• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm

600 ارب کے بجائے صرف 15 ارب میں کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی ممکن؟

کے سی آرکی بحالی میں ناکامی کی اہم وجہ لاگت کے بلند تخمینے ہیں، مگر ہم بہت ہی کم پیسوں میں بھی اسے بحال کرسکتے ہیں۔
شائع March 16, 2020

اب تک قارئین کو کراچی سرکلر ریلوے (کے سی آر) سے متعلق متعدد مضامین پڑھنے کا اتفاق تو ضرور ہوا ہوگا۔ کئی نے تو اس کے سی آر سے جڑی یادوں کا احوال بھی پڑھ رکھا ہوگا جس کی ابتدا 1964ء میں ہوئی تھی اور جو اپنی مقبولیت کے عروج کے دنوں میں 60 لاکھ مسافروں کو اپنی منزلوں تک پہنچایا کرتی تھی۔ صنعتی، تجارتی، تعلیمی اور رہائشی علاقوں کو مربوط رکھنے والی کے سی آر بلاشبہ 25 سے زائد برسوں تک کراچی والوں کی پسندیدہ عوامی ٹرانسپورٹ کا ذریعہ بنی رہی۔

اور پھر ایک دن اسے بند کردیا گیا۔

افغان جنگ کے بگاڑ سے قوت پانے والی ٹرانسپورٹ مافیا کے دباؤ کا مقابلہ نہ کرپانے، بگڑتی ہوئی سفری خدمات اور کرایہ چوری کے بڑھتے رجحان کے پیش نظر ریلوے کے نااہل حکامِ بالا نے کراچی کے اس بنیادی ماس ٹرانزٹ سسٹم کو وقت اور حالات کے تقاضوں کے مطابق ٹھیک کرنے کے بجائے اسے اپنے حال پر چھوڑ دیا۔ اگلی ایک دہائی تک کے سی آر اپنی محدود ہوتی اور لڑکھڑاتی ہوئی سروس کے باوجود جاری رہی، مگر 1999ء میں اسے بند ہونا پڑا اور کسی کو کوئی خبر نہیں تھی کہ یہ کبھی فعال ہوگی بھی یا نہیں۔

قریب 2 دہائیوں بعد سپریم کورٹ آف پاکستان کے سی آر کے سفر کو دوبارہ شروع کرنا چاہتی ہے۔ غیر فعال کے سی آر کی بحالی کے لیے بھلے ہی نیک نیتی اپنے عروج پر ہو مگر اس منصوبے پر آنے والی ممکنہ لاگت کو دیکھا جائے تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس بحالی کے راستے پر چلنا عقلمندی ہوگی؟

گلشن اقبال میں ریلوے اسٹیشن کے قریب متروکہ پٹریوں کے پاس کھڑے کیے گئے ٹریمپولن پر بچے کھیل رہے ہیں—تصویر فہیم صدیقی/وائٹ اسٹار
گلشن اقبال میں ریلوے اسٹیشن کے قریب متروکہ پٹریوں کے پاس کھڑے کیے گئے ٹریمپولن پر بچے کھیل رہے ہیں—تصویر فہیم صدیقی/وائٹ اسٹار

جاپانی انٹرنیشنل کوآپریشن ایجنسی (جیکا) کے تخمینوں کے مطابق اس منصوبے پر 2 ارب 60 کروڑ ڈالر جتنی کثیر لاگت آئے گی۔ اس کا مطلب ہے کہ 30 برسوں تک سود کی مد میں 3 کروڑ 95 لاکھ ڈالر ادا کرنے ہوں گے۔ اگر سہہ ماہی کی بنیاد پر قرض کی کل رقم بمعہ سود (principal plus interest) ادا کی جاتی ہے تو اس کا مطلب ہوگا کہ اگلی 3 دہائیوں تک ہر 3 ماہ بعد 2 کروڑ 20 لاکھ ڈالر (موجود شرح مبادلہ کے مطابق) 3 ارب 40 کروڑ روپے ادا کرنے ہوں گے۔

حکومتی قرضے اور سبسیڈیز کے علاوہ عام صارف کو بھی یہ منصوبہ متاثر کرے گا۔ منصوبہ مہنگا ہونے کے باعث ظاہر ہے کہ ٹکٹوں کی قیمیتیں بھی زیادہ رکھنی ہوں گی، اتنی زیادہ کہ شاید ایک عام آدمی کی قوتِ خرید سے بھی باہر ہوں۔ پھر اس پراجیکٹ کی خاطر غیر قانونی قبضے ہٹانے کے لیے شروع کیے گئے آپریشنوں پر آنے والی سماجی لاگت کا بھی سامنا کرنا پڑے گا جن پر پہلے ہی شور مچایا جا رہا ہے۔

مگر ان تمام باتوں سے یہ حقیقت نظر انداز نہیں ہوجاتی کہ کراچی کو ایک مؤثر ٹرانسپورٹ کا نظام درکار ہے۔ مگر کراچی کے موجودہ حالات اور ان وقتوں کے حالات میں بڑا فرق پیدا ہوچکا ہے جب کے سی آر کی سروس بند ہوئی تھی۔

1998ء کی مردم شماری کے مطابق ان دنوں کراچی کی آبادی محض ایک کروڑ ہی تھی۔ گزشتہ 22 برسوں کے دوران کراچی میں عوامی ٹرانسپورٹ یا سڑک کے انفرااسٹرکچر کی بڑھوتری کے مقابلے میں نجی سواریوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ محکمہ ایکسائز کے ریکارڈز کے مطابق 1998ء کے بعد سے رجسٹر شدہ گاڑیوں کی تعداد 3 لاکھ سے بڑھ کر 15 لاکھ تک پہنچ چکی ہے اور رجسٹر شدہ موٹرسائیکلوں کی تعداد 3 لاکھ 50 ہزار سے بڑھ کر 30 لاکھ 50 ہزار تک پہنچ چکی ہے جبکہ دوسری طرف بسوں کی تعداد 22 ہزار سے گھٹ کر محض 6 ہزار تک جا پہنچی ہے۔

ان غیر معمولی تبدیلیوں کے نتیجے میں سڑکوں پر ٹریفک کے رش، روڈ حادثات بالخصوص 2 پہیوں والی سواریوں کے ساتھ پیش آنے والے حادثات اور ان کے سبب ہونے والی اموات کی تعداد میں زبردست اضافہ ہوا ہے، صوتی آلودگی کی شدت بڑھی اور شہر کا فضائی معیار سنگین حد تک متاثر ہوا ہے۔ ان حالات نے شہریوں کی ذہنی و جسمانی صحت کو کافی نقصان پہنچایا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ جب موجودہ کراچی میں سفری پریشانیوں کا حل کے سی آر کو بتایا جاتا ہے تب حیرانی نہیں ہوتی۔ تاہم جو مسئلہ آڑے آتا ہے وہ ہے اس منصوبے کا ڈیزائن اور اس پر عمل درآمد۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کے سی آر کو جس لاگت کے ساتھ بحال کیے جانے پر غور کیا جا رہا ہے اس کے مقابلے میں کہیں زیادہ سستی لاگت کے ساتھ یہی کام کیا جاسکتا ہے۔ تاہم اس آپشن کے لیے ایک غیر روایتی سوچ کی ضرورت پڑے گی اور دوبارہ ڈرائنگ بورڈ کی طرف لوٹنا ہوگا۔

کے سی آر کی بحالی مگر کیسے؟

کے سی آر کی بحالی کے لیے زیادہ مفید منصوبے پر بات کرنے سے قبل ہم ایک نظر بحالی کی اب تک کی کاوشوں بالخصوص مختلف جاپانی اداروں کی کوششوں پر ڈالتے ہیں۔

Japan External Trade Organization (جیترو) نے 2006ء میں کے سی آر کی بحالی منصوبے کی عمل پذیری یا فزیبلٹی سے متعلق تحقیقی کام انجام دیا تھا۔ مئی 2008ء میں حکومتِ پاکستان نے Karachi Urban Transport Corporation (کے یو ٹی سی) کو ایک سرکاری کمپنی کا درجہ دیا اور اس کمپنی کو کے سی آر منصوبے پر عمل درآمد کے لیے ایک ریگولیٹری اتھارٹی کے ہم پلہ تصور کیا گیا۔

جیکا نے اپنے Special Assistance for Project Formulation - SAPROF-1&2 نامی پراجیکٹ کے تحت 2008ء اور 2012ء کے درمیان متعدد تحاقیق کیں، جن میں ٹرانسپورٹ کی طلب کے اندازوں، ڈیزائن اور تکنیکی ضروریات، لاگت کے تخمینوں وغیرہ کو جاننے کی کوشش کی گئی۔ ان تحقیقی کاموں کے دوران جاپانی مشیران اور ماہرین کے یو ٹی سی کی تکنیکی پلاننگ، تنظیم کاری، لاگت، سماجی و ماحولیاتی باریکیوں اور کے سی آر کی زمینوں پر آباد ہونے والی غیر قانونی کچی بستیوں کی دوبارہ آبادی کاری سے متعلق منصوبہ بندی میں معاونت کرتے رہے۔

جاپانی حکومت نے اپنے Special Term for Economic Partnership loan (اسٹیپ) کے تحت کے سی آر بحالی منصوبے کے لیے قرضہ دینے پر اپنی رضامندی کا اشارہ بھی دیا۔ اسٹیپ کے تحت لیے گئے قرضے کو 0.1 فیصد سالانہ مارک اپ پر 30 برسوں میں ادا کرنا ہوتا ہے۔ ’ین لون‘ لینے کا مطلب یہ تھا جاپانی ٹیکنالوجی، مشین اور سازو سامان اور جاپانی ریلوے کے معیارات کو یہاں اپنانا۔

ناظم آباد میں موجود سرکلر ریلوے کی غیرفعال پٹریوں پر ایک آدمی پیدل چل رہا ہے —تصویر طاہر جمال/وائٹ اسٹار
ناظم آباد میں موجود سرکلر ریلوے کی غیرفعال پٹریوں پر ایک آدمی پیدل چل رہا ہے —تصویر طاہر جمال/وائٹ اسٹار

جیکا نے منصونے کے بنیادی اور تفصیلی ڈیزائن کے لیے 5 برس اور اس کے تعمیراتی مرحلے کے لیے حکومتِ پاکستان کی وزارتِ خزانہ اور ڈویژن برائے اقتصادی امور کی منظوری، کے یو ٹی سی کے لیے اسٹیپ لون کے معاہدے پر دستخط اور اس کی منظوری کے بعد مزید 5 سال کی مدت کا تخمینہ لگایا۔

اس کے علاوہ کے سی آر کے 24 کلومیٹر پر محیط سطح زمین سے اوپر والے حصوں، 16 کلومیٹر پر مشتمل سطح زمین پر موجود حصوں اور گھنی آبادی والے علاقوں اور کچی آبادی سے گزرتے کئی کلومٹیر پر پھیلے سطح زمین سے نیچے والے حصوں کے تعمیراتی کام کے لیے مزید 5 برسوں کا تخمینہ لگایا گیا۔

بلاشبہ جیکا نے کراچی کے ٹریفک سے جڑے مسائل کو سمجھنے اور اسے ٹھیک کرنے کے حوالے سے بہت ہی زبردست اور قابلِ تعریف کام کیا ہے۔ لیکن شاید وہ سب کچھ ایک سبز باغ ہی تھا۔

2013ء میں پاکستان مسلم لیگ (ن) نے پارلیمانی انتخابات کے بعد پیپلزپارٹی کی جگہ وفاقی حکومت سنبھال لی۔ نئی حکومت نئی ترجیحات کے ساتھ اقتدار میں آئی اور کے سی آر بحالی منصوبے پر پاکستان ریلوے اور حکومتِ سندھ کے درمیان شروع ہونے والی کبھی نہ ختم ہونے والی لڑائی نے بالآخر جاپانیوں کو منصوبے کے لیے اپنی تکنیکی اور مالی معاونت ترک کرنے پر مجبور کردیا۔

سی پیک کی آمد کے ساتھ کے سی آر کی بحالی کے لیے امید کی کرن نظر آئی۔ ریلوے حکام نے جیکا کی تحاقیق اپنے چینی ہم منصوبوں کے ساتھ بانٹی اور پھر دسمبر 2016ء میں بیجنگ میں منعقد ہونے والی مشترکہ تعاون کمیٹی کے اجلاس میں یہ پہلے سے تیار شدہ کے سی آر منصوبہ سی پیک میں شامل کرلیا گیا۔ تاہم کے یو ٹی سی کی اہم شخصیات میں یہ ڈر پنپ رہا ہے کہ کے سی آر کی بحالی پر آنے والی لاگت میں ایک ارب امریکی ڈالر تک اضافہ ہوسکتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق کے سی آر کی بحالی کے لیے اب قریب 4 ارب ڈالر کی لاگت آسکتی ہے۔

رہی سہی کسر ملک کی ڈوبتی معیشت اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) پر انحصار نے پوری کردی جس نے پاکستان ہی نہیں بلکہ چینی اعلیٰ افسران میں یہ عام خیال پیدا کردیا کہ تمام عملی مقاصد کے لیے سی پیک شاید اس وقت اہم ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔ اگر یہ سچ ہے تو اس کا مطلب ہے کہ کے سی آر کو ایک بار پھر اپنے حال پر چھوڑ دیا گیا ہے۔

ریل کوٹیشن
ریل کوٹیشن

مگر کے سی آر کی بحالی کی اب بھی کچھ امید باقی ہے۔ جیکا کی تحقیقی ٹیموں کی تجاویز میں تبدیلیاں پیدا کرکے منصوبے میں ایک نئی روح پھونکی جاسکتی ہے اور چند جگہوں پر متبادل طریقے اپنا لاگت کو گھٹایا جاسکتا ہے۔

کے سی آر سے متعلق جیکا کے پلان اتنے مہنگے کیوں ہیں؟ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ ہم اندازوں کو سمجھنے اور یہ سمجھانے کی کوشش کریں گے کہ کس طرح کے سی آر منصوبے پر آنے والی لاگت کو قابلِ انتظام مالی سطح پر لایا جسکتا ہے۔

گیج کا معیار اور اس کی عملیت

اس وقت پاکستان میں تقریباً ساری ریل پٹریاں ’براڈ گیج‘ ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی چوڑائی ایک ہزار 676 ملی میٹر (5 فٹ، 6 انچ) ہے۔ پھر 80 فیصد پٹریاں 80 سے 90 برس پرانی ہیں۔ اس لیے جیکا کی تحقیقی ٹیم نے جاپان کے شہری ریلوے کے معیار کے مطابق کے سی آر کی پٹریوں کو ’اسٹینڈرڈ گیج‘ میں تبدیل کرنے کی تجویز دی تھی جس کی چوڑائی ایک ہزار 435 ملی میٹر (4 فٹ، ساڑھے 8 انچ) ہوتی ہے۔ عالمی سطح پر سب سے زیادہ یہی گیج استعمال ہوتا ہے۔ دنیا میں نصف سے زائد ریلوے اسٹینڈرڈ گیج پر ٹرینیں چلاتے ہیں اور تقریباً تمام تیز رفتار ریل لائن اسی کو استعمال کرتی ہیں۔

اگرچہ پٹریوں کی اسٹینڈرڈ گیج میں تبدیلی کا مطلب مہنگے نئے انفرااسٹرکچر کی تعمیر ہوتا لیکن جیکا نے واضح طور پر سوکوبا ایکسپریس (جاپانی ریلوے لائن جس کی ٹاپ اسپیڈ 130 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے) جیسا کارکردگی معیار حاصل کرنے کی امید ظاہر کی تھی۔ جیکا اور کے یو ٹی سی نے ٹرینوں کی مطلوبہ تعداد، بوگیوں کی بناوٹ اور 24 اسٹیشنوں پر دن کے مصروف اور عام اوقات میں آمد و رفت پر بھی کام مکمل کرلیا تھا۔

’کے سی آر‘ کے لیاقت آباد اسٹیشن کی گوگل تصویر۔ گوگل تصریر کا جائزہ لیا جائے تو کے سی آر کے سرکلر لوپ میں 25 سے 50 میٹر چوڑائی والی کے سی آر کی زمین کے قریب 90 فیصد حصے پر کہیں غیرقانونی قبضے دکھائی نہیں دیتے۔
’کے سی آر‘ کے لیاقت آباد اسٹیشن کی گوگل تصویر۔ گوگل تصریر کا جائزہ لیا جائے تو کے سی آر کے سرکلر لوپ میں 25 سے 50 میٹر چوڑائی والی کے سی آر کی زمین کے قریب 90 فیصد حصے پر کہیں غیرقانونی قبضے دکھائی نہیں دیتے۔

جیکا کی تحقیقی ٹیم نے رائے دی تھی کہ کے سی آر میں 4 بوگیوں پر مشتمل 24 ٹرینیں شامل کی جائیں، جو ڈرگ اسٹیشن سے شروع ہوں اور ہر 6 منٹ بعد دیگر 23 اسٹیشنوں پر مسافروں کو اٹھاتی جائیں۔ پلان کے مطابق 43 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑتی ان ٹرینوں کو گلشن، لیاقت آباد، ناظم آباد، سائٹ ایریا، وزیر مینشن، آئی آئی چندریگر روڈ اور شارع فیصل میں موجود دیگر اسٹیشینوں سے ہوتے ہوئے ایک گھنٹے میں واپس ڈرگ اسٹیشن پر لوٹنا تھا۔

مگر نئی پٹریاں لگانا کوئی اتنا سستا کام نہیں ہے۔ خوش قسمتی سے براڈ گیج کی صلاحیتوں کو نہ تو یکسر نظرانداز کیا جاسکتا اور نہ ہی اسے آزمایا گیا ہے۔ دنیا کے دیگر حصوں میں ایسے ریلوے نظام پائے جاتے ہیں جنہوں نے براڈ گیج پر electric multiple units (ای ایم یوز) کا کامیابی کے ساتھ استعمال کر رہے ہیں۔ ای ایم یوز وہ بوگیاں ہوتی ہے جس میں ہر بوگی اپنی اپنی برقی قوت سے پٹریوں پر چلتی ہے۔ ای ایم یوز کو علیحدہ انجن کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ ان میں سے ایک یا اس سے زائد بوگیوں میں نصب برقی ٹریکشن موٹر کی قوت سے چلتے ہیں۔ ای ایم یوز تیزی سے رفتار بڑھانے یا گھٹا کر خود کو روکنے اور ماحول کو آلودگی سے پاک رکھنے کی اپنی صلاحیت کی وجہ سے مسافروں اور سب اربن (مضافاتی) ریل نیٹ ورک میں خاصی مقبولیت رکھتے ہیں۔

دُور کیوں جانا؟ پڑوسی ملک کے شہر ممبئی میں ای ایم یوز پر مشتمل جدید مقامی سطح پر تیار ہونے والے جدید ٹرین سسٹم براڈ گیج ہی استعمال کرتا ہے۔ کے سی آر بھی 35 برسوں تک براڈ گیج استعمال کرتا رہا اور اگر آگے بھی انہی پٹریوں کو استعمال کیا جاتا ہے تو بحالی منصوبے کی لاگت میں کمی آئے گی۔

بوگیاں اور ای ایم یو

ممبئی سب اربن ریلوے (ایم ایس آر) اور کے سی آر کے درمیان مماثلت صرف یہیں پر ہی ختم نہیں ہوجاتی۔ ’لوکل‘ کے نام سے مشہور ایم اس آر کا نظام انڈین ریلوے کی مرکزی پٹریوں پر مسافر ریل اور سب اربن ریلوے لائنوں پر مشتمل ہے، یوں یہ نظام دُور دُور تک پھیلے میٹروپولیٹن علاقے کو اپنی خدمات فراہم کرتا ہے۔ روزانہ 200 کے قریب 12 اور 15 بوگیوں پر مشتمل ای ایم یو ٹرینیں ممبئی میں 400 کلومیٹر پر پھیلی پٹریوں پر دوڑتی ہیں۔ اوسطاً 2 ہزار 342 ٹرینیں روزانہ 70 لاکھ 50 ہزار سے زائد مسافروں اور سالانہ 2.64 ارب مسافروں کو اپنی منزلوں تک پہنچاتی ہیں، یوں ایم ایس ار دنیا کے مصروف ترین شہری ریل نظامات میں سے ایک بن جاتا ہے۔ ایم ایس آر کے تمام روٹس کو اوور ہیڈ لائنوں کے ذریعے 25 کلو واٹ 50 ہرٹز اے سی بجلی فراہم کی جاتی ہے۔

ایم ایس آر میں استعمال ہونے والے ای ایم یوز کو مقامی سطح پر چنئی میں واقع Integral Coach Factory میں تیار کیا جاتا ہے۔ ان ٹرینوں کو 1995ء میں Light-Weight High-Speed Coaches for Broad Gauge بنانے کے لیے ٹیکنالوجی کی منتقلی کے لیے دستخط شدہ معاہدے کے تحت Linke-Hofmann Busch - LHB نامی جرمن کمپنی کے تعاون سے ساتھ ڈیزائن کیا گیا تھا۔ ان ہلکے کوچز کے کھول کو اسٹین لیس اسٹیل جبکہ اندرونی طور پر ایلومینیم کا استعمال کیا جاتا ہے۔

لائٹ (ہلکا) ریل، سب اربن ریل اور کمیٹر ریل وہ مسافر ریل خدمات ہیں جو بنیادی طور پر ایک میٹرو پولیٹن شہر کے اندر کا کام کرتی ہیں یا شہر کے مضافاتی علاقوں اور قریبی چھوٹے شہروں کو میٹرو پولٹن شہر کے صنعتی اور تجارتی مراکز سے جوڑتی ہیں۔ اگرچہ ایسے ریل نظامات کو ہلکا یا بھاری تو تصور کیا جاسکتا ہے لیکن شہری ریل کی یہ تینوں اقسام عموماً ای ایم یوز پر ہی مشتمل ہوتی ہیں۔

چنئی میں واقع Integral Coach Factory مقامی سطح پر ایم ایس آر کو 12 ای ایم یو بوگیوں کا سیٹ 24 کروڑ بھارتی روپے میں فراہم کرتی ہے۔ اگر ایم ایس آر CRRC Zhuzhou Electric Locomotive Co., Ltd جیسی کسی غیرملکی کمپنی کی بنائی ہوئی ٹرینیں خریدتا تو انہیں ہر ایک ای ایم یو کے لیے مقامی سطح پر تیار ہونے والے ایل ایچ بی سے 5 سے 6 گنا زیادہ پیسے خرچ کرنے پڑتے۔ چنانچہ اسی وجہ سے ایم ایس آر کو مہاراشٹریہ ریاست یا بھارتی حکومت سے کسی قسم کی سبسیڈی کی ضرورت ہی نہیں پڑتی بلکہ منافع کما کر دیتا ہے۔

چنانچہ اگر کے یو ٹی سی چین جیسے ملک سے تھوڑی بہت ٹیکنالوجی یہاں منتقل کرکے مقامی تکنیکی مہارت، مینوفیکچرنگ اور مالی وسائل کو استعمال میں لانے کی کوشش کرے تو کے سی آر کو مذکورہ بالا طرز پر بحال کیا جاسکتا ہے۔

اگر کے یو ٹی سی کسی حد تک انہی قیمتوں پر مقامی طور پر بننے والے ای ایم یوز کی فراہمی کا ٹھیکہ دینے کا فیصلہ کرتی ہے تو کے سی آر کے لیے فی ای ایم یو پر لاگت 4 کروڑ روپے آئے گی اور 6 ای یم یوز کے سیٹ پر 24 کروڑ روپے آئے گی۔ جیکا نے کے سی آر کے لیے اوسطاً 6 بوگیوں والی 25 ٹرینوں کی تجویز دی تھی۔ کے یو ٹی سی اگر اتنی ہی تعداد میں ٹرینیں تیار کروانا چاہے تو اس پر 6 ارب روپے کی لاگت آئے گی۔

کے سی آر کے لیے زمین کا حصول

کسی بھی کامیاب سب اربن ریل سسٹم کی اوّلین شرط مناسب حد تک ’راستے کا حق‘ کی دستیابی ہے۔ بلیک لا ڈکشنری کے خالق ہنری کمبیل بلیک نے ’راستے کے حق‘ کی تعریف کچھ اس طرح بیان کی ہے ’یہ ایک قسم کی آسائش ہے جو ہائی وے، فٹ پاتھ، ریل ٹرانسپورٹ، نہر اور اس کے علاوہ بجلی کی ترسیلی لائنوں، تیل اور گیس کی پائپ لائنوں جیسے نقل و حرکت کے مقاصد کے لیے استعمال ہونے والی زمین پر دی یا اس کے لیے مختص کی جاتی ہے‘۔

اورینج میٹرو ٹرین منصوبے کے لیے حکومتِ پنجاب کو راستے کے حق کی زمین حاصل کرنے کے لیے 13.8 ارب روپے اپنی جیب سے دینا پڑے تھے۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ اورینج لائن منصوبے سے قبل لاہور کے عوام کے لیے کراچی سے کہیں زیادہ بہتر ٹرانسپورٹ نظام موجود تھا۔

کراچی سرکلر ریلوے کے مختلف غیر فعال اسٹیشنوں پر اور اس کے ارد گرد غیر قانونی بستیاں قائم ہوچکی ہیں، مگر یہ قبضے اتنی بڑی تعداد میں نہیں ہیں جس کا باضابطہ طور پر دعوٰی کیا جاتا ہے—وائٹ اسٹار
کراچی سرکلر ریلوے کے مختلف غیر فعال اسٹیشنوں پر اور اس کے ارد گرد غیر قانونی بستیاں قائم ہوچکی ہیں، مگر یہ قبضے اتنی بڑی تعداد میں نہیں ہیں جس کا باضابطہ طور پر دعوٰی کیا جاتا ہے—وائٹ اسٹار

اگر سرکاری افسران کی بات مان لی جائے تو کے سی آر کی بحالی میں سب سے بڑی رکاوٹوں میں سے ایک اس کی لائن کے اردگرد موجود غیر قانونی بستیاں ہیں جن کی وجہ سے اس کے روٹس میں رکاوٹیں پیدا ہوگئی ہیں۔

اس نکتے کو اس قدر زیرِ بحث لایا جاتا ہے کہ اب کچھ لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے لگا ہے۔ ابھی گزشتہ ماہ چیف جسٹس نے پاکستان ریلوے کو کے سی آر کی 4 ماہ کے اندر اندر بحالی کا حکم دیا تھا۔ چیف جسٹس نے کورونا وائرس کی وبا پھوٹنے کے بعد 10 دنوں کے اندر اندر چین میں قائم ہونے والے ایک ہزار بستروں پر مشتمل ہسپتال کے قیام کی مثال کو استعمال کیا۔ انہوں نے کہا کہ، ’کچھ بھی ناممکن نہیں ہوتا بس کچھ حاصل کرنے کے لیے پختہ ارادے کی ضرورت ہوتی ہے‘۔

ریلوے کے وزیر شیخ رشید نے عدالتِ عظمیٰ کو ایک ماہ کے اندر کے سی آر منصوبے کے لیے مختص کی گئی 5 کلومیٹر پٹی پر موجود تجاوزات کو ہٹانے کی یقین دہانی کروائی۔

19 مئی 2019ء کو جاری ہونے والے اپنے حکم میں چیف جسٹس نے واضح طور پر کہا تھا کہ کے سی آر کی زمین پر رہنے والے افراد کو متبادل جگہ فراہم کی جائے۔ کے یو ٹی سی اور جیکا متاثرین کو جمعہ گوٹھ میں متبادل جگہ فراہم کرنے پر رضامند ہوئے تھے مگر عمل درآمد کی کمی سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان ریلوے اپنے عہد سے مکر چکی ہے۔

سطح زمین پر موجود اسٹیشن کی چوڑائی —تصویر بشکریہ جیکا اسٹڈی ٹیم
سطح زمین پر موجود اسٹیشن کی چوڑائی —تصویر بشکریہ جیکا اسٹڈی ٹیم

عرصہ دراز سے ریلوے حکام کے سی آر کی زمینوں پر بنی تجاوازات کو استعمال کرتے چلے آ رہے ہیں۔ مگر جیکا کی تحقیق کا قریب سے جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ مختلف اسٹیک ہولڈرز منصوبے کے لیے جتنی زمین کا دعوٰی کر رہے ہیں اس کے مقابلے میں کم زمین درکار ہوسکتی ہے۔

تحاقیق نے کے سی آر کی سطح زمین پر بنے حصوں کی Formation width یا چوڑائی 13.2 میٹرز تجویز کی تھی جبکہ صرف ’سطح زمین سے نیچے والے حصوں میں کے سی آر منصوبے کے دونوں بیرونی اطراف پر 6 میٹر چوڑے ہاؤل روڈ (بھاری سواریوں کی سڑک) کی تجویز دی گئی تھی (کیونکہ اس طرح مینٹیننس اور ہنگامی صورتحال میں مسافروں کے ریسکیو میں کافی آسانی پیدا ہوجاتی۔)

حتٰی کہ کراچی کی حالیہ گوگل تصویر کا جائزہ لیا جائے تو کے سی آر کے سرکلر لوپ میں 25 سے 50 میٹر چوڑائی والی کے سی آر کی زمین کے قریب 90 فیصد حصے پر کہیں غیر قانونی قبضے دکھائی نہیں دیتے۔ جبکہ کے سی آر پر موجودہ ثانوی روڈ کراسنگ کا مسئلہ سب سے نمایاں طور پر اپنی جگہ موجود ہے جسے (grade-separation) کی ضرورت ہے۔

ناظم آباد میں موجود ہر طرح سے ٹریفک کے لیے بہترین تیموریہ ریل اوور برج کو گزشتہ برس توڑ دیا گیا تھا، جسے اب بحال کرنا ہوگا۔ اس کے علاوہ علاقوں کو مربوط رکھنے کے لیے بقیہ روڈ کراسنگ کی جگہوں پر کم خرچ انڈر پاسز بنانا ہوں گے۔ 15 فٹ اونچی اور 300 فٹ تک لمبی ٹریفک کے لیے ایک انڈر پاس بنانے پر اوسط لاگت 2 یا 3 کروڑ سے زیادہ نہیں آئے گی۔ ممبئی سب اربن ٹرینیں انہی طریقوں کو اپناتے ہوئے گزشتہ 90 برسوں سے زمین پر اپنا خوشحالی بھرا سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔

سطح زمین سے اوپر والے حصوں پر آنے والے اخراجات

لاگت کو کم کرنے کا ایک اور طریقہ بھی ہے یعنی کے سی آر کی سطح زمین سے اوپر والے حصوں سے آزادی۔

مختلف باتوں کو دھیان میں رکھتے ہوئے جیکا کی تحقیقی ٹیم نے کے سی آر کے چند حصوں میں زمین سے اوپر پٹریاں بچھانے کی تجویز دی تھی۔ کے سی آر کے 44 کلومیٹر طویل روٹ میں سے 16 کلومیٹر کو زمین پر ہی رکھا گیا، جبکہ 24 کلومیٹر کو زمین سے اوپر ٹریک بنانے کی تجویز دی گئی۔

مگر اب حال ہی میں کے سی آر کی زمینوں سے قبضوں کو ختم کیے جانے کے بعد زمین سے اوپر والے ان ٹریکوں کی ضرورت باقی نہیں رہی ہے۔ زمین سے اوپر ٹریک بنانے کا مطلب صرف 40 ٹن بھاری فی بوگی کا وزن اٹھانے کے قابل 24 کلومیٹر طویل ہیوی ڈیوٹی پل بنانا ہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ہمیں زمین سے اوپر تکنیکی سپورٹ کی فراہمی کا انفرااسٹرکچر، زمین سے اوپر ریلوے اسٹیشن، سیڑھیاں، برقی سیڑھیاں، لفٹیں اور بہت کچھ بھی بنانا پڑے گا۔

پٹریوں کی لاگت

ممبئی میں ایم ایس آر کی ہی طرح کے سی آر کا 24 کلومیٹر طویل لوپ پاکستان ریلوے کی مرکزی پٹریوں پر ہی مشتمل ہے۔ کے سی آر جس طرح 1970ء، 1980ء اور 1990ء کی دہائیوں میں سٹی اسٹیشن، لانڈھی، پورٹ قاسم اور پپری کے درمیان ٹرینیں چلانے کے لیے ان لائنوں کا استعمال کرتا تھا اسی طرح اب بھی کے سی آر کو مذکورہ اسٹیشنوں تک ٹرینیں چلانے کے لیے ان لائنوں کا استعمال جاری رکھنا چاہیے۔ اگر پٹریوں کی نئی طوالت 44 کلومیٹر (کے سی آر کی مجموعی طوالت) سے گھٹا کر 24 کلومیٹر (سرکلر لوپ کی طوالت) تک کردی جائے تو اس طرح کراچی سرکلر ریلوے، فیز ون کی بحالی کے لیے ریل کی پٹریوں کی درآمدی خرچہ بڑی حد تک گھٹ جائے گا۔

جیکا کی تحقیق نے کے سی آر کے لیے UIC-60 کے معیار کی حامل بھاری ریل پٹریاں استعمال کرنے کی تجویز دی تھی۔ عام زبان میں اس کا مطلب یہ ہے کہ یو آئی سی کے معیار کی حامل فی میٹر 60 کلوگرام بھاری پٹری، یا یوں کہیے کہ فی کلومیٹر پٹری کے لیے 60 ٹن اسٹیل استعمال ہوگا۔ اگر انہی خصوصیات کو برقرار رکھا جائے تو 24 کلومیٹر کے سرکلر لوپ کے لیے 5 ہزار 760 ٹن اسٹیل کی بنی پٹریاں درکار ہوں گی۔ رواں ماہ کی ابتدا میں جاری ہونے والے تخمینے کے مطابق اسٹیل کی (ایکس فیکٹری) مارکیٹ قیمت 650 ڈالر فی ٹن ہے اس حساب سے اس کام پر 39 لاکھ ڈالر یا 61 کروڑ روپے کی لاگت آئے گی۔ دوسری طرف 44 کلومیٹر طویل نئی پٹریاں بچھانے پر 71 لاکھ ڈالر یا 1 ارب 10 کروڑ روپے کی آئے گی۔

سلیپر ( لکڑی یا لوہے کے تختے یا کنکریٹ کے سلب) اور باڑ

پاکستان ریلوے کو ایک سلیپر پر3 ہزار روپے کی لاگت آتی ہے۔ یعنی مطلوبہ 52 ہزار سلیپرز پر 16 کروڑ روپے کی لاگت آئے گی۔ 44 کلومیٹر طویل ٹریک کے لیے ایک اندازے کے مطابق کے یو ٹی سی کو 28 کروڑ 60 لاکھ روپے خرچ کرنے ہوں گے جبکہ ریلوے کمپنی کے پہلے سے طے شدہ فیصلے کے مطابق ڈرگ اسٹیشن سے کراچی سٹی اسٹیشن تک موجودہ پاکستان ریلوے کی مرکزی لائن پر مشتمل حصے کو دوسری جگہ منتقل کرنے کے کام کو انجام دینے کے لیے اضافی اخراجات بھی برداشت کرنا ہوں گے۔

باڑ لگانے کی کوٹیشن
باڑ لگانے کی کوٹیشن

اس کے علاوہ 2 رویہ ٹریک پر تیزی سے دوڑتی ٹرینوں کی زد میں آنے سے انسانوں اور جانوروں کو بچانے کے لیے کے سی آر لوپ کے دونوں اطراف باڑ لگانے کی ضرورت بھی پیش آئے گی۔ 24 کلومیٹر کے لیے 78 ہزار فٹ سے زائد لمبی بنتی ہے جبکہ دونوں اطراف کا حساب لگایا جائے تو یہ لمبائی ایک لاکھ 56 ہزار فٹ بن جاتی ہے۔ اگر اونچائی 8 فٹ رکھی جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ باڑ کا مجموعی حجم 12 لاکھ مربع فٹ بنتا ہے۔ یوں ’چَین لنک‘ باڑ لگانے کی تخمینی لاگت 64 کروڑ روپے بنتی ہے۔

اسٹیشن

44 کلومیٹر پر پھیلا کے سی آر 24 اسٹیشنوں پر مشتمل ہے۔ بنیادی سروس چلانے کے لیے بھی ان تمام 24 اسٹیشنوں، ان کے پلیٹ فارمز اور متعلقہ سہولیات کو ری ماڈل اور بحال کرنا پڑے گا۔ سابق Railway Constructions Pakistan Limited (ریل کوپ) کمپنی کے افسران اور ریلوے ٹھیکیداروں کی جانب سے بتائے گئے اندازوں کے مطابق ہر ایک اسٹیشن کی بحالی پر اوسطاً 10 کروڑ روپے کی لاگت آئے گی۔ یوں 24 اسٹیشنوں کی بحالی پر 2 ارب 40 کروڑ روپے خرچ کرنا پڑیں گے۔

گیلانی ’کے سی آر‘ اسٹیشن کی گوگل تصویر
گیلانی ’کے سی آر‘ اسٹیشن کی گوگل تصویر

اس کے علاوہ ہر ایک کے سی آر اسٹیشن میں کارڈ سے کھلنے والے جدید دروازوں اور عوامی رابطہ نظام کی تنصیب کے لیے فی اسٹیشن اوسطاً ایک کروڑ روپے یا تمام 24 اسٹیشنوں کے حساب سے 24 کروڑ روپے کی لاگت آسکتی۔

گزشتہ برسوں کے دوران ریلکوپ نے پاکستان اور بیرون ملک ’ریلوے سگنلنگ‘ اور ’کمیونیکیشن سسٹم‘ کی تنصیب کے کام میں کافی مہارت حاصل کرلی ہے۔ ریلکوپ کے افسران کے مطابق اس قسم کے نظامات کی تنصیب کے لیے فی کلومیٹر ایک کروڑ روپے سے زیادہ خرچ نہیں آئے گا، مطلب یہ کہ 44 کلومیٹر پر مشتمل مجموعی کے سی آر لوپ پر نظامات کی تنصیب کی لاگت 44 کروڑ روپے سے زیادہ نہیں ہوگی۔

کے سی آر کے لیے توانائی کا بندوبست

جیکا نے اپنے تحقیقی کام کے دوران ’کے الیکٹرک‘ سے رابطہ کیا تھا تاکہ کے سی آر کے 4 خصوصی گرڈ اسٹیشنوں کو بجلی کی معیاری فراہمی کو یقینی بنایا جاسکے۔ کے الیکٹرک کو ایک نئے گرڈ اسٹیشن کی تعمیر پر ایک ارب روپے سے کم لاگت آتی ہے۔ کے سی آر کے لیے 4 نئے گرڈ اسٹیشن کی تیاری کا مالی بوجھ قریب 4 ارب روپے بنتا ہے۔

ریلکوپ کے ماہرین ‘Alternate Current (AC) 25kV (Frequency 50Hz), Autotransformer Overhead Feeding System اور متعلقہ دیگر ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کے الیکٹرک کی جانب سے بتائے گئے انجینئرنگ تخمینوں سے متفق ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ فی کلومیٹر کے حساب سے اس پر 50 لاکھ روپے کا خرچہ آسکتا ہے۔ 44 کلومیٹر نیٹ ورک کے لیے 2 حصوں پر مشتمل لائنوں پر 44 کروڑ روپے کی لاگت آئے گی۔ یہ تخمینہ کے الیکٹرک کی جانب سے ایک کلومیٹر تک اپنی ہائی 11 کے وی لائن بچھانے پر آنے والی 3 لاکھ روپے کی قیمت کے حساب سے لگایا گیا ہے۔

تو کے سی آر کی بحالی پر کتنی لاگت آسکتی ہے؟

مذکورہ بالا تمام اخراجات کو جمع کیا جائے تو کے سی آر کی ابتدائی بحالی 15 ارب 50 کروڑ روپے میں ممکن ہے۔ اب ذرا اِس لاگت کا موازنہ زیرِ عمل پلان کی 2.61 (یا 4) ارب ڈالرز یا 400 (یا 630) ارب روپے کی لاگت سے کیجیے۔

تاہم ان اخراجات میں کسی قسم کی ڈیوٹی یا ٹیکس، پٹری بچھانے، کنکریٹ سلیپرز، شنٹنگ یارڈز اور مینٹینس ڈپو یا دوبارہ آباد کاری وغیرہ جیسے ریلوے کے داخلی اخرجات شامل نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ریل اوور برج اور ریل و روڈ کی گریڈ علیحدگی کے لیے انڈر پاسوں کی تعمیر یا ہاؤل روڈ کی تعمیر وغیرہ جیسے دیگر اخراجات کا سامنا ہوگا۔ لیکن اگر فیز وَن میں کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کے لیے مذکورہ بالا خیال کی گئی 15 ارب روپے کی لاگت کو دگنا بھی کیا جائے تو بھی یہ اخراجات 21 صدی کی ہر طرح سے تیار درآمد شدہ کے سی آر پر آنے والی لاگت کے 10 فیصد سے بھی کم ثابت ہوں گی۔

بدقسمتی سے ان تمام برسوں میں پاکستان ریلوے نے کے سی آر کی بحالی کے لیے خود سے کسی قسم کی منصوبہ بندی کی اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی مفصل تحقیقی کام کیا ہے۔ ریلوے محکمہ صرف جیکا کی تحاقیق تکیہ کیے رکھا اور یہ امید باندھے بیٹھا کہ کوئی غیرملکی امدادی ادارہ آئے اور منصوبے کے لیے سرمایہ دے جائے۔

کے سی آر کو مقامی وسائل کے ساتھ بحال کرنے سے جہاں ایک طرف کراچی کے عوام کو قابلِ استطاعت عوامی ٹرانسپورٹ کی سہولت فراہم کی جاسکے گی وہیں دوسری طرف اس سے اربوں روپے کی مالیت کے اقتصادی مواقع کے ساتھ ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوں گے اور پاکستان کے رش زدہ شہروں کو مطلوب سب اربن ٹرینوں کی مقامی سطح پر تیاری کی پاکستان کی صلاحیت کو بڑھانے میں مدد ملے گی۔

گزشتہ فروری میں وفاقی وزیر فواد حسین چوہدری نے مسلم لیگ (ن) کی حکومت پر لاہور اورینج لائن میٹرو ٹرین منصوبے پر اربوں ڈالرخرچ کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔ انہوں نے مسلم لیگ (ن) کی حکومت پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ صرف لاہور کے عوام کے لیے بنائے گئے اورنج لائن منصوبے پر صوبے کو سالانہ 15 سے 18 ارب روپے سبسڈی کی مد میں دینا پڑیں گے۔ پہلے سے مالی تنگی سے دوچار حکومتِ سندھ کے لیے اس قدر بھاری سبسڈی کی ادائیگی ناممکن ہوگی، لہٰذا یہ بوجھ عام مسافروں کو برداشت کرنا پڑجائے گا اور اگر مسافر یہ مالی بوجھ اٹھا نہ پائے تو کے سی آر ایک سفید ہاتھی بن کر رہ جائے گا۔

کیا مقامی سطح پر کے سی آر کی بحالی ممکن ہے؟

اس سوال کا مختصر جواب ’ہاں‘ ہے۔

جہاں تک ریلوے انجینئرنگ یا مینوفیکچرنگ کا تعلق ہے تو پاکستان میں اس سے جڑے اداروں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ مندرجہ ذیل ادارے مقامی سطح پر کے سی آر کی بحالی کے چیلنج پر پورا اترنے میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔

پاکستان ریلوے کیریئج فیکٹری (پی آر سی ایف) اسلام آباد

یہ فیکٹری Linke-Hofmann Busch (ایل ایچ بی) نامی اسی جرمن کمپنی کے تکنیکی تعاون کے ذریعے قائم کی گئی تھی جس نے چنئی کی Integral Coach Factory کے قیام میں مدد فراہم کی تھی۔ گزشتہ 50 برسوں کے دوران پی آر سی ایف مختلف اقسام کی 2 ہزار 500 بوگیاں بنا چکی ہے جنہیں ایل ایچ بی اور China Railway Rolling Stock Corporation (سی آر آر سی) کے ساتھ ہونے والے ٹیکنالوجی منتقلی کے معاہدوں کے تحت ڈیزائن اور تیار کیا گیا تھا۔

پی آر سی ایف کے شاپس

پی آر سی ایف کے پاس اپنی ہائی اسپیڈ بوگی شاپ، پینٹ شاپ، جدید کٹنگ اور مشین شاپ، فورج شاپ، الومینیم اور اینوڈائزنگ شاپ بھی موجود ہیں۔ پی آر سی ایف کا شعبہ ڈیزائن ایسے جدید آلات اور سازو سامان سے آراستہ ہے جن کی مدد سے اپنی مرضی کی ’رولنگ اسٹاک‘ ڈیزائن تیار کروائی جاسکتی ہے۔

پاکستان لوکوموٹِو (انجن) فیکٹری (پی ایل ایف) رسالپور

1993ء میں قائم ہونے والی Pakistan Locomotive Factory مقامی سطح پر ڈیزل اور برقی توانائی سے چلنے والے انجن کی تیاری اور پرانی مشینوں کی بحالی کی صلاحیت رکھتی ہے۔ پی ایل ایف ایک سال میں 25 انجن تیار کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے لیکن اگرافرادی قوت کی شفٹیں بڑھا کر یہ تعداد بڑھائی بھی جاسکتی ہے۔ گزشتہ 25 برسوں کے دوران پی ایل ایف Hitachi, General Electric, Adtranz اور Dalian Locomotive and Rolling Stock Works کی ٹیکنالوجی منتقلی سے مستفید ہوچکی ہے۔ پی ایل ایف 102 نئے ڈیزل برقی انجن کی تیاری اور 26 پرانے انجنوں کی بحالی کا کام انجام کرچکی ہے۔


فہیم زمان کراچی سٹی کے سابق ایڈمنسٹریٹر ہیں اور اس وقت ڈان میڈیا گروپ میں کام کر رہے ہیں۔


ترجمہ: ایاز احمد لغاری


فہیم زمان

فہیم زمان کراچی سٹی کے سابق ایڈمنسٹریٹر ہیں اور اس وقت ڈان میڈیا گروپ میں کام کر رہے ہیں۔ وہ چترال میں ڈان کی جانب سے 2005 کے بعد کی امدادی کارروائیوں کی سربراہی بھی کرتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔