• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

'وارنٹ گرفتاری کے بغیر نگرانی کے نیب اختیارات، بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہیں'

شائع March 8, 2020
اسلام آباد ہائی کورٹ نے 4 جی کی نیلامی سے متعلق کیس میں ضمانت کی درخواستوں پر تفصیلی فیصلہ سنادیا — فائل فوٹو: اے ایف پی
اسلام آباد ہائی کورٹ نے 4 جی کی نیلامی سے متعلق کیس میں ضمانت کی درخواستوں پر تفصیلی فیصلہ سنادیا — فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد ہائی کورٹ نے قومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئرمین کی جانب سے وارنٹ گرفتاری جاری کیے بغیر 'نگرانی' کے اقدامات کو آئین کے تحت عوام کو ملنے والے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قرار دے دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ بیان اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ کی جانب سے پاکستان ٹیلی کمیونکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے ڈائریکٹر جنرل عبدالصمد اور ڈائریکٹر امجد مصطفیٰ ملک کی براڈ بینڈ سیلیولر ٹیکنالوجی 4 جی کی نیلامی سے متعلق کیس میں ضمانت کی درخواستوں پر تفصیلی فیصلہ سناتے ہوئے دیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے بینچ میں چیف جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سابق پی ٹی اے حکام کو مختصر فیصلہ سناتے ہوئے ضمانت قبل از گرفتاری دے دی تھی۔

مزید پڑھیں: سال 2019: ’نیب نے ایک کھرب 50 ارب روپے برآمد کیے‘

تفصیلی فیصلے میں عدالت نے وائٹ کالر جرائم کی تحقیقات کے لیے صلاحیت نہ رکھنے والے افسران کی تحقیقات میں خامیوں کی نشاندہی کی۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ 'گرفتاری کے اختیار کا منصفانہ، برابری اور بلا امتیاز استعمال کیا جانا چاہیے، ملزم کی گرفتاری کا جواز پیش کرنے کے لیے کافی مواد ہونا چاہیے، 'مکالمہ آمیز مواد' اس نوعیت کا ہونا ضروری ہے جو 1999 کے آرڈیننس کے تحت جرائم کے کمیشن میں ملزم کے ملوث ہونے کی نشاندہی کرے، ریکارڈ پر لائے گئے مواد میں غیر قانونی فائدہ حاصل کرنے کے مقصد کے ساتھ اس میں شریک ہونے کا عنصر بھی شامل ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ 'ورنہ ایک ملزم کی گرفتاری 1999 کے آرڈیننس کے تحت گرفتاری کے اختیارات کا غلط استعمال ہوگی'۔

فیصلے میں کہا گیا کہ 'اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزامات کسی ملزم کو آزادی کے حق سے محروم کرنے کا جواز پیش نہیں کریں گے کیونکہ کسی بے ضابطگی یا غلط فیصلے سے مجرمانہ ارادے ظاہر نہیں ہوتے، 1999 کے آرڈیننس کے تحت گرفتاری کے اختیار کو بلا امتیاز، لاپرواہی یا غیر ذمہ دار طریقے سے استعمال نہیں کیا جاسکتا کیونکہ آئین کے تحت متضاد بنیادی حقوق کی ضمانت دی گئی ہے جس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

یہ بھی پڑھیں: نیب ملزم کی گرفتاری کے بعد گواہیاں اور ثبوت ڈھونڈتا رہتا ہے، جج سپریم کورٹ

اس میں وضاحت کی گئی ہے کہ 'نیب انکوائری یا چھان بین کے دوران کسی ملزم کی گرفتاری کا حکم دینے کے اختیار سے نہ صرف نقصان دہ اثرات سامنے آتے ہیں بلکہ ان کے اہل خانہ پر بھی مضر اثرات مرتب ہوسکتے ہیں'۔

واضح رہے کہ ضمانت حاصل کرنے والے درخواست گزاروں نے نیب کے چیئرمین کی جانب سے گرفتاری کے وارنٹ جاری کرنے کے اختیارات پر بھی سوال اٹھایا تھا اور ایگزیکٹو پاور کے عدالتی جائزے کی درخواست کی تھی جس کے تحت انہیں آزادی کے حق سے محروم کیا گیا تھا۔

نیلامی کیس

قومی احتساب ادارے کے مطابق نیب چیئرمین نے ذرائع کی رپورٹ پر 16 اکتوبر 2018 کو تحقیقات کے احکامات دیے تھے جبکہ تحقیقات کی اجازت دینے سے قبل انکوائری نہیں کی گئی تھی۔

تحقیقات ایم/ایس وارد ٹیلی کام کو فائدہ پہنچانے کے لیے 4 دسمبر 2014 کو 4 جی/ ایل ٹی ای (1800 ایم ایچ زیڈ) کے استعمال کی اجازت دینے سے متعلق تھی۔

الزام لگایا گیا کہ سیلیولر کمپنی کو 4 جی/ایل ٹی ای ٹیکنالوجی کے استعمال کی اجازت دے کر پی ٹی اے حکام نے غیر قانونی فائدہ حاصل کیا جس سے 51 کروڑ 60 لاکھ ڈالر کا نقصان ہوا۔

مزید پڑھیں: نیب آرڈیننس کی بعض دفعات غیر اسلامی قرار

عدالت نے وفاقی کابینہ سے یکم جنوری 2004 کو موبائل سیلولر پالیسی کی منظوری کے بعد 10 جنوری 2004 کو ٹیلی کمیونکیشن سیکٹر کے لیے ڈی ریگولیشن پالیسی کو اٹھایا۔

پارلیمنٹ احتساب کے عمل پر نظر ثانی کرے، عدالت

عدالت نے اپنے احکامات میں کہا کہ نیب آرڈیننس کے تحت ایگزیکٹو پاورز پر منصفانہ، مساوی، اصولوں اور قانون کے تابع طریقوں سے عمل کرنے کی ضرورت ہے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ 'بدعنوانی سے پیدا ہونے والے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے، شفاف انداز میں بورڈ کا احتساب اور امتیازی سلوک سے آزاد اور اختیارات کا صوابدیدی استعمال ناگزیر ہے وہیں وائٹ کالر جرائم سے نمٹنے کے لیے تفتیش کاروں اور استغاثہ کی پیشہ ورانہ تربیت، قابلیت اور مہارت بھی اتنا ہی ضروری ہے۔

یہ بھی پڑھیں: نیب قوانین میں تبدیلی کے بعد ملزمان کی ریلیف کی درخواستیں

حکم میں مزید کہا گیا ہے 'ہم توقع کرتے ہیں کہ وفاقی حکومت اور مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) احتساب کے عمل کو موثر، شفاف اور منصفانہ بنانے کے لیے مناسب اقدامات کرنے پر غور کریں گے اور بیورو کو چیلنجز کا مقابلہ کرنے اور اس مقصد کے حصول کے لیے تقویت ملے گی جس کے لیے یہ قائم کیا گیا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024