سابق آرمی چیف کے بھائی کی ڈی ایچ اے سٹی فراڈ کیس خارج کرنے کی درخواست مسترد
لاہور ہائی کورٹ نے سابق آرمی چیف جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی کے بھائی کامران کیانی کے ڈی ایچ اے سٹی فراڈ کیس اور آشیانہ کیس خارج کرنے کی درخواست ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے مسترد کردی۔
عدالت عالیہ میں جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے کامران کیانی کی درخواست پر بطور اعتراض کیس کی سماعت کی، مذکورہ درخواست میں چیئرمین نیب، ڈی جی نیب اور تفتیشی افسر کو فریق بنایا گیا۔
خیال رہے کہ سابق آرمی چیف کے بھائی کامران کیانی کی اس درخواست پر عدالت کے رجسٹرار آفس نے اعتراض لگایا تھا۔
اس معاملے پر آج عدالت میں سماعت ہوئی جہاں کامران کیانی کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ وکالت نامے کے بیان حلفی میں وزارت خارجہ سے تصدیق نہ ہونے کا اعتراض لگایا گیا ہے۔
مزید پڑھیں: سابق آرمی چیف کے بھائی نے نیب کے الزامات مسترد کردیے
اس پر جسٹس علی باقر نجفی نے کہا کہ یہ شخص 5 سال سے بھاگے ہوئے ہیں، کیا ملزم کو پہلے سرینڈر نہیں کرنا چاہیے؟
جس پر وکیل کامران کیانی نے کہا کہ ابھی تو دفتری اعتراض کی بات ہے وزارت خارجہ سے مصدقہ بیان حلفی لف(منسلک) نہ کرنے کا اعتراض بلا جواز ہے، نوٹری پبلک سے مصدقہ دستاویز بھی آئین کے آرٹیکل 95 کے تحت وزارت خارجہ سے مصدقہ ہونے کے برابر حیثیت رکھتی ہیں۔
درخواست گزار نے مؤقف اپنایا کہ وہ امریکی شہریت کے لیے خاندان سمیت 8 مئی 2015 سے بیرون ملک مقیم ہیں تاہم پاکستان سے جانے کے بعد نیب نے 12 نومبر 2015 کو درخواستگزار کے خلاف ڈی ایچ اے سٹی انکوائری شروع کر دی۔
مذکورہ درخواست کے مطابق احتساب عدالت میں ڈی ایچ اے سٹی کے دائر کیے گئے ریفرنس میں ملزمان کے خلاف کارروائی کرکے سزا دینے کا لفظ استعمال کیا گیا تاہم چیئرمین نیب کو کسی بھی ملزم کے خلاف سزا دینے کے الفاظ استعمال کرنے کا اختیار نہیں ہے۔
عدالت میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ عدالتوں کو یہ اختیار حاصل ہے کہ کسی بھی ملزم کو جرم ثابت ہونے پر سزا دے لیکن مذکورہ کیس میں کامران کیانی کو بدنیتی اور جھوٹ کی بنیاد پر نامزد کیا گیا۔
درخواست کے مطابق نیب نے ڈی ایچ اے سٹی کا ٹھیکہ حاصل کرنے والی کمپنی گلوبیکو کے 90 فیصد شیئر رکھنے کا الزام لگایا ہے، آئین پاکستان اور قوانین کے تحت کسی کمپنی کا شیئر ہولڈر ہونا کوئی جرم نہیں ہے۔
کامران کیانی نے اپنی درخواست میں کہا کہ گلوبیکو کمپنی کے تمام شیئرز ملزم حماد ارشد کو فروخت کردیے گئے تھے اور اس کمپنی کے شیئرز فروخت کرنے کی مد میں حماد ارشد سے 120 پلاٹ خریدے۔
عدالت میں دائر درخواست میں کہا گیا کہ درخواست گزار کے خلاف احتساب عدالت میں دائر کیا گیا ریفرنس آئین کے آرٹیکل 4، 10 اے، 18 اور 25 کی خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے درخواست میں کہا کہ نیب نے فواد حسن فواد کی ملی بھگت سے آشیانہ اقبال کا ٹھیکہ چوہدری عبدالطیف کمپنی منسوخ کرکے درخواست گزار کی کمپنی کو دینے کا الزام عائد کیا جبکہ درخواستگزار کی کمپنی کانپرو سروسز کو آشیانہ اقبال کا ٹھیکہ نہیں دیا گیا تھا۔
عدالت میں یہ بھی مؤقف اپنایا گیا کہ نیب نے آشیانہ اقبال کا ٹھیکہ لینے کی مد میں 5 کروڑ 50 لاکھ روپے فواد حسن فواد کو دینے کا بے بنیاد الزام لگایا ہے، فواد حسن فواد کے بھائی وقار حسن کے راولپنڈی دی مال پلازہ میں 30 کروڑ 74 لاکھ 33 ہزار روپے کی سرمایہ کاری کی تھی۔
ساتھ ہی یہ بھی مؤقف اپنایا گیا کہ درخواست گزار کی کمپنی کانپرو سروسز کا شہباز شریف کی پسندیدہ کمپنی ہونے کا الزام بھی بے بنیاد ہے، لہٰذا آشیانہ اقبال اسکینڈل کے ضمنی ریفرنس میں نیب کی جانب سے نامزدگی کالعدم قرار دی جائے۔
یہ بھی پڑھیں: احتساب عدالت نے کامران کیانی سمیت دیگر ملزمان کو اشتہاری قرار دے دیا
سماعت کے دوران عدالت سے استدعا کی گئی کہ درخواست کے حتمی فیصلے تک کامران کیانی کے خلاف آشیانہ اقبال کی کارروائی روکنے کا حکم دیا اور نیب کا اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے دائر کیے گئے ریفرنسز کو کالعدم کیا جائے۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز سابق ڈی ایچ اے سٹی اسکینڈل میں اشتہاری ملزم کامران کیانی نے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست جمع کراتے ہوئے نیب کی جانب سے خود پر لگے الزامات کو مسترد کردیا تھا۔
یاد رہے کہ احتساب عدالت نے گزشتہ سال جنوری کے مہینے میں اربوں روپے کے اسکینڈل میں کامران کیانی کو اشتہاری ملزم قرار دیا تھا۔
علاوہ ازیں کامران کیانی کو آشیانہ اقبال ہاؤسنگ اسکینڈل میں بھی ریفرنس کا سامنا ہے، جس میں احتساب عدالت نے 2016 میں انہیں اشتہاری ملزم قرار دیا تھا۔