• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

نریندر مودی پر تنقید، امریکی مزاحیہ تنقیدی شو کی بھارت میں نشریات بند

شائع February 26, 2020
تازہ لاسٹ ویک ٹو نائٹ کے شو میں نریندر مودی پر تقنید کی گئی تھی—اسکرین شاٹ
تازہ لاسٹ ویک ٹو نائٹ کے شو میں نریندر مودی پر تقنید کی گئی تھی—اسکرین شاٹ

بھارتی میڈیا تو وزیر اعظم نریندر مودی کی تعریفوں میں مصروف ہے تاہم عالمی مزاحیہ تنقیدی شو ’لاسٹ ویک ٹو نائٹ ود جان اولیور‘ کے شو کو بھارت میں آن لائن نشر کرنے سے روک دیا گیا۔

سیاسی مزاحیہ تنقید نگار و کامیڈین جان اولیور کا شو’ لاسٹ ویک ٹو نائٹ‘ کا شمار دنیا کے معروف ترین شوز میں ہوتا ہے۔

مذکورہ شو ویب اسٹریمنگ امریکی چینل ’ایچ بی او‘ پر نشر کیا جاتا ہے تاہم مذکورہ شو کو ڈزنی اسٹوڈیو اپنے ویب اسٹریمنگ چینلز پر بھی ریلیز کرتا ہے۔

’لاسٹ ویک ٹو نائٹ ود جان اولیور‘ کے شوز کو ’ڈزنی‘ اسٹوڈیو ہر ملک میں اپنے مقامی ویب اسٹریمنگ چینلز پرریلیز کرتا ہےرہا ہے اور ماضی میں اس شو کو بھارت میں بھی جاری کیا جاتا رہا ہے۔

تاہم اس شو کی حالیہ قسط کو ڈزنی اسٹوڈیو نے اپنے ویب اسٹریمنگ چینل ’ہاٹ اسٹار‘ پر ریلیز نہیں کیا، جس کی وجہ شاید شو میں نریندر مودی پر تنقید ہے۔

جان اولیور نے 23 فروری کو کیے گئے شو میں امریکی وزیر اعظم ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ بھارت سمیت بھارتی وزیر اعظم کی انتہاپسندی، ہندوستان میں اقلیتوں اور خاص طور پر مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم اور نریندر مودی کی جانب سے ماضی میں ریاست گجرات میں کیے گئے مسلمانوں کے قتل عام پر بات کی تھی۔

جان اولیور کے مذکورہ شو کو اگرچہ محض 3 دن میں یوٹیوب پر 52 لاکھ سے زائد بار دیکھا جا چکا ہے تاہم اس شو کو انڈیا میں ’ہاٹ اسٹار‘ پر ریلیز نہ کیے جانے پر کئی لوگوں نے حیرانی کا اظہار کیا۔

بھارت کے کئی ٹوئٹر صارفین نے جان اولیور کے تازہ شو کی ویڈیوز شیئر کرتے ہوئے حیرانی کا اظہار کیا کہ جس شو کو 52 لاکھ سے زائد بار دیکھا جا چکا ہے، اسے انڈیا میں ریلیز کیوں نہیں کیا جا رہا؟

ساتھ ہی کئی افراد نے جان اولیور سے اتفاق کیا کہ بالآخر مغربی میڈیا کو وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی سیاسی جماعت ’بھارتی جنتا پارٹی‘ (بی جے پی) کا نظریہ سمجھ آگیا اور وہ جان گئے کہ دراصل ’بی جے پی‘ نیونازی ہی ہے۔

تاہم چند افراد نے جان اولیور پر تنقید بھی کی اور دعویٰ کیا کہ پروگرام میں بھارت سے متعلق پیش کیے گئے کچھ حقائق غیر حقیقی ہیں اور میزبان نے ریسرچ کیے بغیر کچھ نشریاتی اداروں کی رپورٹس پر اکتفا کیا۔

جان اولیور کے تقریبا 20 منٹ دورانیے کے مزاحیہ تنقیدی پروگرام میں انہیں نہ صرف نریندر مودی بلکہ ڈونلڈ ٹرمپ پر بھی تنقید کرتے ہوئےسنا جا سکتا ہے۔

جان اولیور کا مذکورہ پروگرام ڈونلڈ ٹرمپ کے 24 فروری کو بھارت پہنچنے سے ایک دن قبل نشر کیا گیا تھا، جس میں بتایا گیا تھا کہ حیرانگی کی بات یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنی اہلیہ کے ہمراہ محبت کی نشانی تاج محل کا دورہ بھی کریں گے۔

میزبان نے ہلکے پھلکے انداز میں تنقید کرتےہوئے کہا تھا کہ ’دیکھیں کیا ظلم ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی اہلیہ میلانیا ٹرمپ محبت کی نشانی کا دورہ کریں گے‘

کامیڈین کا اشارہ ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی اہلیہ کے درمیان ماضی میں کشیدہ تعلقات کی خبروں کی جانب تھا۔

اسی طرح انہوں نےپروگرام میں بتایا کہ ڈونلڈ ٹرمپ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو ’بھارتی قوم کے والد‘ قرار دے چکے ہیں جب کہ یہ اعزاز مہاتما گاندھی کو حاصل ہے۔

جان اولیور کا کہنا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے نریندر مودی کی تعریف میں زمین و آسمان ایک کرتے ہوئے انہیں عظیم شخص قرار دیا اور یہ بھول گئے کہ ان کی حکومت میں ہی ہے گزشتہ 2 ماہ سے اقلیتوں پر مظالم جاری ہیں۔

جان اولیور نے اپنے پروگرام میں 2002 میں نریندر مودی کی جانب سے ریاست گجرات میں کرائے گئے مسلمانوں کے قتل عام کا ذکر بھی کیا اور یہ بھی بتایا کہ ان کا تعلق جس سیاسی جماعت سے ہے وہ کتنی تنگ ںظر ہے اور اس کے نظریات کیا ہیں؟

جان اولیور کے مذکورہ پروگرام کو جہاں بھارتیوں نے سراہا وہیں دیگر ممالک کے افراد نے بھی ان کی تعریف کی مگر ان کےپروگرام کو بھارت میں یوٹیوب پر ریلیز کرنے سے روک دیا گیا۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024