’ابے بھاگ۔ یہ لڑکی نہیں کوئی بلا ہے۔ نکل نکل۔‘
اس سیریز کی بقیہ اقساط۔ پہلی، دوسری، تیسری، چوتھی، پانچویں اور چھٹی قسط
گول گول گھومتا سر
ہمارے دوست ہیں علی اکبر۔ کراچی کے ایک معروف اخبار میں کئی دہائیوں سے ملازم ہیں۔ اخبار کے ملازم عام طور پر رات کے راہی ہوتے ہیں۔ اخبار چونکہ رات گئے پریس میں جاتا ہے، اس لیے اس میں کام کرنے والے بھی شام کے وقت ہی آفس پہنچتے ہیں اور پھر آدھی رات کو ہی کام مکمل کرکے گھر واپس لوٹتے ہیں۔
ایک ایسے وقت پر کہ جب سڑکیں سنسان اور چار سُو ہُو کا عالم طاری ہوتا ہے۔ خصوصاً سردیوں کی راتوں میں تو یہ ویرانہ اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ لیکن بیچارے صحافی اور اخباری کارکن ان ویرانیوں کے عادی ہوتے ہیں۔ وہ روزانہ بلا خوف انہی اندھیری ویران راتوں میں اپنے گھروں کو لوٹتے ہیں۔ تو بھائی علی اکبر کا بھی یہی روٹین ہے۔ شام کے وقت دفتر پہنچنا اور رات گئے گھر کو لوٹنا۔ انہوں نے ایک دفعہ ایک ایسا عجیب اور خوفناک واقعہ سنایا کہ جسے سن کر ہم بھی خوف سے کپکپا گئے۔ انہی کی زبانی سنیے:
’یہ 1990ء کی دہائی کا ذکر ہے۔ ایک رات میں اپنی گاڑی میں شارع فیصل پر بلوچ کالونی فلائی اوور سے اتر کر نرسری کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اس وقت تقریباً 3 بجے کا وقت ہوگا۔ میں ہلکی رفتار کے ساتھ پل سے اتر رہا تھا۔ اسی وقت اچانک میں نے دیکھا کہ سامنے کچھ فاصلے پر ایک انتہائی بوڑھی خمیدہ کمر عورت ہے جو اپنے ہاتھ میں ایک گٹھڑی لیے پل کے فٹ پاتھ پر پیدل چلتی ہوئی آہستہ آہستہ نیچے کی طرف جارہی ہے۔ مجھے حیرانی ہوئی کے رات کے اس پہر یہ عورت یہاں کہاں گھوم رہی ہے۔ میں نے کار کی رفتار آہستہ کی اور عورت کے قریب جاکر پوچھا ماں تم اس وقت کہاں جا رہی ہو؟ رات کے اس سناٹے میں میری آواز ہر طرف گونج سی گئی لیکن اس بوڑھی عورت نے کوئی توجہ نہ دی اور اپنی سیدھ میں خراماں خراماں آگے بڑھتی رہی۔ میں نے بھی گاڑی کو اس کے ساتھ ساتھ آگے بڑھایا اور پھر چیخا۔ اماں تمہیں کہاں جانا ہے، میں چھوڑ دیتا ہوں۔‘
’میری دوسری آواز پر وہ عورت ٹھٹک کر رُکی اور میری طرف دیکھا۔ میں نے فوراً گاڑی روکی اور ہاتھ بڑھا کر دروازہ اندر سے کھول دیا۔ بوڑھی عورت اندر آکر بیٹھ گئی اور گٹھڑی اپنی گود میں رکھ لی۔ لیکن جیسے ہی میں نے دروازہ بند کیا تو گاڑی میں اچانک ایک ایسی عجیب ناگوار سی بُو پھیلی کہ جو میں نے اپنی زندگی میں اس سے پہلے کبھی نہیں سونگھی ہوگی۔ یہ بدبو تو نہیں تھی لیکن ایک ایسی عجیب اور پریشان کن بُو تھی جسے سونگھ کر مجھ پر ایک خوف سا طاری ہوا۔ اسی وقت میں نے سوچا کہ اس عورت کو لفٹ دے کر میں نے ٹھیک نہیں کیا۔ لیکن اب کیا ہوسکتا تھا۔ اب تو وہ اندر آکر بیٹھ چکی تھی۔‘
’اماں آپ کو کہاں جانا ہے؟‘، میں نے گاڑی آگے بڑھاتے ہوئے نظر سڑک پر رکھے رکھے اس سے پوچھا۔
’محمود آباد جانا ہے۔‘ ایک عجیب سرسراتی اور گونجتی سی آواز میں جواب آیا۔
’میں حیران ہوا کہ محمود آباد جانے کے لیے وہ اس طرف کیوں آئی تھی؟ وہاں جانے کے لیے تو اس کو بلوچ کالونی پُل کی بائیں طرف اتر جانا چاہیے تھا۔ خیر ہوسکتا ہے کہ اس بیچاری کا دماغی توازن ہی درست نہ ہو اور وہ یوں خواہ مخواہ ہی سڑکوں پر گھومتی رہتی ہو۔‘
’اماں میں آپ کو نرسری اسٹاپ پر اتار دیتا ہوں۔ وہاں سے آپ چنیسر گوٹھ پھاٹک کراس کرکے محمود آباد چلے جانا۔‘، میں بولا۔
’لیکن اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس وقت تک میں آدھا راستہ طے کرچکا تھا اور نرسری اسٹاپ بس ایک 2 منٹ میں پہنچنے والا تھا۔ میں نے ایک لمحے کے لیے سڑک سے نظریں ہٹائیں اور ایک نظر اماں پر ڈالی، لیکن اُف ف ف ... یہ کیا؟ میں نے اس وقت جو منظر دیکھا وہ مجھے بے ہوش کرنے کے لیے کافی تھا۔ بوڑھی عورت اپنی گٹھڑی گود میں لیے بیٹھی تو اسی طرح تھی، لیکن اس کا سر گول گول گھومے جا رہا تھا۔ 360 ڈگری پر اس کا سر ایک فٹ بال کی طرح اس قدر تیزی سے چکر پہ چکر کھائے جارہا تھا کہ اس کے چہرے کے خدوخال بھی دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ میرے بدن میں ایک جھرجھری سی آئی اور یکا یک جسم کے سارے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ میری روح کی گہرائیوں سے ایک زوردار ہذیانی چیخ برآمد ہوکر تیزی سے میرے حلق کی طرف لپکی، لیکن میں نے اللہ جانے کیسے ہمت کرکے اس چیخ کو اپنے منہ میں ہی روک لیا۔‘
’اماں تم جو کوئی بھی ہو، تم میرے ساتھ یہ مت کرو۔‘
میں بولا اور بعد میں حیران بھی ہوا کہ اس قدر خوفناک منظر دیکھ کر بھی کچھ بولنے کی ہمت میرے اندر آخر پیدا کس طرح ہوئی۔
’اماں میں نے تمہارے ساتھ نیکی کی ہے اور تم ہو کہ بدلے میں مجھے ڈرا رہی ہو۔‘
یہ جملے کہتے کہتے گاڑی نرسری اسٹاپ پر پہنچ چکی تھی۔ میں نے گاڑی کو بریک لگائی اور فٹ پاتھ کے ساتھ ملا کر روک دی۔ اب میں نے دیکھا کہ عورت کا سر نہیں گھوم رہا تھا۔ انجن اسٹارٹ رکھے رکھے میں نے اپنا ہاتھ اس کے سامنے سے آگے بڑھایا اور دروازے کا ہینڈل اندر سے کھینچا۔ دروازہ ایک جھٹکے سے کھل گیا۔ عورت سیٹ پر ساکت بیٹھی رہی۔
’اماں اب تم مہربانی کرکے یہاں اتر جاؤ اور مجھے جانے دو۔‘
مجھے خود اپنی آواز ہی اجنبی لگی۔ عورت اچانک کسمسائی، اپنی گٹھڑی ہاتھ میں اٹھاتی ہوئی سیٹ سے اٹھ کر آہستگی سے اتر گئی۔ میں نے اس کے اترتے ہی فوراً دروازہ بند کردیا۔ اس دوران وہ قدم اٹھا کر فٹ پاتھ پر چڑھ چکی تھی۔
لیکن یہ کیا؟
فٹ پاتھ پر چڑھتے ہی وہ اچانک فضا میں تحلیل ہوگئی۔ ایک لمحے پہلے وہ میری آنکھوں کے سامنے موجود تھی اور اگلے ہی لمحے فٹ پاتھ خالی تھا۔ مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا۔ میں نے ایک لمحے کے لیے اِدھر اُدھر دیکھا۔ دُور دُور تک کوئی ذی نفس موجود نہ تھا۔ یعنی میں اکیلا خواہ مخواہ ہی وہاں کھڑا تھا؟ میں نے اپنے سَر کو زور سے جھٹکا اور ایکسیلریٹر پر پاؤں کا پورا زور ڈال دیا ۔ گاڑی ایک جھٹکے سے آگے بڑھی تو اس کے ٹائر سڑک پر چیخ کی طرح بلند آواز سے چرچرائے۔
رات کے سناٹے میں یہ آواز دُور دُور تک پھیلی اور گاڑی فراٹے دار رفتار سے شارع فیصل پر دوڑتی چلی گئی۔ میں اس عورت کی گاڑی میں موجودگی کے دوران اتنا خوفزدہ نہیں ہوا تھا جتنا اس کے اترنے کے بعد ہو رہا تھا۔ میرا جسم اچانک تپنے لگا تھا اور مجھ پر ایک لرزہ سا طاری ہو رہا تھا۔ خدا جانے کس طرح گھر پہنچ کر میں نے خود کو بستر میں چھپا لیا۔
اگلے 3 دن تک میں تیز بخار میں مبتلا رہا اور کہیں جانے کے قابل نہیں رہا۔ آج اس واقعے کو کئی سال گزر چکے ہیں، لیکن رات تو رات، میں دن کے وقت بھی بلوچ کالونی پل کے نیچے سے گزرتے ہوئے سراسیمہ ہو جاتا ہوں۔
سفید چہرہ بھیانک آنکھیں
علی اکبر نے اسی شارع فیصل کا ایک اور قصہ بھی سنایا، جو اسے گورا قبرستان کے قریب پیش آیا تھا۔ یہ بھی اسی کی زبانی سنئے:
’یہ 1998ء کی ایک ویران رات تھی۔ میں اور میرا دوست شیراز رات گئے آفس سے نکلے اور اپنی اپنی گاڑیوں میں گھر کی طرف روانہ ہوئے۔ یہ 3 یا 4 بجے کا وقت ہوگا۔ سڑک پر ہم دونوں کی گاڑیوں کے سوا اور کوئی گاڑی نہیں تھی۔ شیراز میرے پیچھے پیچھے آ رہا تھا۔ آئی آئی چندریگر روڈ اور عبداللہ ہارون روڈ سے ہوتے ہوئے ہم میٹروپول ہوٹل پہنچے اور شارع فیصل پر چڑھ گئے۔
’تاج محل ہوٹل اور سی بریز پلازا سے آگے آکر جب میری گاڑی گورا قبرستان کے قریب لائنز ایریا موڑ پر پہنچی تو پی ای سی ایچ ایس کے بنگلوں کے سامنے والی فٹ پاتھ پر مجھے دُور سے ایک ہیولا حرکت کرتا نظر آیا۔ کوئی شخص فٹ پاتھ پر پیدل چلا جا رہا تھا۔ میری گاڑی اور قریب ہوئی تو اچانک اس ہیولے کا لباس اندھیرے میں چمکنے لگا۔ ارے، یہ تو کوئی عورت تھی، بلکہ کوئی لڑکی تھی جو ایک ایسا زرق برق اور چمکیلا لباس پہنے ہوئے تھی جو ہیڈلائٹس کی روشنی میں خوب جھلملا رہا تھا۔
’وہ ہماری طرف پیٹھ کیے اس طرح لہرا لہرا کر چل رہی تھی جیسے کوئی ماڈل گرل کیٹ واک پر چل رہی ہو۔ آدھی رات کے وقت اس سنسان سڑک پر ایک لڑکی دیکھ کر میرے اندر کے شیطان نے انگڑائی لی۔ میں نے گاڑی کی رفتار ایک دم آہستہ کردی۔ شیراز نے بھی میرے پیچھے اپنی کار کی رفتار کم کردی۔ میں فٹ پاتھ پر جاتی لڑکی کے قریب ہوا۔ وہ ہم دونوں گاڑیوں سے بے نیاز خراماں خراماں آگے چلتی چلی جا رہی تھی۔ اچانک میں نے محسوس کیا کہ اس کا یہ لہرا لہرا کر چلنا کچھ عجیب سا لگ رہا تھا۔ وہ ایسے دائیں بائیں لہراتی جا رہی تھی جیسے اس کے قدم زمین پر نہ ہوں بلکہ ہوا میں تیر رہی ہوں۔ اب تو میں چونکا۔ میں نے اس کے قدموں کی طرف غور سے دیکھا تو واقعی ایسا ہی تھا۔ اس کے پیر زمین سے چند انچ اوپر ہوا میں معلق تھے۔ وہ واقعی ہوا میں تیر رہی تھی۔ باپ رے باپ۔ میرے دماغ میں جھکڑ چلنے لگے۔ یہ لڑکی نہیں تھی، یہ تو اللہ جانے کیا مخلوق تھی جو یہ دلفریب نسوانی لباس پہنے یہاں گھوم رہی تھی۔ عین اسی وقت مجھے اپنے پیچھے شیراز کے چلانے کی آواز آئی
’ابے بھاگ علی اکبر بھاگ۔ یہ لڑکی نہیں کوئی بلا ہے۔ نکل نکل۔‘
’میں نے بھی آؤ دیکھا نہ تاؤ، فوراً گاڑی کا ایکسیلریٹر دبایا، لیکن رفتار پکڑنے سے پہلے میری نظر اس ہیولے کے چہرے پر پڑگئی۔ یا خدا، یہ کیا؟ میں تو بے ہوش ہوتے ہوتے رہ گیا۔ اس لڑکی نما مخلوق کا چہرہ بالکل لٹھے کی طرح سفید تھا اور اس بڑے سے سفید چہرے پر صرف 2 بڑی بڑی آنکھیں تھیں۔ نہ ناک نہ منہ، صرف آنکھیں۔ بڑی بڑی بالشت بھر کالی کالی آنکھیں، جن کے پیالے نما سفید ڈھیلوں میں گول گول سیاہ دیدے تیزی سے حرکت کر رہے تھے۔ میرے منہ سے ایک بھیانک چیخ نکلی جو گورا قبرستان کے سناٹے میں دُور دُور تک پھیل گئی۔ گاڑی اس وقت تک رفتار پکڑ چکی تھی۔
’شیراز بھی اپنی گاڑی تیزی سے بھگاتا ہوا آگے بڑھا کر میری دائیں طرف آیا اور ہاتھ سے تیز چلنے کا اشارہ دیتے ہوئے دوبارہ چلایا بھاگ بھائی، یہ معلوم نہیں کیا بلا ہے۔‘
وہ اپنی رفتار بڑھاتے ہوئے مجھ سے بھی آگے نکل گیا۔ میں بھی اس کے پیچھے پیچھے فراٹے بھرتا ہوا جا رہا تھا۔ مسجد مولانا روم کے سامنے ہم دونوں سندھی مسلم سوسائٹی کو جانے والی سڑک پر مڑے اور چند منٹوں میں اپنی گلی میں پہنچ گئے۔ شیراز سیدھا نکل گیا۔ خوف سے میرا بُرا حال تھا۔ بڑی مشکل سے گھر میں داخل ہوا۔ بستر پر لیٹتے ہی تیز بخار نے آ لیا اور کئی دن آفس نہ جاسکا۔ بعد میں کافی عرصے تک میں رات جلدی گھر پہنچنے کا اہتمام کرتا رہا۔ اس بات کو 2 عشرے گزر چکے ہیں لیکن آج بھی میں کسی بڑی آنکھوں والی گوری چٹی عورت کو دیکھتا ہوں تو میرے بدن میں ایک جھرجھری سے دوڑ جاتی ہے۔
آدھی رات اور سفید شیر
میرے عزیز ہیں انعام اللہ کیہر۔ کراچی میں ایک انٹرنیشنل فاسٹ فوڈ چین کے ملازم ہیں۔ یہ چند سال پہلے کا قصہ ہے۔ ان دنوں انعام اللہ کی ڈیوٹی کلفٹن برانچ میں تھی۔ فوڈ سینٹر عام طور پر شام کے وقت اپنی رونق پر آتا اور پھر رات گئے تک رش رہتا۔ یہاں انعام اللہ کی ڈیوٹی نہ صرف دن بھر کی فروخت کو سپروائز کرنا تھی بلکہ شاپ بند ہونے کے بعد رات گئے اس دن کے حسابات کو ہیڈ آفس پہنچانا بھی ان کی ذمہ داریوں میں شامل تھا۔ شاپ عموماً رات 2، ڈھائی بجے بند ہوتی اور اس کے بعد انعام اللہ اپنی موٹرسائیکل پر وہاں سے نکلتے۔ رات تقریباً 3 بجے وہ سندھی مسلم سوسائٹی میں اپنے ہیڈ آفس پہنچتے، دن بھر کے حسابات جمع کراتے اور کوئی 4 بجے تک اپنے گھر پہنچتے۔ یہ ان کا روزانہ کا معمول تھا۔
ایک رات انعام اللہ اسی طرح اپنی کلفٹن برانچ سے نکلے اور حسابات جمع کرانے ہیڈ آفس کی طرف روانہ ہوگئے۔ آگے کیا واقعہ پیش آیا، انہی کی زبانی سنئے:
’میں کلفٹن سے نکل کر ڈیفنس سوسائٹی سے ہوتا ہوا کالا پل تک پہنچا تو رات کے 3 بج رہے تھے۔ گورا قبرستان کے پاس ایف ٹی سی فلائی اوور سے ہوکر شارع فیصل پر اترا اور تھوڑا آگے آکر بائیں ہاتھ پر سندھی مسلم سوسائٹی چورنگی کی طرف مڑگیا۔ چورنگی یہاں سے قریب ہی تھی جہاں ہمارا ہیڈ آفس تھا۔ اس وقت سڑک پر ٹریفک بالکل نہیں تھا، بلکہ دُور دُور تک کوئی گاڑی بھی نہیں تھی۔ مجھے چورنگی بالکل سامنے نظر آرہی تھی۔ آفس جانے کے لیے مجھے چورنگی سے گھوم کر دائیں طرف مڑنا تھا۔ ابھی میں چورنگی سے کوئی 40 یا 50 میٹر کے فاصلے پر ہوں گا کہ اچانک مجھے سامنے دُور بائیں طرف ایک سفید ہیولا سا متحرک نظر آیا۔ یہ ہیولا لائنز ایریا سے سوسائٹی کی طرف آنے والی سڑک پر آہستہ آہستہ بڑھتا ہوا چورنگی کی طرف آرہا تھا۔ پہلے تو میں سمجھا کہ یہ کوئی پیدل شخص ہے، لیکن اگلے ہی لمحے مجھے اندازہ ہوا کہ یہ انسان نہیں بلکہ کوئی اور ہی مخلوق ہے۔ میں نے گھبرا کر فوراً ہی موٹرسائیکل کو بریک لگایا اور چوکنّا ہوکر وہیں کھڑا ہوگیا۔ ہیولا قریب آتا جارہا تھا۔ یہ کوئی چوپایہ تھا، نہ تو یہ کوئی گدھا گھوڑا تھا اور نہ اس کی چال گائے بھینس بکری جیسی تھی۔ تو آخر یہ کیا تھا؟
’اب مجھے کچھ خوف محسوس ہوا۔ میں نے اِدھر اُدھر دیکھا، لیکن اس وقت میرے آگے پیچھے کوئی اور انسان یا گاڑی نہیں تھی۔ میں نے پھر ہیولے کی طرف دیکھا جو اب چورنگی کے قریب پہنچ گیا تھا۔ اب جو میں نے دوبارہ اس چیز کو غور سے دیکھا تو خوف سے میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ یاالہٰی۔ یہ تو ایک شیر تھا، سفید رنگ کا جیتا جاگتا ببر شیر۔ کوئی 8 فٹ لمبا، بڑے بڑے بالوں اور چوڑے دہشت ناک چہرے والا ببر شیر، جو اپنے سر کو دائیں بائیں جھلاتا ہوا سیدھا چورنگی کی طرف جا رہا تھا۔
اپنے سامنے یوں اچانک ایک جیتے جاگتے شیر کو دیکھ کر میری تو چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی۔ اس سے پہلے تو میں نے شیر کو صرف چڑیا گھر میں پنجرے کے اندر ہی دیکھا تھا۔ اب اس طرح آدھی رات کے سنّاٹے میں ایک اصلی شیر کو بغیر پنجرے کے اپنی آنکھوں کے سامنے ٹہلتا دیکھ کر میری تو جان ہی نکل گئی۔ میں اپنی جگہ بالکل ساکت ہوگیا، مگر ساتھ ہی میں اپنی موٹرسائیکل کو فوراً واپس گھما کر یہاں سے فرار ہونے کے لیے بھی تیار تھا۔ لیکن شیر مجھ سے بے نیاز سیدھا چلتا رہا۔ چورنگی کے دائرے پر پہنچ کر وہ چند لمحوں کے لیے رکا اور گردن اٹھا کر غور سے میری طرف دیکھا۔ میری تو روح فنا ہوگئی۔ لیکن شیر مجھے دیکھنے کے باوجود میری طرف آنے کی بجائے چورنگی کے گرد گھوم کر آگے اس سڑک پر چلتا چلا گیا جو شاہراہِ قائدین کی طرف جا رہی تھی۔
’میں اس وقت تک اپنی جگہ بے حس و حرکت کھڑا رہا جب تک وہ شیر میری نظروں سے اوجھل نہیں ہوگیا۔ شیر کے غائب ہوتے ہی میں آگے بڑھا اور موٹر سائیکل کو دوڑاتا ہوا ہیڈ آفس کے سامنے پہنچا اور بائیک کو لاک کیے بغیر ہی تیزی سے آفس کے اندر گھس گیا۔ اس وقت جو لوگ آفس میں تھے، ان کو جب میں نے باہر نظر آنے والے شیر کے بارے میں بتایا تو کسی کو یقین نہ آیا۔ سب لوگ فوراً میرے ساتھ باہر سڑک پر آئے اور اِدھر اُدھر دیکھنے لگے۔ لیکن وہاں تو بس سناٹا تھا۔
'حسابات جمع کرنے کے بعد میں پھر باہر نکلا اور موٹر سائیکل جلدی سے اسٹارٹ کرکے تیز رفتاری سے سندھی مسلم سوسائٹی سے نکل کر شارع فیصل پر آیا اور اس علاقے سے جلد از جلد دُور نکل آیا۔ گھر پہنچ کر جب تک سویا نہیں اس وقت تک شیر میری نگاہوں کے سامنے گھومتا رہا۔ بالآخر میری آنکھ لگ گئی۔ اگلے دن اٹھ کر میں ٹی وی پر سارے نیوز چینل بدل بدل کر دیکھتا رہا کہ شاید کسی چینل پر رات کو اس شیر کے چھوٹ جانے یا نظر آنے کی کوئی خبر ہو، لیکن کہیں بھی ایسی کوئی خبر نہیں تھی۔ غالباً اس رات میں شہر کا واحد آدمی تھا جسے وہ سفید شیر نظر آیا۔ خدا جانے وہ غیبی شیر مجھے کیوں نظر آیا؟
(جاری ہے)
عبیداللہ کیہر پیشے کے لحاظ سے میکینیکل انجینیئر، مگر ساتھ ہی سیاح، سفرنامہ نگار، پروفیشنل فوٹوگرافر اور ڈاکومنٹری فلم میکر ہیں۔ آپ کی اب تک 7 کتابیں بھی شائع ہوچکی ہیں۔ آبائی تعلق سندھ کے شہر جیکب آباد سے ہے۔ عمر کا غالب حصہ کراچی میں گزارا اور اب اسلام آباد میں رہتے ہیں.
تبصرے (9) بند ہیں