چین کے بعد امریکا کا کورونا وائرس کے علاج کی آزمائش کا فیصلہ
چین نے رواں ماہ کے شروع میں نوول کورونا وائرس کووڈ 19 کے شکار افراد میں تجرباتی دوا ریمیڈیسیور (Remdesivir) کی آزمائش شروع کی تھی جس کے نتائج تو فی الحال سامنے نہیں آئے مگر اب امریکا نے بھی اس کے ٹرائل کا فیصلہ کرلیا ہے۔
سی این بی سی کی رپورٹ کے مطابق گیلاڈ سائنسز انکارپوریشن کی تیار کردہ اس اینٹی وائرل دوا کے کلینیکل ٹرائل کے بارے میں انکشاف امریکی حکومت کے کلینیکل ٹرائل ڈیٹا بیس پر ہونے والی پوسٹ سے سامنے آیا۔
خیال رہے کہ چین سمیت 35 ممالک میں اب تک 80 ہزار سے زائد افراد اس وائرس سے متاثر جبکہ 27 سو سے زاید ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔
یہ آزمائش یونیورسٹی آف نبراسکا میڈیکل سینٹر کی جانب سے کی جائے گی جس کے ساتھ نیشنل انسٹیٹوٹ آف الرجی اینڈ انفیکشیز ڈیزیز بھی کام کرے گا اور دنیا بھر میں 50 مقامات پر اس کا ٹیسٹ ہوگا۔
جمعے کو کی جانے والی پوسٹ تک ٹرائل کے لیے مریضوں کا انتخاب نہیں ہوا تھا۔
عالمی ادارہ صحت کے ڈاکٹر بروس ایلورڈ نے پیر کو بتایا تھا کہ چین میں دورے کے دوران یہ واحد دوا تھی جو نئے کورونا وائرس کے خلاف زیادہ موثر نظر آئی۔
چین کے شہر ووہان میں اس کے 2 ٹرائل ہوئے اور یہ وہی شہر ہے جہاں سے یہ وائرس پھیلنا شروع ہوا تھا، تاہم ڈاکٹر بروس نے تحقیق کے نتائج مکمل طور پر سامنے نہ آنے کی وجہ سے ٹرائلز میں شامل مریضوں کی تعداد اور دیگرادویات کے بارے میں بات کرنے سے انکار کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے ان چیزوں کو ترجیحات میں شامل کررہے ہیں جس سے زندگیاں بچانے میں مدد مل سکے گی، اور یہ صرف چین کا نہیں بلکہ پوری دنیا کا مسئلہ ہے۔
اس دوا کو تیار کرنے والی کمپنی نے کچھ ہفتے پہلے ایک بیان میں کہا تھا کہ اس تجرباتی دوا کو اب تک دنیا میں کسی ڈرگ ریگولیٹر نے منظوری نہیں دی مگر اسے نئے وائرس کے خلاف جنگ کے لیے مریضوں پر استعمال کیا جارہا ہے کیونکہ ابھی تک اس حوالے سے کوئی منظور علاج موجود نہیں۔
دوسری جانب اس وائرس کے خلاف طریقہ علاج کے لیے عالمی سطح پر کام کیا جارہا ہے۔
تاہم طبی حکام کا کہنا ہے کہ انسانوں پر ابتدائی آزمائش کے لیے ایک ویکسین کی دستیابی میں 3 ماہ کا عرصہ لگ سکتا ہے جبکہ عموماً موثر ویکسین تیار کرنے میں کئی سال لگ جاتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ یہ نئی تجرباتی دوا اس وائرس کی روک تھام کے لیے سب سے اہم ہتھیار کی شکل اختیار کرگئی ہے۔
جنوری میں طبی جریدے نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسین میں شائع تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ امریکا میں اس وائرس کے پہلے مریض کا نمونیا اسی تجرباتی دوا کے استعمال سے بہتر ہوا۔
چین میں تو اسے پیٹنٹ کرانے کے لیے بھی درخواست جمع کرائی گئی تھی جس سے یہ اشارہ ملا تھا کہ چین کی نظر میں یہ تجرباتی دوا کورونا وائرس پر قابو پانے کے لیے موثر ثابت ہوسکتی ہے۔
اس دوا کو وبائی امراض جیسے ایبولا پر قابو پانے کے لیے تیار کیا گیا تھا اور نئے کورونا وائرس پر ابتدائی پر موثر ثابت ہونے کی علامات پر چین میں انسانوں پر اس کا ٹرائل فوری طور پر شروع کیا گیا۔