• KHI: Fajr 5:37am Sunrise 6:58am
  • LHR: Fajr 5:16am Sunrise 6:42am
  • ISB: Fajr 5:24am Sunrise 6:52am
  • KHI: Fajr 5:37am Sunrise 6:58am
  • LHR: Fajr 5:16am Sunrise 6:42am
  • ISB: Fajr 5:24am Sunrise 6:52am

وزیراعظم کی ہدایت پر وفاقی علاقوں میں اسکولوں میں تشدد پر پابندی لگی، شیریں مزاری

شائع March 5, 2020 اپ ڈیٹ March 6, 2020
شیریں مزاری نے عدالت کو تمام بل کے حوالے سے آگاہ کیا—فوٹو:ڈان نیوز
شیریں مزاری نے عدالت کو تمام بل کے حوالے سے آگاہ کیا—فوٹو:ڈان نیوز

وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں بچوں پر جسمانی تشدد کے خلاف درخواست کی سماعت کے دوران آگاہ کیا اس حوالے سے قانون سازی کے لیے کابینہ نے بل کی منظوری دی ہے جس کو ایوان میں پیش کیا جائے گا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں بچوں پر تشدد اور جسمانی سزا پر پابندی کے لیے شہزاد رائے کی جانب سے دائر کی گئی درخواست پر سماعت ہوئی جہاں درخواست گزار شہزاد رائے اپنے وکیل اور وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری بھی پیش ہوئی۔

عدالت میں سماعت کے بعد میڈیا گفتگو کرتے ہوئے شیریں مزاری نے کہا کہ ‘وزیراعظم نے کابینہ کے گزشتہ اجلاس میں ہدایت کی تھی کہ بچوں پر تشدد پر مکمل پابندی ہونی چاہیے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘وزیراعظم کی اس ہدایت کی روشنی میں وزارت تعلیم نے وفاقی علاقوں میں اسکولوں کو حکم دیا کہ تمام اسکولوں میں بچوں کے تشدد پر پابندی ہوگی’۔

شہزاد رائے نے کہا کہ ‘یہ پٹیشن مکمل ہوگی اور انسانی حقوق نے اتنے عرصے سے جو بل پیش کیا تھا وہ براہ راست اسمبلی میں چلا جائے گا، وزارت داخلہ اور اسلامی نظریاتی کونسل کی پابندی اس پر نہیں ہے’۔

قبل ازیں وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے عدالت کو بتایا کہ وزارت قانون نے کہا کہ یہ آپ کا دائرہ اختیار نہیں تاہم ہماری وزارت بچوں پر تشدد روکنے کی درخواست کی مکمل حمایت کرتی ہے۔

مزید پڑھیں:’بچوں پر تشدد کے تمام واقعات کی وجہ اسلامی تعلیمات پر عمل نہ کرنا ہے‘

ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان نے بھی بچوں پر تشدد روکنے کی مکمل حمایت کی ہے اور وزارت داخلہ نے قانون سازی کے لیے بل اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجا تھا جہاں اس پر اعتراض کیا گیا۔

شیریں مزاری نے کہا کہ وفاقی کابینہ نے بل کی منظوری دے دی ہے اور اب معاملے کو پارلیمنٹ بھیجوانا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اعتراض کیا گیا تھا کہ یہ کام وزارت انسانی حقوق کا نہیں بلکہ وزارت داخلہ کا ہے جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ انسانی حقوق کا معاملہ اور وفاقی حکومت کا کام ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطرمن اللہ نے کہا کہ عدالت شیریں مزاری سے بہت متاثر ہوئی ہے کیونکہ ان کو بلایا بھی نہیں گیا تھا لیکن وہ یہاں موجود ہیں۔

سماعت کے دوران ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا کسی صوبے میں بچوں پر تشدد کے قوانین پر عمل درآمد ہو رہا ہے جس پر شہزاد رائے کے وکیل نے کہا کہ خیبر پختونخوا (کے پی) اور سندھ میں بچوں پر تشدد روکنے کے لیے قانون سازی ہوئی۔

چیف جسٹس کا استفسار کیا کہ وفاقی حکومت میں پھر کیا مسئلہ ہے، اس موقع پر وفاقی وزارت داخلہ کے نمائندے نے کہا کہ بچوں پر تشدد کا کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا۔

وزارت داخلہ کے نمائندے کے جواب پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ شکایت تب ہوتی ہے جب کوئی بڑا نقصان ہوتا ہے، بچوں پر تشدد روکنے کی قانون سازی کا کیا بنا، یہ وفاقی حکومت کا کام ہے اور انسانی حقوق کا کیس ہے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اسلام تو تشدد کی نہیں بلکہ انسان کی عظمت کی تعلیم دیتا ہے۔

پولیس نے عدالت کو بتایا کہ آئی جی اسلام آباد کی رپورٹ کے مطابق آج تک اسکولوں میں بچوں کو جسمانی سزا کے خلاف کوئی درخواست نہیں آئی جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ بچوں کو جسمانی سزا دینے کا مائنڈ سیٹ تبدیل ہونا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں:تعلیمی اداروں میں بچوں پر تشدد پر پابندی

عدالت نے کہا کہ یہی مائنڈ سیٹ بچوں کے خلاف دیگر جرائم کی بھی بنیاد بنتا ہے۔

درخواست گزار شہزاد رائے نے عدالت سے استدعا کرتے ہوئے کہا کہ بچوں کو جسمانی سزا دینے والے سیکشن 89 کا سہارا لیتے ہیں کہ اچھی نیت سے مارا اس لیے عدالت تعزیرات پاکستان کی دفعہ 89 کو کالعدم قرار دے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 14 بچوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کا کہتا ہے، قانون موجود نہ ہو پھر بھی بچوں کو ہاتھ تک نہیں لگایا جاسکتا، سمجھ نہیں آرہی کہ وزارت داخلہ نے اچھی قانون سازی کو اسلامی نظریاتی کونسل کو کیوں بھیجا۔

عدالت نے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے اسلامی تعلیمات کا حوالہ دیے بغیر بچوں پر تشدد روکنے کے بل کی مخالفت کی جس پر شیریں مزاری نے کہا کہ عدالت بچوں پر تشدد اور جسمانی سزا کو بنیادی حقوق اور آئین سے متصادم قرار دے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے کہا کہ بچوں پر تشدد کے تمام واقعات اسلامی تعلیمات پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے ہیں، بطور معاشرہ ہم اسلامی تعلیمات پر عمل نہیں کرتے۔

مزید پڑھیں:بچوں کی پرورش اور والدین کی ذمہ داریاں

انہوں نے کہا کہ سخت سزاوں سے نہیں بلکہ مائنڈ سیٹ تبدیل کرنے سے بچوں پر تشدد روکا جاسکتا ہے، حکومت بچوں پر تشدد روکنے کا بل پارلیمنٹ کو بھیج سکتی ہے۔

عدالت نے کہا کہ وفاقی کابینہ مارچ 2019 میں بچوں پر تشدد روکنے کا بل منظور کرچکی، وزارت قانون افسر مقرر کرے جو بتائے کہ بل پارلیمنٹ کیوں نہیں بھیجا گیا۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ اگلی تاریخ پر عدالت بچوں پر تشدد روکنے کی درخواست پر فیصلہ کرے گی۔

بچوں پر تشدد روکنے کے بل پر وزارت قانون سے 12 مارچ تک جواب طلب کرتے ہوئے عدالت نے درخواست پر مزید سماعت 30 مارچ تک ملتوی کردی۔

کارٹون

کارٹون : 27 نومبر 2024
کارٹون : 26 نومبر 2024