• KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:33pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm
  • KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:33pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm

ریکوڈک کے حوالے سے وزیراعظم کے بیان پر اتحادیوں کی تنقید

شائع March 11, 2020
اسپیکر نے مراد سعید کو بولنے کا موقع دیا تو اپوزیشن ااراکین اپنی نشستوں پر کھڑے ہوگئے — فائل فوٹو: اے پی پی
اسپیکر نے مراد سعید کو بولنے کا موقع دیا تو اپوزیشن ااراکین اپنی نشستوں پر کھڑے ہوگئے — فائل فوٹو: اے پی پی

اسلام آباد: قومی اسمبلی کے اجلاس میں ایک وزیر کی جانب سے ایجنڈے سے ہٹ کر شریف خاندان کو بیرونِ ملک قیام اور پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت پر بدعنوانی میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیے جانے کے بعد ایوان میں ہنگامہ برپا ہوگیا اور اجلاس عجلت میں ملتوی کرنا پڑا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسپیکر کی جانب سے مراد سعید کو ایوان میں ان سوالات کے جوابات دینے کا موقع دینے پر کہ جو کسی نے پوچھے بھی نہیں تھے، اپوزیشن اراکین احتجاجاً اپنی نشستوں پر کھڑے ہوگئے۔

اپوزیشن بینچز کی جانب سے ہونے والے شور شرابے کو نظر انداز کرتے ہوئے مراد سعید کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کے اجلاس کی اندرونی کہانی کے حوالے سے میڈیا رپورٹس کے مطابق اجلاس میں قوم کی جانب سے پوچھا جانے والا سوال بھی زیر بحث آیا۔

یہ بھی پڑھیں: قومی اسمبلی: عمر ایوب کے بیان پر اراکین پیپلزپارٹی کی ہنگامہ آرائی

انہوں نے کہا کہ قائد حزب اختلاف اپنے مجرم بڑے بھائی کے ضمانت دہندہ بنے اور اب کوئی واپس آنے کو تیار نہیں ہے۔

مراد سعید کا کہنا تھا کہ شریف خاندان کا ایک رکن ملک سے فرار ہوگیا، ’مسلم لیگ (ن) نے قوم کی باگ دوڑ ایسے شخص (اسحٰق ڈار) کے ہاتھ میں دے دی، جو اشتہاری ہے‘، انہوں نے شہباز شریف سے مطالبہ کیا کہ بتائیں وہ پاکستان کب آئیں گے۔

پی ٹی آئی رہنما نے سندھ میں کتے کے کاٹے میں اضافے اور اس کے لیے کروڑوں روپے مختص کرنے پر سندھ حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں غیر معیاری عمارتیں گرنا ایک مستقل مسئلہ ہے جس کے پیچھے بڑی وجہ بے انتہا کرپشن ہے ’انہوں نے کراچی کے عوام کی زندگیاں خطرے میں ڈالی ہوئی ہیں'۔

مزید پڑھیں: تیز ترین قانون سازی کا ریکارڈ: قومی اسمبلی میں کیا کچھ ہوا؟

وزیر مواصلات کی تقریر کے دوران اپوزیشن اراکین کہتے رہے کہ آج ایوان کا دن نجی اراکین کے لیے مختص ہے اور انہیں اایسے معاملات پر بولنے کا کوئی حق نہیں جو نہ تو ایوان میں اٹھایا گیا نہ ایجنڈے میں شامل ہے۔

تاہم ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے نہ صرف مراد سعید کو بات کرنے کی اجازت دی بلکہ اپوزیشن اراکین کو تنبیہہ کی کہ اگر ایوان میں نظم و ضبط برقرار نہ رہا تو وہ کارروائی ملتوی کردیں گے، بعدازاں عجلت میں اجلاس ملتوی کیے جانے کے باعث 80 فیصد ایجنڈا ایوان میں زیر بحث نہ آسکا۔

قبل ازیں حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اتحادیوں نے وزیراعظم عمران خان کے اس بیان کو تنقید کا نشانہ بنایا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ریکوڈک کے اثاثے بیچ کر ملک کا قرض اتارا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: مسلم لیگ (ن) کے سابق سینیٹر کی وزیراعظم عمران خان کو معیشت پر بریفنگ

مذکورہ معاملہ بلوچستان سے آزاد رکن اسمبلی اسلم بھوٹانی نے توجہ دلاؤ نوٹس پر اجلاس میں اٹھایا، اسلم بھوٹانی جنہوں نے پی ٹی آئی حکومت کی حمایت کی تھی وزیراعظم کے بیان پر تنقید کی اور اس بات پر تحفظات کا اظہار کیا کہ وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود بلوچستان کو مسائل اور محرومی کا سامنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سوئی میں 1952 میں قدرتی گیس دریافت ہوئی تھی لیکن آج بھی بلوچستان کے 10 فیصد عوام کو گیس میسر نہیں، صوبے کو سینڈک پروجیکٹ سے صرف 2 فیصد حصہ ملا جبکہ 48 فیصد وفاق اور 50 فیصد چین کے حصے میں آیا۔

اسلم بھوٹانی نے دعویٰ کیا کہ بلوچستان 12 میگا واٹ کی ضرورت ہونے کے باوجود 2 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرتا ہے لیکن اسے صرف 6 سے 700 میگا واٹ بجلی ملتی ہے اور کئی علاقوں میں اب بھی 12 سے 14 گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ ہوتی ہے۔

مزید پڑھیں: قومی اسمبلی کا اجلاس: وزیراعظم کی عدم موجودگی، اپوزیشن کا احتجاج

ان کا مزید کہنا تھا کہ ریکوڈک بلوچستان کا ہے اور نوجوان کسی ناانصافی کو برداشت نہیں کریں گے، ’بلوچستان نہ تو مال غنیمت صوبہ ہے اور نہ برائے فروخت ہے‘۔

دوسری جانب حکومت کی اتحادی جماعت نیشنل پارٹی کے سردار اختر مینگل نے کہا کہ وزیراعظم کے بیان پر کوئی جواب نہیں آیا، ’کیا یہ 18ویں ترمیم کی خلاف ورزی نہیں؟‘

ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے وسائل کو بے دردی سے لوٹا گیا اور پوچھا کہ کیا اسے مفتوح علاقہ سمجھا گیا ہے، انہوں نے کہا کہ بلوچستان سے 3 کھرب روپے کے سونے چاندی کے ذخائر جو بیچا گیا اور صوبے کو اس سے محض 2 فیصد ملا، آئین کی دفعہ 158 کی خلاف ورزی اب بھی جاری ہے۔

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024