50 والا انکلوژر ہو یا 6 ہزار والا، نیشنل اسٹیڈیم کو میں نے ایک جیسا پایا
1996ء کا ورلڈ کپ وہ تاریخی موقع تھا جب پہلی بار نیشنل اسٹیڈیم جانے کا اتفاق ہوا۔ یہ ایک یادگار دن تھا، اس لیے نہیں کہ میں میچ دیکھنے گیا، بلکہ اس لیے کہ وی آئی پی پاس کے ساتھ تقریباً پورا اسٹیڈیم دیکھنا میرے لیے ممکن ہوسکا، اور اس بہترین موقع کی وجہ ہمارے ابو کی نوکری تھی۔
بات کو آسان کرتے ہیں۔ جب 1996ء کا ورلڈ کپ منعقد ہوا تو ہمارے ابو ایک بینک میں ملازم تھے اور یہ وہی بینک تھا جو ورلڈ کپ میں کسی نہ کسی طور پر اہم کردار ادا کررہا تھا اور اسی ناطے ابو کی اسٹیڈیم میں کچھ ذمہ داری لگ گئی۔ ان کے پاس مکمل اختیار والا پاس تھا اور انہوں نے اس کی مدد سے مجھے ہر جگہ کی سیر کروائی۔
لیکن چونکہ اس وقت عمر یہی کوئی 9 سال تھی، اس لیے بہت کچھ یاد تو نہیں، مگر ہاں سابق انگلش فاسٹ باؤلر باب ولس سے ملاقات آج بھی یاد ہے۔
چلیے، کچھ آگے بڑھتے ہیں۔ اب ہمیں اندازہ ہوگیا کہ بار بار ایسے مواقع تو ملنے نہیں اور اسٹیڈیم جاکر میچ دیکھنے کی خواہش کم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی، اس لیے پھر ہم نے بطور عام عوام اسٹیڈیم جانے کا فیصلہ کیا اور 1996ء سے لیکر 2006ء تک کراچی میں جتنے بھی میچ ہوئے، وہ تقریباً سارے ہی ہم نے اسٹیڈیم جاکر دیکھے۔ اس دوران ٹکٹس کے حصول کی خاطر لمبی لائنوں میں بھی لگے اور ڈنڈے بھی کھائے۔
لیکن جب آپ 14، 15 سال کے ہوتے ہو تو یہ سب کچھ اچھا لگ رہا ہوتا ہے۔ اسٹیڈیم جانے کے لیے ہمارا ایک اصول عام تھا، اور وہ یہ کہ جو سب سے سستا ٹکٹ ہوگا وہی لینا ہے۔ تو مجھے یاد ہے کہ 2006ء تک ٹیسٹ میچ کے ٹکٹ 50 روپے اور ایک روزہ کرکٹ کے لیے شاید 100 روپے کے ہوتے تھے۔
اب ظاہر ہے جب اتنے کم پیسوں والے ٹکٹ میں جائیں گے تو مسائل کا سامنا تو ہوگا۔ لہٰذا وہاں نہ پانی کی کوئی بہتر سہولت تھی، نہ کھانے کا کوئی انتظام تھا، واش روم کی صورتحال تو کچھ ایسی تھی کہ دیکھنا محال تھا، لکھا کیا جائے، لیکن ہم یہی سب سوچ کر مطمئن ہوجاتے تھے کہ چونکہ ہم سستے والے انکلوژر میں ہوتے ہیں اس لیے سب کچھ ایسا ہے، جو مہنگے انکلوژرز ہوں گے وہاں صورتحال یقینی طور پر مختلف ہوتی ہوگی۔
لیکن جب میں ٹھیک 12 سال بعد پاکستان سپر لیگ سیزن 5 کی افتتاحی تقریب دیکھنے اسٹیڈیم گیا تو میں غلط ثابت ہوا، کیونکہ جتنے خراب حالات میں نے 50 والے اسٹینڈز کے دیکھے تھے، کم و بیش وہی صورتحال 6 ہزار والے اسٹیڈ میں بھی دیکھی۔
اچھا یہ 6 ہزار والے انکلوژر کی کہانی بھی بہت دلچسپ ہے، پہلے وہ بھی جان لیجیے۔ 20 فروری 2020ء، یعنی جس دن افتتاحی تقریب ہونی تھی، اسی دن سہہ پہر 3 بج کر 10 منٹ پر میرا کسی بھی طور پر اسٹیڈیم جانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ لیکن میں ایک کام نمٹا کر جیسے ہی اپنی ٹیبل پر پہنچا تو ایک لفافے کو پایا۔
اس لفافے کو انتہائی غیر اہم سمجھتے ہوئے اسے کھولا تو میچ کا ٹکٹ پایا۔ ابتدائی خیال آیا کہ ہوگا کوئی آگے پیچھے کا، مگر جب اس پر وی آئی پی اسٹیڈ لکھا دیکھا تو اچانک دونوں آنکھیں کھل گئیں، اور پھر جب ایک ٹکٹ کے پیچھے دوسرا ٹکٹ بھی پایا تو ایسا لگا جیسے لاٹری نکل گئی۔
بس پھر کیا تھا، اگلے 10 منٹ میں پروگرام بنایا اور رات 8 بجے ہم اسٹیڈیم کے اندر تھے۔
چلیے اب آتے ہیں ان تجربات کی طرف جس نے ہم پر یہ راز آشکار کیا کہ ٹکٹ چاہے 50 والے ہوں، جو اب 500 والے ہوچکے ہیں، یا پھر 6 ہزار والے، فرق کچھ نہیں پڑتا۔
انتظامی مسائل
ہم جب اپنے مطلوبہ اسٹینڈ کے پاس پہنچے تو ایک لمبی لائن کو پایا۔ خیر ناچاہتے ہوئے بھی وہاں لگ گئے، لیکن کئی منٹ وہاں کھڑے رہنے کے بعد بھی ایسا لگا جیسے اس میں حرارت بالکل نہیں۔ کچھ سمجھ نہ آیا، لیکن انتظار اور برداشت کے سوا کوئی راستہ بھی نہیں تھا۔ اتنے میں ہمارے پیچھے ایک لڑکے نے پوچھا کہ کیا آپ فیملی کے ساتھ ہیں، جب ہم نے ہاں میں جواب دیا تو اس نے ہمیں بتایا کہ شاید فیملی والوں کو جلدی بھیج رہے ہیں، آپ چیک کرلیجیے۔ جب ان کی بات کی تصدیق کرنی چاہی تو بات ٹھیک نکلی اور ہم اگلے 5 منٹ بعد اسٹیڈیم کے اندر تھے۔
لیکن سوچنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ یہ سہولت صرف فیملی کو کیوں؟ وہاں موجود جو لڑکے تھے، جن کے پاس ظاہر ہے ٹکٹ موجود تھے، ان کو کیوں فضول میں پریشان کیا جارہا تھا؟ یاد رہے کہ اس لائن میں لگنے والوں کی ایک بڑی تعداد وہ تھی جنہوں نے 6 ہزار روپے کا ٹکٹ خریدا تھا، ہماری طرح مفتے کم ہی ہوں گے۔
پھر جس ایک اور مسئلے کا سامنا میں نے خود بھی کیا، وہ فضول میں پریشان کرنے کی عادت ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ کچھ کھانے پینے کا سامان لینے کے لیے جب باہر جانے کا سوچا تو باہر جانے والے اور اندر آنے والوں کا بے تحاشہ رش دیکھا۔ قریب جاکر دیکھا تو معلوم ہوا کہ ایک ہی گیٹ ہے، جس سے اندر آنے والوں کو اندر لایا جارہا ہے اور باہر جانے والوں کو باہر لے جایا جارہا ہے۔ یاد رہے کہ یہ وہ گیٹ ہے جس سے گھوم کر محض ایک ہی بندہ نکل سکتا ہے۔ یہ صورتحال اس وقت زیادہ تکلیف دہ ہوگئی کہ جب بالکل برابر میں ایک اور گیٹ بھی تھا جسے کسی بھی وجہ کے بغیر بند رکھا گیا ہے۔
جب لوگوں نے بہت زیادہ شور کیا کہ آپ باہر جانے والوں کے لیے اسے کھول دیں تو پھر سیکیورٹی پر معمور لوگوں نے یہ زحمت کی اور اگلے 2 سے 5 منٹ بعد یہ تمام رش ختم ہوگیا۔
کھانے کے اسٹالز اور نظم و ضبط کی قلت
جس اسٹینڈ پر ہم موجود تھے، وہاں بڑی تعداد میں امیر زادے تھے، یعنی ایسے لوگ جو بن کباب، چھولا پلاؤ، یا بریانی کھانے والے نہیں، بلکہ فاسٹ فوڈ کے شیدائی ہوتے ہیں۔ لیکن جب باہر نکل کر صورتحال دیکھی تو تقریباً 4 ہزار افراد کے اسٹینڈ کے لیے محض 2 ایسے فوڈ اسٹال تھے جہاں پیزا یا برگر فراہم کیے جارہے تھے۔
اب آپ خود ہی اندازہ لگالیں کہ وہاں صورتحال کیا ہوگی۔ میں یہ سوچ کر 8 بج کر 40 منٹ پر باہر گیا کہ آدھے گھنٹے تک تو فارغ ہو ہی جاؤں گا، مگر میری واپسی تقریباً سوا گھنٹے بعد ہوئی اور میچ تاخیر سے شروع ہونے کے باوجود میرے 3 اوور ضائع ہوگئے۔
کیا ہی اچھا ہو کہ لوگوں کو گھروں سے کچھ نہ کچھ کھانے پینے کا سامان لانے کی اجازت دے دی جائے، یا پھر اگر یہ ممکن نہیں ہے تو کم از کم 30 یا 40 فوڈ اسٹال تو ضرور ہونے چاہیے، جن کی موجودگی سے لوگ جلدی فارغ ہوجائیں۔
اس موقع پر یہ ایک واقعہ ضرور لکھنا چاہتا ہوں جو 2 دوستوں کے درمیان پیش آیا۔
میں جب برگر لینے کے لیے لائن میں لگا ہوا تھا تو ایک دوست جس کے پاس غالباً ہزار یا 2 ہزار والا ٹکٹ تھا، کہنے لگا کہ ابھی تو یہاں کھانے میں بھی وقت لگے گا، لگتا ہے میچ کچھ زیادہ ہی ضائع ہوجائے گا۔ اس بات پر اچانک 6 ہزار والے ٹکٹ والے دوست نے کہا کیا مطلب؟ باہر کیوں کھاؤ گے؟ اندر لے جاکر کھالو؟ تو دوسرے نے کہا کہ بھائی، ہمارے پاس آپ کی طرح وی آئی پی اسٹیڈ کا ٹکٹ نہیں ہے۔
یہ اسٹیڈیم انتظامہ کی جانب سے ایک بہت افسوسناک رویہ ہے۔ افسوسناک یوں کہ جب امیروں کو اس بات کی اجازت ہے کہ وہ اپنا کھانا میدان کے اندر لے جاسکتے ہیں تو باقی لوگوں کو کیوں نہیں؟ پیسوں کے فرق سے انسانی حقوق والے معاملے کو کیوں بھلایا جارہا ہے؟ اس روش کو بدلنا ہوگا، اور جتنی جلدی ہم بدل لیں، یہ اتنا ہی اچھا ہے۔
وی آئی پی انکلوژر محض ایک فریب سے کم نہیں
میں کل اسٹیڈیم جاکر اس بات پر مکمل طور پر یکسو ہوگیا کہ یہاں صرف وی آئی پی حضرات کو ہی پروٹوکول یا نام نہاد ’عزت‘ مل سکتی ہے، ورنہ لوگ چاہیں جتنا پیسا خرچ کرلیں، ان کو کچھ نہیں ملے گا۔
اگر ان مہنگے ترین ٹکٹ لینے والے حضرات کو کچھ اور نہیں، مگر عزت اور تمیز کے ساتھ اندر آنے اور کچھ زیادہ نہیں، ایک ایک پانی کی بوتل ہی فراہم کردی جائے تو یہ کوئی کم خدمت نہیں ہوگی۔
درحقیقت اب میں ایک ایسا تجربے کار فرد بن چکا ہوں، جس نے اسٹیڈیم میں موجود سستے ترین انکلوژر میں بھی میچ دیکھ رکھا ہے اور اب سب سے مہنگے انکلوژر میں بھی، اور اس تجربے کی بنیاد پر کہنا چاہتا ہوں کہ ماسوائے کرسی اور سیڑھی کہ، دونوں انکلوژرز میں بال برابر بھی فرق نہیں ہے۔
اس انتہا کی مماثلت کے بعد سمجھ جائیے کہ صورتحال کتنی خراب ہے۔ یہ صورتحال اب بھی بہتر ہوسکتی ہے۔ پی ایس ایل کے بقیہ میچوں میں ان خامیوں کو دُور کیا جاسکتا ہے، جو مہنگا ٹکٹ خرید کر اچھی تفریح چاہتا ہے اس کو اس کا حق ملنا چاہیے۔
دوسرے انکلوژرز والوں کو کسی بھی طور پر یہاں آنے کی اجازت نہیں ملنی چاہیے، یہ بنیادی بات ہے، جسے ناجانے ہم کب سمجھیں گے۔
ٹکٹ کی چیکنگ ایک ضروری عمل
جب ہم 50 روپے کا ٹکٹ لے کر اسٹیڈیم جاتے تھے تو ہماری یہ کوشش ہوتی تھی کہ ہم کسی نہ کسی طرح برابر کے اسٹینڈ میں گھس جائیں، اور وہاں موجود گیٹ کی وجہ سے کبھی کبھار ہم گھس بھی جاتے تھے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ عادت ہر ایک میں ہوتی ہے کہ وہ کم کا ٹکٹ لے کر اچھے والے انکلوژر کے مزے لے، بالکل ٹرین کی طرح۔ لیکن ٹرین کا نظام اس لیے اچھا ہے کہ ہر ایک بندے سے ٹکٹ مانگا جاتا ہے اور جس ڈبے کا ٹکٹ ہوگا، وہ وہیں سفر کرسکتا ہے۔
مگر افسوس یہ کہ نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں اب بھی ایسا کوئی نظام موجود نہیں ہے۔ میں ایک بار پھر یہ کہنا چاہوں گا کہ جن جن لوگوں نے 6 ہزار کا ٹکٹ یہ سوچ کر خریدا تھا کہ وہ ایک اچھے ماحول میں اپنے گھر والوں کو میچ دکھائیں گے، ان میں سے اکثریت کو مایوسی ہوئی ہوگی کیونکہ میچ شروع ہوتے ہی ناجانے کن کن اسٹیڈ سے لوگ اچانک اس وی آئی پی اسٹینڈ میں آگئے۔
خاص طور پر لڑکوں کے گروہوں نے جوق در جوق انٹری دی اور آدھے میچ سے پہلے پہلے وہاں موجود فیملیوں کی بڑی تعداد نکل گئیں۔ یاد رہے کہ پی ایس ایل انتظامیہ نے اپنے ٹکٹس میں بہت ہی واضح طور پر لکھا تھا کہ شائقین کو صرف اسی اسٹینڈ میں بیٹھنے کی اجازت دی جائے گی جہاں کا ان کے پاس ٹکٹ ہو۔ میں انتظامیہ سے گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ اپنے اس اصول پر عملدرآمد کروائے، ورنہ اس شرط کو ہی ختم کردیا جائے۔
اگر میں نے یہ ٹکٹ خریدا ہوتا اور کچھ اس طرح کا ماحول دیکھا ہوتا تو نہ کبھی خود اسٹیڈیم جاتا اور نہ کسی کو مشورہ دیتا، اس لیے جو لوگ اسٹیڈیم کو آباد کرنے کے لیے آرہے ہیں، انہیں عزت دیجیے، کہ اسی طرح یہ میدان مستقل طور پر آباد رہ سکیں گے۔
تبصرے (6) بند ہیں