• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے مواقع کم ہورہے ہیں، عالمی ادارہ صحت

شائع February 22, 2020 اپ ڈیٹ February 26, 2020
جنوبی کوریا میں وائرس کے کیسز کی تعداد 204 تک پہنچ گئی— فائل فوٹو: شٹراسٹاک
جنوبی کوریا میں وائرس کے کیسز کی تعداد 204 تک پہنچ گئی— فائل فوٹو: شٹراسٹاک

جینیوا: عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے خبردار کیا ہے کہ چین سے واضح تعلق نہ رکھنے والے کیسز کی تعداد میں اضافے پر تشویش کے باعث مہلک کورونا وائرس کی وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کے مواقع کم ہورہے ہیں۔

ڈان اخبار میں شائع فرانسیسی خبررساں ادارے ‘اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ٹیڈروس ایڈہانوم گھیبریسس کئی ہفتوں سے اصرار کررہے ہیں کہ چین کے وسطی صوبے ہوبے کے باہر کووڈ-19 کے کیسز کی کم تعداد اس وائرس کے عالمی پھیلاؤ کو روکنے کا موقع فراہم کر رہی ہے۔

تاہم گزشتہ روز مشرق وسطیٰ اور جنوبی کوریا میں کورونا وائرس کے کیسز میں اضافے کے بعد ڈبلیو ایچ او کے سربراہ نے پہلی مرتبہ خبردار کیا کہ ہم اس مرحلے میں ہیں جہاں وائرس کا شکار ہونا ممکن ہے اور اس حوالے سے ہمارے پاس موجود پھیلاؤ روکنے کے مواقع کم ہورہے ہیں۔

مزید پڑھیں: کورونا وائرس: ایران میں مزید 2 ہلاکتیں، دنیا بھر میں ہلاکتوں کی تعداد 2200 سے متجاوز

انہوں نے خبردار کیا کہ اگر ممالک نے اس وائرس کے پھیلاؤ کے خلاف جنگ میں تیزی سے موبلائز نہیں کیا تو یہ وبا کسی بھی سمت میں جاسکتی ہے اور یہ پریشان کن بھی ہوسکتی ہے۔

خیال رہے کہ دسمبر 2019 کے اواخر میں پھیلنے والی اس وبا کے نتیجے میں چین میں 2200 سے زائد افراد ہلاک جبکہ 75 ہزار 5 سو افراد اس کا شکار ہوچکے ہیں۔

دنیا کے دیگر 27 ممالک میں ایک ہزار ایک سو 50 افراد اس وائرس کا شکار جبکہ ایک درجن سے زائد ہلاک ہوچکے ہیں۔

علاوہ ازیں گزشتہ روز مشرق وسطیٰ کے مختلف ممالک میں کورونا وائرس کے مزید نئے کیسز رپورٹ ہوئے جہاں ایران اور لبنان میں اس کے پہلے کیسز سامنے آئے۔

ادھر ایران کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس کے نتیجے میں 4 افراد ہلاک اور 18متاثر ہوئے۔

دوسری جانب جنوبی کوریا میں کورونا وائرس کے کیسز کی تعداد دگنی ہونے کے بعد 204 تک پہنچ گئی جو چین کے بعد اس وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک ہے۔

یورپ میں اٹلی کے شمال میں واقع ایک چھوٹے ٹاؤن میں کورونا وائرس کے 6 کیسز رپورٹ ہونے کے بعد 5 روز سے بارز، اسکولز اور دفاتر بند کیے ہوئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس: کرغزستان کا چین کے شہریوں کو نئے ویزے دینے سے انکار

ڈبلیو ایچ او کے سربراہ نے کہا کہ چین کے باہر کورونا وائرس کے کیسز کی تعداد تاحال ’نسبتاً کم‘ ہے۔

تاہم انہوں نے ان کیسز کی تعداد سے متعلق تشویش کا اظہار کیا جن کا تصدیق شدہ کیس کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں تھا۔

انہوں نے کہا کہ دنیا بھر کے ممالک کو وائرس کے پھیلاؤ سے بچاؤ کے لیے بہت زیادہ سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے۔

ٹیڈروس ایڈہانوم گھیبریسس نے کہا کہ ہمیں پیچھے مڑ کر دیکھنا اور افسوس نہیں کرنا چاہیے کہ ہم اپنے پاس موجود موقع کا فائدہ اٹھانے میں ناکام ہوگئے۔

کورونا وائرس ہے کیا؟

کورونا وائرس کو جراثیموں کی ایک نسل Coronaviridae کا حصہ قرار دیا جاتا ہے اور مائیکرو اسکوپ میں یہ نوکدار رنگز جیسا نظر آتا ہے، اور نوکدار ہونے کی وجہ سے ہی اسے کورونا کا نام دیا گیا ہے جو اس کے وائرل انویلپ کے ارگرد ایک ہالہ سے بنادیتے ہیں۔

کورونا وائرسز میں آر این اے کی ایک لڑی ہوتی ہے اور وہ اس وقت تک اپنی تعداد نہیں بڑھاسکتے جب تک زندہ خلیات میں داخل ہوکر اس کے افعال پر کنٹرول حاصل نہیں کرلیتے، اس کے نوکدار حصے ہی خلیات میں داخل ہونے میں مدد فرہم کرتے ہیں بالکل ایسے جیسے کسی دھماکا خیز مواد سے دروازے کو اڑا کر اندر جانے کا راستہ بنایا جائے۔

ایک بار داخل ہونے کے بعد یہ خلیے کو ایک وائرس فیکٹری میں تبدیل کردیتے ہیں اور مالیکیولر زنجیر کو مزید وائرسز بنانے کے لیے استعمال کرنے لگتے ہیں اور پھر انہیں دیگر مقامات پر منتقل کرنے لگتے ہیں، یعنی یہ وائرس دیگر خلیات کو متاثر کرتا ہے اور یہی سلسلہ آگے بڑھتا رہتا ہے۔

عموماً اس طرح کے وائرسز جانوروں میں پائے جاتے ہیں، جن میں مویشی، پالتو جانور، جنگلی حیات جیسے چمگادڑ میں دریافت ہوا ہے اور جب یہ انسانوں میں منتقل ہوتا ہے تو بخار، سانس کے نظام کے امراض اور پھیپھڑوں میں ورم کا باعث بنتا ہے۔

ایسے افراد جن کا مدافعتی نظام کمزور ہوتا ہے یعنی بزرگ یا ایچ آئی وی/ایڈز کے مریض وغیرہ، ان میں یہ وائرسز نظام تنفس کے سنگین امراض کا باعث بنتے ہیں۔

کورونا وائرس سے متعلق مزید اہم خبروں کے لیے یہاں کلک کریں۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024