پینٹاگون کی عراقی بیس پر حملہ کرنے والی ایرانی تنظیم پر فضائی حملے کی تصدیق
پینٹاگون کا کہنا ہے کہ امریکا نے عراق میں فضائی حملے کیے جس کا ہدف ایران کی حمایت یافتہ تنظیم تھی جو ممکنہ طور پر بغداد میں فوجی بیس پر حملے میں ملوث تھی۔
امریکی حکام کا کہنا تھا کہ امریکی لڑاکا طیاروں سے عراق میں 5 مقامات کو نشانہ بنایا جن کا ہدف کتائب حزب اللہ کی ہتھیاروں کی تنصیبات تھیں۔
محکمہ دفاع کے بیان میں کہا گیا کہ حملے 5 ہتھیاروں کے گوداموں پر کیے گئے تاکہ ان کی مستقبل کے حملوں کی صلاحیت میں نمایاں کمی لائی جاسکے۔
ان حملوں سے تہران اور اس کی عراق میں پروکسیز سے کشیدگی میں اضافہ ہوگا جبکہ 2 ماہ قبل ایران نے عراق میں امریکی فوجی اڈے پر بڑے پیمانے پر بیسٹک میزائل حملے کیے تھے۔
مزید پڑھیں: ایران امریکا تصادم، کیا خطرہ ٹل گیا؟
ان حملوں کے بعد امریکی دفاعی حکام نے جوابی رد عمل کی دھمکی دی تھی اور واضح کیا تھا کہ وہ جانتے ہیں کہ یہ کس نے کیا اور حملہ آوروں کو اس کا حساب دینا ہوگا۔
امریکا کے سیکریٹری دفاع مارک ایسپر کا کہنا تھا کہ 'امریکا اپنی عوام، مفاد اور ہمارے اتحادیوں کے خلاف حملے کو برداشت نہیں کرے گا جیسا ہم نے حالیہ مہینوں میں اس کا مظاہرہ کیا، ہم عراق اور خطے میں موجود اپنی فورسز کے تحفظ کے لیے ہر ضروری قدم اٹھائیں گے'۔
پینٹاگون نے اپنے بیان میں کہا کہ 'فضائی حملوں میں جن تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا وہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے خلاف استعمال ہونے والے ہتھیار جمع کرنے کے لیے استعمال ہوتے تھے۔
انہوں نے جوابی حملے کو 'دفاعی، متناسب اور ایرانی پشت پناہی میں تنظیم سے ہونے والے خطرے کا براہ راست جواب قرار دیا'۔
امریکی حکام کا کہنا تھا کہ حملوں کے مقامات بغداد کے قریب تھے۔
ایک امریکی حکام کا کہنا تھا کہ 2 حملے جرف السخیر، ایک کربلا، ایک المصعیب اور ایک عرب نوار احمد میں کیے گئے۔
حکام کا کہنا تھا کہ امریکا کو امید ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد 50 سے کم ہوگی اور اصل کوشش ہتھیاروں کو نشانہ بنانا تھا۔
پیراملٹری پاپولر موبلائزیشن یونٹس نے دی ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کو بتایا کہ 2 عراقی وفاقی پولیس اہلکار جرف السخیر میں ہلاک ہوئے۔
یہ بھی پڑھیں: امریکا-ایران تنازع: جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت سے پہلے اور بعد کے واقعات
عراقی فوج کے بیان میں کہا گیا کہ جرف السخیر، المصعیب، نجف اور الیگزینڈریا میں پاپولر موبلائزیشن یونٹس، ایمرجنسی رجمنٹس اور عراقی فوج کے 9ویں ڈویژن پر فضائی 'جارحیت' رات ایک بجکر 15 منٹ پر ہوئی۔
قبل ازیں مارک ایسپر نے پینٹاگون میں بتایا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انہیں اختیار دیا ہے کہ جو بھی ضروری کارروائی کرنی ہو کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ہم ایک وقت میں ایک قدم اٹھائیں گے مگر ہمیں ملزمان کا احتساب کرنا ہے، آپ ہمارے بیسز پر حملہ اور امریکیوں کو قتل و زخمی کرکے اس سے بچ نہیں سکتے'۔
خیال رہے کہ ایران کی جانب سے امریکی بیس پر 18 راکٹ حملوں میں 2 امریکی فوجی اور ایک برطانوی سروس رکن ہلاک اور دیگر 14 اہلکار زخمی ہوگئے تھے۔
امریکی فوج کا کہنا تھا کہ ایک ٹرک لانچر سے 107 ایم ایم کے کاٹیوشا راکٹس فائر کیے گئے تھے جسے بعد ازاں عراقی سیکیورٹی فورسز نے بیس کے قریب سے برآمد کرلیا تھا۔
امریکی حکام نے عوام کو یہ نہیں بتایا کہ کس تنظیم نے یہ راکٹ حملے کیے تھے تاہم کتائب حزب اللہ اس کے ممکنہ ملزم ہیں اور عراق میں رات کے وقت ہونے والا امریکی حملہ اس ہی پر کیا گیا۔
کتائب حزب اللہ نے دسمبر کے آخر میں کرکوک میں فوجی اڈے پر راکٹ حملے کیے تھے جس میں امریکی کنٹریکٹر ہلاک ہوگیا تھا جس کے بعد امریکا کی جانب سے رد عمل میں فوجی حملے کیے گئے تھے۔
بعد ازاں بغداد میں امریکی سفارتخانے پر بڑے پیمانے پر احتجاج کیا گیا تھا جس کے بعد 3 جنوری کو امریکا نے ایران کے سب سے طاقتور فوجی کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کو فضائی حملے میں قتل کردیا تھا۔
قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے ردعمل میں ایران نے 8 جنوری کو عراق میں امریکا کے الاساد ایئربیس پر میزائل حملے کیے تھے۔