• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

ایک غریب سے پیسے لیکر دوسرے غریب کو دینا کہاں کی عقلمندی ہے؟

شائع February 26, 2020
لکھاری لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز میں اکنامکس پڑھاتے ہیں، اور IDEAS لاہور کے ویزیٹنگ فیلو ہیں۔
لکھاری لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز میں اکنامکس پڑھاتے ہیں، اور IDEAS لاہور کے ویزیٹنگ فیلو ہیں۔

کیا ایسا ممکن ہے کہ ہمارے ہاں لوگوں کی اکثریت کے لیے اقتصادی صورتحال کٹھن جبکہ وسیع پیمانے یعنی (Macro) سطح پر اقتصادی صورتحال مستحکم اور اس قابل ہو کہ حکومت تسلی دینے لائق چند اقدمات بھی کرسکتی ہو؟ اور کیا یہ صورتحال بڑے عرصے تک برقرار رہ سکتی ہے؟

مذکورہ بالا دونوں سوالات کا جواب بظاہر ’ہاں‘ میں نظر آتا ہے۔ اس وقت مہنگائی کی شرح 14 سے 15 فیصد ہے، توانائی، اشیائے خوردونوش جیسی اہم ضروریاتِ زندگی کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، شرح نمو میں بلندی دکھائی دیتی ہے، ٹیکسوں کے بوجھ میں اضافہ ہوا ہے اور مزید اضافے کے ارادے بھی نظر آتے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ شرح نمو میں سست رفتاری پائی جاتی ہے، بے روزگاری کی شرح عروج پر ہے، ملازمتوں کے مواقع پیدا نہیں کیے جارہے، آمدن میں عدم مساوات کے باعث غربت بڑھتی جا رہی ہے۔ پھر برآمدات کمزوری کا شکار ہیں، بلند محصول کاری کے ذریعے درآمدات دب رہی ہیں، مینوفیکچرنگ شعبے کی شرح نمو میں منفی رجحان پایا جاتا ہے اور زراعت کے شعبے کی صورتحال بھی کچھ اچھی نہیں ہے۔ ملک میں عوام کی اکثریت مشکل حالات سے گزر رہی ہے۔

دوسری طرف حکومتی نمائندگان غالباً روز ہی اس اطمینان کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ معیشت مستحکم ہو رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بنیادی خسارہ ہدف سے نیچے ہے۔ تجارتی خسارہ سکڑ گیا ہے، شرح مبادلہ اپنی متوازن سطح پر برقرار ہے، ٹیکس منافع میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور حکومتی بجٹ کی صورتحال میں بہتری آرہی ہے۔ وہ یہ بھی دعوٰی کرتے ہیں کہ عالمی ادارے بھی پاکستان کی معاشی بہتری کو تسلیم اور اس کی تعریف کرتے ہیں۔

تو بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جزیاتی (micro) سطح پر معاشی حالات بھلے ہی کٹھن ہوں اس کے باوجود کلیاتی سطح پر معاشی اشاریوں کو اطمینان بخش دکھایا جاسکتا ہے۔ کیا یہ صورتحال طویل عرصے تک برقرار رہ سکتی ہے؟ یہ تو صاف ہے کہ دونوں معاشی سطحوں کے حالات بے اثر اور متوازن نہیں رہ سکتے۔ اگر یہ صورتحال برقرار رہتی ہے تو کسی ایک جگہ پر پانی سر سے ضرور اوپر گزر جائے گا۔

چونکہ ملک کے اندر شرح نمو سست اور بے روزگاری بے انتہا ہے لہٰذا اس کے سبب مہنگائی کا دباؤ معیشت پر نہیں آتا ہے۔ جب بجلی کے نرخوں میں اضافہ ہوتا ہے اور قیمتوں کے نظام کے ذریعے شرح تبادلہ متوازن سطح پر رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے تب مہنگائی کا دباؤ ہلکا ہونے لگتا ہے۔ یوں پھر اسٹیٹ بینک کو شرح سود میں کمی لانے میں مدد مل سکتی ہے اور شرح سود میں کمی پیداواری سرگرمیوں کو بحال رکھنے میں مددگار ثابت ہوگی۔

اس وقت معاشی حالات کو بے اثر اور متوازن نہیں رکھا جاسکتا کیونکہ ان حالات کی وجہ سے سماجی سطح پر بھی بے چینی بڑھ رہی ہے۔ حکومت پہلے ہی اس دباؤ کو محسوس کرنے لگی ہے۔ تقریباً روزانہ کی بنیاد پر وزیراعظم اور اہم وزرا قیمتوں پر ضابطے کی ضرورت اور عوام کو ’ریلیف‘ کی فراہمی سے متعلق بیانات دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی یہ فکر دراصل عوامی دباؤ کا نتیجہ ہے۔

مستحقین کو براہِ راست ریلیف فراہمی کے لیے ہر چند ہفتے بعد حکومت کبھی احساس، کامیاب جوان اور دیگر پروگراموں کے تحت کسی نہ کسی نئے منصوبے یا پروگرام کا اعلان کررہی ہوتی ہے۔ حکومت کے اس تحرک کے پیچھے بھی عوامی دباؤ کارفرما ہے۔

حکومت کے زیادہ تر پروگرام اتنے بڑے یا گہرے نہیں ہیں کہ جن سے سست رو پیداوار، شدید مہنگائی اور بے روزگاری کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل کو حل کیا جاسکے، لیکن ہاں یہ پروگرام مخصوص لوگوں کو کچھ ریلیف اور حکومت کو کچھ عرصے کے لیے تنقید سے بچنے کی مہلت ضرور دے رہے ہیں۔

چونکہ حکومت کے پاس وسائل کی کمی ہے اس لیے وہ اپنے چند ریلیف پروگراموں کو انجام دینے کی خاطر دیگر پروگراموں کے لیے مختص کردہ رقوم استعمال کرتی ہے، حالانکہ بعض اوقات تو وہ پروگرام بھی نئے پروگراموں جتنے ہی ضروری اور اہم ہوتے ہیں۔

حکومت نے جب ایک طرف یونیورسٹی کے طلبہ کے لیے 50 ہزار اسکالرشپس دینے کا اعلان کیا تھا تو دوسری طرف ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے بجٹ میں 10 سے 15 فیصد کٹوتی کردی۔ 50 ہزار خوش نصیب طلبہ کو تو فائدہ پہنچے گا لیکن اس وجہ سے یونیورسٹیوں کو شدید مالی بحران کا سامنا ہے اور انہیں واجبات کی ادائیگی میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔ تو کیا پیسوں کو ایک سے دوسرے پروگرام یا منصوبے پر لگانے سے ’عوام‘ کو فائدہ پہنچا؟

یہی نہیں بلکہ حال ہی میں یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن کے ذریعے عوام کو دیے جانے والے 10 ارب روپے کے ’ریلیف پیکج‘ کا ذکر کریں تو تو اطلاعات کے مطابق یہ رقم احساس پروگرام کے لیے مختص کردہ رقم میں سے جاری کی جا رہی ہے۔ اگر یہی معاملہ ہے تو سچ سچ بتائیے کہ عوام کے لیے یہ پیکج کس طرح فائدہ مند ہے؟

پیسوں کو ایک سے دوسرے منصوبے یا پروگرام پر لگانے کا معاملہ چند جگہوں پر مددگار بھی رہتا ہے۔ اگر امیروں کو حاصل رعایتیں ختم کردی جائیں اور اس سے بچنے والے پیسے کو غریبوں کے لیے استعمال کیا جائے تو یہ عمل واقعی کافی مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ مگر یہ واضح نہیں کہ مذکورہ بالا معاملات میں ایسا کچھ ہو رہا ہے۔

چنانچہ عوام کو حکومت کی جانب سے پہنچنے والے فوائد پر سوالیہ نشان کھڑا ہوجاتا ہے۔ ایک سے دوسری جگہ پیسے لگانے سے حکومت کو ٹھوس فائدے سے زیادہ جذباتی فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ افراطِ زر کی بلند سطح اور سست شرح نمو کے بیچ جذبات شاید اہمیت رکھتے ہوں لیکن اس طرح حقیقی مسائل حل نہیں ہوجائیں گے، البتہ آئی ایم ایف پروگرام کے تحت جن اصلاحات پر عمل درآمد ہو رہا ہے اس پر معیشت کے ردِعمل سے پہلے حکومت کو شاید جذبات کی وجہ سے کچھ مہلت ضرور مل سکتی ہے۔

حکومت اور عوام کے لیے معاشی پیداوار اہم مسئلہ رہا ہے۔ یہ معاشی پیداوار کہاں سے آئی گی؟ جب تک برآمدات میں زبرست اٹھان نہیں آتی اور بڑی سطح کی مینوفیکچرنگ کا شعبہ جوں کا توں یا کمزوزی کا شکار رہے گا تب تک کسی بھی سطح کا استحکام، قیمتوں پر ضابطے یا احساس پروگرام سے کچھ نہیں ہونے والا۔ مگر معاشی پیداوار کیسے ممکن ہوگی؟ جب تک شرح نمو بُلند رہے گی، ریاست ٹیکس کا بوجھ بڑھاتی جائے گی اور توانائی کے نرخوں میں اضافہ ہوتا رہے گا تب تک تو قطعی طور پر ایسا کچھ نہیں ہونے والا۔

’استحکام‘ کو برقرار رکھنے اور حکومت کو قرضوں سے آزاد رکھنے کی خاطر پیدا ہونے والے دباؤ کے باعث معاشی پیداوار میں اضافہ کے لیے کی جانے والی کوششوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ حکومت کو کسی نہ کسی طرح سے اس مسئلے کو حل کرنا ہوگا۔

چند ماہرین یہ کہتے ہیں کہ حکومت کے حجم کو گھٹاتے ہوئے نجی شعبے کو ضابطہ بندی میں چھوٹ اور اسے معاشی سرگرمیوں کے آغاز، اہتمام اور انتظام میں اہم کردار دے کر معاشی پیداوار میں تیزی لائی جاسکتی ہے۔ یہ طریقہ محصولات میں کمی اور شہروں کو معیشت کے لیے پیداواری انجنز بنانے کا تقاضا کرتا ہے۔

دیگر ماہرین کے مطابق حکومت کو پہلے سے زیادہ متحرک اور مالی امور میں حکومتی مداخلت کی حامی پالیسی مرتب دینی چاہیے جو چند شعبہ جات اور برآمدات کا رجحان متعین کرنے میں مدد فراہم کرسکے۔ یہ طریقہ حجم میں بڑی اور ہوشیار حکومت کا تقاضا کرتا ہے۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ کاغذ پر ہم ہر طریقہ آزما چکے ہیں لیکن کوئی ایک طریقہ بھی مضبوط اور پائیدار معاشی پیداوار میں ہماری مدد نہیں کرسکا۔ اس کی وجہ شاید ریاست کی اہلیت، کارکردگی، کارگزاری اور مؤثریت سے جڑے مسائل ہیں۔ اب یہاں ہم کیا کرسکتے ہیں؟

میکرو سطح پر تسلی بخش صورتحال کی موجودگی میں عوامی سطح پر (بالخصوص کم اور متوسط آمدن رکھنے والے گروہ) مشکل حالات کچھ عرصے تک تو مناسب جذباتی اور اعلانات برقرار رہ سکتے ہیں۔ تاہم ایک دن پانی سر سے اوپر گزرجائے گا۔ آگے چل کر مختلف صورتوں میں خود معاشی پھرتی اور اس کے ساتھ ساتھ عوامی دباؤ کا ردِعمل دیکھنے کو ملے گا۔

یہ ردِعمل کن صورتوں میں دیکھنے کو ملے ہوگا؟ یہ ایک بڑا ہی اہم مسئلہ محسوس ہوتا ہے۔ تاحال یہ واضح نہیں ہوسکا ہے کہ آیا حکومت ’معاشی پیداوار کی صورتحال بدلنے‘ کا کوئی پلان رکھتی بھی ہے یا نہیں۔ فی الحال تو بظاہر ایسا کوئی منظرنامہ دیکھنے کو نہیں ملتا اور عوام کے لیے سب سے زیادہ یہی بات باعثِ فکر ہونی چاہیے۔


یہ مضمون 21 فروری 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

فیصل باری

لکھاری لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز میں اکنامکس پڑھاتے ہیں، اور IDEAS لاہور کے ویزیٹنگ فیلو ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] اور [email protected] ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024