد میں افغانستان پر سوویت یونین کے قبضے اور وسطی اور جنوبی ایشیا میں پھیلی بے چینی کے سبب یہ سنہرا دور اپنے وقت سے پہلے ہی ختم ہو گیا اور پھر پاکستان میں سیاحت کا شعبہ کبھی اپنے پاؤں پر کھڑا نہ ہو سکا۔
رومانیہ کے ان کوہ پیماؤں نے نانگا پربت سر کرنے کیلئے، روپل کے خطرناک راستہ کا انتخاب کیا جو 4500 میٹر بلند عمودی پتھر کی دیوار ہے اور جو برف اور ہر سمت سے آتی برفیلی ہواؤں کی زد میں رہتا ہے۔ طالبان کا حملہ پہاڑ کی دوسری جانب ہوا تھا۔
توروک نے امید ظاہر کی کہ ان کے تجربے سے دوسرے کوہ پیماؤں کی حوصلہ افزائی ہو گی کہ وہ پاکستان واپس آئیں اور ہندو کش، قراقرم اور ہمالیہ کے مغربی سلسلے میں موجود بہت سی ناتسخیر چوٹیوں کو سر کریں۔
توروک نے بتایا: 'ہم پلٹنا نہیں چاہتے تھے اور ہم نے پلٹنے کا ایک لمحے کے لئے بھی نہیں سوچا'۔