• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

بجلی کے شعبے میں واجب الادا رقم 18 کھرب 82ارب روپے تک پہنچ گئی، پیپکو

شائع March 4, 2020
سینیٹ کی ایک خصوصی کمیٹی کو پیش کی گئی ایک رپورٹ میں پیپکو نے بجلی کے شعبے میں مجموعی طور پر قابل وصول رقم 11 کھرب 78 ارب روپے بتائی — فائل فوٹو:ڈان
سینیٹ کی ایک خصوصی کمیٹی کو پیش کی گئی ایک رپورٹ میں پیپکو نے بجلی کے شعبے میں مجموعی طور پر قابل وصول رقم 11 کھرب 78 ارب روپے بتائی — فائل فوٹو:ڈان

اسلام آباد: پاور ڈویژن سے منحرف پاکستان الیکٹرک پاور کمپنی (پیپکو) نے بتایا ہے کہ بجلی کے شعبے کی کمپنیوں کی31 جنوری تک کُل ادائیگی 18 کھرب 82 ارب روپے ہوگئی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سینیٹ کی ایک خصوصی کمیٹی کو پیش کی گئی رپورٹ میں پیپکو نے بجلی کے شعبے میں مجموعی طور پر قابل وصول رقم 11 کھرب 78 ارب روپے بتائی جس کا مطلب ہے کہ اگر بجلی کی کمپنیوں کی تمام وصولیاں کرلی جاتی ہیں تب بھی حکومت کے قرض لینے یا صارفین کے لیے نرخوں میں اضافے کے ذریعے فراہم کیے جانے والے 704 ارب روپے کا خلا باقی رہے گا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ جنوری کے آخر تک انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پی) کو عوامی شعبے کی ادائیگی 6 کھرب 96 ارب روپے سے زیادہ رہی، حیرت انگیز بات یہ ہے کہ حکومت کے زیر اثر بجلی کمپنیاں بھی واٹر اینڈ پاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) کو ادائیگی روکتی رہی ہیں اور جنوری کے آخر تک واپڈا کو قابل ادائیگی رقم 2 کھرب 22 ارب روپے تھی۔

مزید پڑھیں: بجلی کی قیمتوں کے حوالے سے برآمدکنندگان کا اہم مطالبہ منظور

اس کے علاوہ تیل اور گیس فراہم کرنے والوں کی ادائیگیوں کی مالیت بالترتیب 75 ارب 20 کروڑ روپے اور 82 ارب 27 کروڑ روپے ہے جبکہ پاور ڈویژن کی ایک اور ہولڈنگ کمپنی پاور ہولڈنگ پرائیویٹ لمیٹڈ کا گردشی قرضہ 8 کھرب 7 ارب روپے ہوگیا ہے۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) نے ہی 20 فروری تک کل 3 کھرب 57 ارب روپے سے زائد کی وصولی رپورٹ کی جس میں سرکاری طور پر پیداواری کمپنیوں سے ایک کھرب 40 ارب روپے کی وصولی شامل تھی۔

پی ایس او کی توانائی کے شعبے سے قابل وصول رقم 2 کھرب 6 ارب روہے ہے، اس کے علاوہ دیگر اداروں سے کل 151 ارب روپے قابل ادا ہیں جس میں سوئی نادر گیس پائپ لائنز لمیٹڈ کے مائع قدرتی گیس (ایل این جی) کی مد میں 94 ارب روپے جبکہ 57 ارب روپے پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز اور وزارت خزانہ سے ہیں۔

اس کے علاوہ 11 کھرب 78 ارب روپے کی بجلی کمپنیوں کی قابل حصول رقم میں سے سرکاری شعبے کے اداروں اور کے الیکٹرک کے خلاف بقایا رقم 6 کھرب 70 ارب روپے ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بجلی کی قیمت میں ایک روپے 56 پیسے فی یونٹ اضافے کی منظوری

اس میں وفاقی حکومت کے خلاف17 ارب، آزاد جموں و کشمیر حکومت کے خلاف ایک کھرب 27 ارب روپے، بلوچستان میں زرعی ٹیوب ویلوں کے خلاف 2 کھرب 83 ارب روپے، کے الیکٹرک کے خلاف ایک کھرب 37 ارب روپے، فاٹا کے خلاف 38 ارب روپے اور صوبائی حکومتوں کے خلاف 62 ارب روپے شامل ہیں۔

عجیب بات یہ ہے کہ اس سال جنوری کے آخر تک نجی صارفین کے خلاف بقایا جات 5 کھرب 9 ارب روپے رہے حالانکہ تقسیم کار کمپنیاں عام طور پر 30 دن کے اندر بجلی کے بلوں کی عدم ادائیگی پر بجلی کا کنیکشن منقطع کردیتی ہیں۔

پیپکو کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ ضرورت کے مطابق فنڈز کی کمی کی وجہ سے بجلی پیدا کرنے والوں پر گردشی قرضہ بڑھ رہا جبکہ اس نے گردشی قرضے میں اضافے کے لیے تقریبا تمام سرکاری اداروں کو ہی ذمہ دار ٹھہرایا۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024