• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

بلدیاتی اداروں کے پاس اختیارات نہ ہونا آرٹیکل 148 کی خلاف ورزی ہے، سپریم کورٹ

شائع March 5, 2020
عدالت کے مطابق بلدیاتی اداروں کے پاس اختیارات نہ ہونا آرٹیکل 148 کی خلاف ورزی ہے — فائل فوٹو بشکریہ سپریم کورٹ ویب سائٹ
عدالت کے مطابق بلدیاتی اداروں کے پاس اختیارات نہ ہونا آرٹیکل 148 کی خلاف ورزی ہے — فائل فوٹو بشکریہ سپریم کورٹ ویب سائٹ

سپریم کورٹ نے ماحولیاتی آلودگی کیس کی سماعت کے دوران عدالت عظمیٰ نے خیبرپختونخوا کی مارگلہ پہاڑیوں پر اسٹون کرشنگ کا عمل فوری طور پر روکنے کا حکم جاری کردیا۔

عدالت عظمیٰ میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے ماحولیاتی آلودگی سے متعلق کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے آغاز پر کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) عامر احمد علی نے عدالت کو بریفنگ دی اور بتایا کہ کشمیر ہائی وے کو تعمیر کرنے جا رہے ہیں تاہم سی ڈی اے کو فنڈز کی کمی کا سامنا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ جی 8 میں انٹرچینج زیر تعمیر ہے اور ایف 7 میں بھی انٹرچینج بنایا جائے گا۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ کا سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے ڈی جی کو ہٹانے کا حکم

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کشمیر ہائی وے پر چند ہی درخت لگے ہیں جس پر چیئرمین سی ڈی اے کا کہنا تھا کہ کشمیر ہائی وے کے اطراف مزید شجرکاری کی جا رہی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 'سی ڈی اے کا اپنے ملازمین پر کوئی کنٹرول نہیں، ادارے میں کلرک بھی چیئرمین سے زیادہ طاقتور ہیں'، اس پر چیئرمین سی ڈی اے کا کہنا تھا کہ 'جن کا تبادلہ کرتا ہوں وہ حکم امتناع لے آتے ہیں'۔

انہوں نے کہا کہ 'این آئی آر سی کا تبادلے رکوانے میں کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے، کرپٹ مافیا کو معطلی سے کوئی فرق نہیں پڑتا'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'کرپٹ ملازمین اور افسران کے کیسز وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کو بھجوا رہے ہیں'۔

تبادلوں پر جاری حکم امتناع ختم کردیں گے، عدالت

بعد ازاں چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 'آج تمام تبادلوں پر جاری حکم امتناع ختم کر دیں گے'۔

انہوں نے سوال کیا کہ اسلام آباد شہر کو اتنا پھیلایا کیوں جا رہا ہے؟ کیا پورے اسلام آباد کو صنعتی زون بنانا چاہتے ہیں؟ کیا ماسٹر پلان میں صنعتی زون تھا؟

چیئرمین سی ڈی اے کا کہنا تھا کہ 'سیکٹر آئی 9 اور آئی 10 کے صنعتی زون ماسٹر پلان میں شامل ہیں، اسٹیل کی 12 صنعتوں میں سے 6 چل رہی ہیں'۔

چیف جسٹس نے کہا کہ 'ایسی صنعتوں کو نہ چلائیں جو شہر آلودہ کریں، سی ڈی اے اقدامات کا رزلٹ نظر آنا چاہیے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'سی ڈی اے رپورٹس میں اچھی انگریزی کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا، چاہتے ہیں معیشت خوشحالی کی طرف گامزن ہو'۔

انہوں نے اسلام آباد کی اپنی فوڈ اتھارٹی بنانے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ 'بیرون ملک سے زائد المعیاد اشیاء منگوائی جاتی ہیں، دبئی والے اپنی زائد المیعاد چیزیں پاکستان بھجوا دیتے ہیں'۔

عدالت میں چیئرمین سی ڈی اے کے عدالت کی ہدایت کے مطابق کام کرنے کے بیان پر چیف جسٹس نے کا کہنا تھا کہ عدالت کی ہدایت کی ضرورت نہیں ہے، سی ڈی اے اپنا کام خود کرے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 'شہر کا بلیو ایریا کوڑا کرکٹ سے بھرا پڑا ہے، ایک پلازے والوں نے سروس روڈ پر قبضہ کیا ہوا ہے جبکہ سینٹورس مال کے ساتھ پلاٹ پر پارکنگ بنا دی گئی، سینٹورس مال سے ملحقہ پلاٹ پارکنگ کے لیے دینے پر مطمئن کریں اور ماسٹر پلان سے دکھائیں یہ پلاٹ پارکنگ کے لیے رکھا گیا تھا یا نہیں'۔

اس پر اسلام آباد کے میئر نے عدالت کو بتایا کہ سینٹورس سے ملحقہ پلاٹ پارک اینڈ ڈرائیو کا پلاٹ ہے، پلاٹ ایک سال کے لیے لیز پر دیا گیا ہے۔

چیئرمین سی ڈی اے کا کہنا تھا کہ 'اسلام آباد میں پانی کا مسئلہ ہے اور پانی خانپور ڈیم سے آتا ہے'۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 'پانی کو گرایا جارہا ہے، پانی کو محفوظ کرنے کے لیے کیا اقدامات کررہے ہیں؟ مارگلہ سے جو پانی نیچے آتا ہے اس کا کیا کرتے ہیں؟'

اس پر چیئرمین سی ڈی اے کا کہنا تھا کہ 'مارگلہ کی پہاڑیوں سے آنے والا پانی زمین کی سیرابی کا کام دیتا ہے ہمیں پانی کو محفوظ بنانے کے لیے فنڈز کی ضرورت نہیں ہمارے پاس متعلقہ فنڈز موجود ہیں'۔

انہوں نے بتایا کہ 'راول ڈیم کا 25 فیصد پانی ابتدائی مرحلے میں ضائع ہوتا ہے'۔

عوام بنگلوں کے سامنے کچرے کے ڈھیر لگا دیتے ہیں، عدالت

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 'اسلام آباد میں کینال ہوں تو پانی وہاں محفوظ کیا جاسکتا ہے، آپ کے کینال کچرے سے بھرے ہوئے ہیں، کینال کے اطراف کے بھی کوئی حالات نہیں کوئی شخص وہاں جا نہیں سکتا'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'لوگ بڑے بڑے بنگلوں میں رہتے ہیں انہیں احساس نہیں ہے، اپنے بنگلوں کے سامنے کچرے کا ڈھیر لگا دیتے ہیں شہر کو خوبصورت بنانا آپ کا کام ہے، شہر میں بیٹھنے کی چلنے پھرنے کی جگہ ہونی چاہیے'۔

اس پر چیئرمین سی ڈی اے نے چیف جسٹس سے استدعا کی کہ 'کینال بنانے کے لیے 3 ماہ کا وقت دے دیں'۔

عدالت نے کہا کہ 'چیئرمین سی ڈی اے اور مئیر اسلام آباد نے ماحولیاتی آلودگی سے نجات کے لیے اقدامات اٹھانے اور آئی 9 کی انڈسٹری کو ماحولیاتی قوانین کا پابند بنانے کی یقین دہانی کروائی ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کا سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے ڈی جی کو ہٹانے کا حکم

انہوں نے کہا کہ 'چئیرمین سی ڈی اے نے تسلیم کیا ہے کہ بفرزون پر تعمیرات ہوچکی ہیں، بفرزون سے ملحقہ علاقے میں شجر کاری کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے اور بارشوں کے اختتام پر پیڈسٹرین پل کی تعمیرات کی یقین دہانی کروائی ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اس کے ساتھ ساتھ چئیرمین سی ڈی اے نے عوامی واش روم بنانے اور ان کی معقول دیکھ بھال کی یقین دہانی بھی کروائی ہے'۔

عدالت نے این آئی آر سی کو سی ڈی اے افسران کے تقرر و تبادلوں سے متعلق مقدمات کا فیصلہ 2 ہفتے میں کرنے کا حکم دیا اور کہا کہ چئیرمین این آئی آر سی 2 ہفتے میں مقدمات نمٹا کر رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروائیں۔

عدالت نے این آئی آر سی کو سی ڈی اے افسران سے متعلق دیگر مقدمات کا 6 ماہ میں فیصلہ کرنے کا بھی حکم دیا اور اس حوالے سے 6 ماہ بعد رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروانے کا حکم دیا۔

سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ 'بلدیاتی اداروں کے پاس اختیارات نہ ہونا آرٹیکل 148 کی خلاف ورزی ہے'۔

عدالت نے اگلی سماعت پر سیکریٹری داخلہ کو طلب کرتے ہوئے کہا کہ 'سیکریٹری داخلہ آرٹیکل 148 پر اقدامات کے حوالے سے اگلی سماعت پر عدالت کو آگاہ کریں'۔

عدالت نے خیبرپختونخوا کی مارگلہ پہاڑیوں پر اسٹون کرشنگ کا عمل بھی فوری طور پر روکنے کا حکم دیتے ہوئے کیس کی سماعت ایک ماہ تک کے لیے ملتوی کردی۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024