کورونا وائرس کے پیچھے پینگولین کا کردار؟ یہ خبر اس جانور کے لیے اچھی کیوں؟
اب کورونا وائرس کا پھیلاؤ ایک اتفاق ہے یا کسی حیاتیاتی جنگ کا حصہ؟ دنیا ابھی اس سے بے خبر ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ یہ وائرس دنیا بھر میں ایک دہشت کی علامت بن چکا ہے۔
چین میں اب تک سیکڑوں لوگ اس وائرس کے سبب جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور ہزاروں اس کی زد میں ہیں۔ خوف و دہشت کی اس فضا میں کرہءِ ارض پر موجود ایک نوع ایسی بھی ہے جس پر شاید اس دہشت کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ ہم یہاں ایک چھوٹے سے جانور چیونٹی خور یا پینگولین کی بات کررہے ہیں۔ تازہ خبروں کے مطابق اب چین کے سائنسدانوں نے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا ذمہ دار اسی پینگولین کو قرار دیا ہے۔
چین کے متاثرہ شہر ووہان میں جس پہلے شخص میں اس وائرس کی موجودگی کا انکشاف ہوا تھا اس شخص کا تعلق ایک ایسے علاقے سے تھا جہاں جنگلی جانوروں کی خرید و فروخت کی منڈی واقع ہے۔ لہٰذا سائنسدانوں کی توجہ جانورں پر مرکوز ہوئی۔ پہلے سور اور پھر چمگادڑ کو اس وائرس کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا مگر اب سائنسدان متفق ہیں کہ کورونا نامی وائرس پینگولین سے انسانوں میں منتقل ہوا۔
عالمی سائنسی جریدے ’نیچر‘ کے تازہ شمارے میں شائع رپورٹ کے مطابق چیونٹی خور یا پینگولین میں بھی یہ وائرس پایا جاتا ہے۔ پینگولین کے وائرس کا موازنہ جب کورونا وائرس سے کیا گیا تو دونوں میں 99 فیصد مشابہت پائی گئی۔
دنیا بھر میں پینگولین کی 8 اقسام پائی جاتی ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر سے پینگولین کی 70 سے80 فیصد آبادی غیر قانونی تجارت کے باعث ختم ہوچکی ہے۔ اس کے مساکن ایشیا اور افریقہ کے براعظم ہیں۔ ایشیا میں پایا جانے والا پینگولین انڈین پینگولین کہلاتا ہے۔
یہ بقائے ماحول کی عالمی انجمن آئی یو سی این کی معدومی کے خطرے سے دوچار جانداروں کی فہرست ’ریڈ لسٹ‘ میں شامل ہے اور عالمی معاہدہ برائے جنگلی حیات کی غیر قانونی تجارت کی روک تھام CITES کے شیڈول ون میں شامل ہے جس کے تحت پینگولین کی ہر طرح کی تجارت اور شکار ممنوع ہے۔ پاکستان بھی چونکہ اس معاہدے کی توثیق کرچکا ہے لہٰذا پاکستان میں بھی پینگولین کا شکار اور اس کی تجارت غیر قانونی ہے۔
پاکستان میں پائی جانے والی نوع انڈین پینگولین (Manis crassicaudata) کہلاتی ہے۔ یہ موٹی دُم والا پینگولن، کھپرے والا چیونٹی خور، اور دنیا کا واحد زندہ پائن مخروط (pine cone) بھی کہلاتا ہے، کیونکہ کبھی کبھی دیکھنے میں یہ پائن کے درخت سے لٹکنے والی مخروط (cone) کی طرح نظر آتا ہے۔
پینگولن وہ واحد ممالیہ (اپنے بچوں کو دودھ پلانے والا جانور) ہے جس کے جسم پر کھپرے ہوتے ہیں، جو اسے شکاری اور حملہ آور جانوروں سے بچاتے ہیں۔ یہ کھپرے اس کے پورے جسم پر ہوتے ہیں، جو کیراٹن (keratin) کہلانے والے ایک سخت مادّے سے بنے ہوتے ہیں۔
پاکستان میں پینگولین تقریباً ہر علاقے میں پایا جاتا ہے مگر اس کے مرکزی مساکن پوٹھوہار اور چکوال ہیں۔ اس کے علاوہ بلوچستان، سندھ اور گلگت بلتستان میں بھی نظر آتا ہے۔
بقائے ماحول کی عالمی انجمن آئی یو سی این کے مطابق اگرچہ پینگولین کی آبادی کے حوالے سے کوئی تحقیق موجود نہیں ہے مگر تقسیم سے قبل انگریزوں نے بڑی تعداد میں جنگلات کاٹ دیے تھے تو یہ جانور بلوچستان میں کوہِ سلیمان کی جانب ہجرت کرگیا تھا۔ محتاط اندازے کے مطابق اب سندھ میں پاکستان کی کل آبادی کے بمشکل 5 فیصد ہی پینگولن باقی رہ گئے ہیں۔
غلط فہمی!!
پینگولن کو چیونٹی خور اور چکوال میں مقامی طور پر اسے ’سلہہ‘ کہا جاتا ہے۔ پینگولین ایک شرمیلا اور بے ضرر جانور ہے جو اکثر رات کے وقت ہی اپنے بل سے باہر نکلتا ہے۔ اس کے تیز ناخن اسے زمین کھودنے میں مدد دیتے ہیں۔ چھوٹے کیڑے مکوڑے اور دیمک اس کی خوراک ہیں۔ اس کی زبان لمبی ہوتی ہے جس سے کیڑے مکوڑے چبک جاتے ہیں۔
پینگولین کے حوالے سے عوامی سطح پر ایک غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ یہ جانور قبریں کھود کر مردے کھاتا ہے۔ اس بات میں کوئی صداقت نہیں۔ ہم واضح طور پر بتادیں کہ یہ گوشت خور جانور نہیں ہے۔ اس کی غذا چیونٹی، دیمک اور دیگر چھوٹے کیڑے مکوڑے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ قبرستانوں میں پرانے درختوں کے آس پاس نظر آتا ہے۔ اکثر و بیشتر لوگ اس جانور کو مردہ خور سمجھ کر ماردیتے ہیں۔
پینگولین کو لاحق خطرات
دنیا بھر میں اسلحے اور انسانی تجارت کے بعد تیسرے نمبر پر جنگلی جانوروں کی تجارت آتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق صرف 2000ء سے لے کر 2019 تک 8 لاکھ سے زائد پینگولین عالمی سطح پر اسمگل کیے گئے۔
کہا جاتا ہے کہ پینگولین کی تجارت 1820ء میں شروع ہوئی جب برطانیہ پر جارج سوئم کی حکمرانی تھی۔ انہیں ایک تقریب میں ایک کوٹ اور ہیٹ پیش کیے گئے تھے جو انڈین پینگولین کی کھال کے چھلکوں سے تیار کیا گیا تھا، لیکن خیال یہ ہے کہ یہ تجارت اس سے پہلے بھی جاری تھی۔ اس جانور کے بنیادی مساکن ایشیا اور افریقہ کے ممالک ہیں۔ ایشیائی ممالک میں اس کی اسمگلنگ کا سبب اس کی کھال پر موجود چھلکے یا کھپرے اور اس کا خون ہیں جن کا ادویات میں استعمال عام ہے جبکہ دوسرا سبب اس کا گوشت ہے جسے دنیا بھر میں ایک ’لگژری فوڈ آئٹم‘ سمجھا جاتا ہے۔ دوسری طرف افریقہ کے کچھ ممالک میں ان دونوں وجوہات کے علاوہ اس جانور کا استعمال جادو ٹونے وغیرہ میں بھی کیا جاتا ہے۔ عالمی سطح پر سب سے زیادہ یہی ممالیہ اسمگل کیا جاتا ہے۔
پاکستان میں بھی جنگلی حیات کی خرید و فروخت میں سب سے زیادہ پینگولین کی غیر قانونی تجارت ہوتی ہے اور محتاط اندازوں کے مطابق اس معصوم جانور کی نسل کا 70 سے 80 فیصد خاتمہ ہوچکا ہے۔ اس صورتحال میں اس بات کا خدشہ موجود ہے کہ اگر اس مسئلے کا سدباب نہیں کیا گیا تو یہ جانور پاکستان سے معدوم ہوسکتا ہے۔
قبرستانوں کے قریب تو لوگ اسے مارا ہی کرتے تھے مگر اس بے ضرر جانور پر ایک اور مصیبت تب ٹوٹی جب اس کے گوشت اور کھال پر موجود چھلکوں کی قیمت ڈالرز میں ملنے لگی۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان سے بطور منیجر کنزرویشن وابستہ محمد وسیم کا پینگولین کے تحفظ اور ریسرچ کے حوالے سے طویل تجربہ رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پینگولین کو پہلا خطرہ مقامی لوگوں سے تھا، یہ جانور قبرستانوں کے پرانے درختوں کی جڑوں میں کیڑے مکوڑے یا دیمک اور چیونٹیوں کی تلاش میں رہتا تھا لیکن لوگ اسے مردہ خور سمجھ کر ماردیتے۔ شکاریوں نے لوگوں کی اس غلط فہمی کو اور پختہ کردیا اور کہا کہ اسے ہمیں بیچ دو اور اپنے مردے بچاؤ۔ لوگوں کو تھوڑے بہت پیسے بھی ملنے لگے یوں اس کی نسل کشی میں اضافہ ہوگیا۔ اس کے علاوہ پینگولین سے متعلق لوگوں میں معلومات اور شعور کی کمی بھی تھی۔ کچھ عرصے پہلے تک اکثر وائلڈ لائف اسٹاف کے سامنے بھی یہ خرید و فروخت ہوتی تھی مگر وہ کچھ نہیں کرپاتے کیونکہ انہیں معلوم ہی نہیں تھا کہ یہ کیا بلا ہے۔
وسیم کا کہنا ہے کہ 2009ء میں جب بچھوؤں اور چھپکلیوں کی تجارت بڑھی تو پینگولین کی مانگ اور قیمت میں اضافہ ہوا۔ ان کا کہنا ہے کہ صرف پینگولین ہی نہیں بلکہ ہر قسم کے غیر قانونی کاموں میں زیادہ تر خانہ بدوش ملوث ہیں۔ ان کے شناختی کارڈ پر فرضی پتا درج ہوتا ہے جس پر کبھی کوئی نہیں پکڑا جاتا۔ پابندی کے باوجود سڑکوں پر ریچھوں، بندروں کا یہی تماشا دکھا رہے ہوتے ہیں۔ چھپکلیوں، بچھوؤں اور پینگولین کی اسمگلنگ کے حوالے سے مقامی سطح پر ان کا مضبوط نیٹ ورک ہوتا ہے۔ ہماری ملاقات ایک جاوید نامی مڈل مین سے ہوئی تھی۔
پاکستان بھر سے تمام جانور اسے ہی فروخت کیے جاتے، وہ بہت بااثر شخص تھا۔ اس کا تعلق بھی خانہ بدوش کمیونٹی سے تھا اور جھگی میں ہی رہتا تھا۔ ہم نے ایک بار کراچی میں ایمپریس مارکیٹ کے ایک دکاندار سے پوچھا تھا کہ میانوالی یا چکوال سے یہ جانور یہاں تک اتنی آسانی سے کیسے آجاتا ہے؟ اس دکاندار کا جواب فکر انگیز تھا کہ ان جانوروں کو بسوں کی چھتوں پر بڑے بڑے بکسوں میں لایا جاتا ہے جیسے آرمی وغیرہ کے بکسے ہوتے ہیں۔ جانوروں کے ان بکسوں میں بھی آرمی والوں کی طرح ہی کیپٹن وغیرہ کے نام اور دیگر تفصیلات لکھ دی جاتی ہیں۔ تو ہم ان بکسوں کو بڑے پروٹوکول سے وصول کرتے ہیں۔ اس جواب سے ان مجرموں کی دیدہ دلیری کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
گوشت تو صرف چین میں بکتا ہے مگر اس کی کھال پر جو چھلکے یا کھپرے ہوتے ہیں اس کی طلب پوری دنیا میں ہی پائی جاتی ہے۔
بھنبر آزاد کشمیر وائلڈ لائف کے ایک انسپیکٹر ایک اور لرزہ خیز واقعہ سناتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ایک بار وہ مجرموں کا پیچھا کرتے ہوئے ان کی جھگیوں تک پہنچے۔ وہاں کچھ عجیب سی تڑخ پڑخ سی آوازیں آرہی تھیں جب انہوں نے سختی سے پوچھا تو ان لوگوں نے ایک انتہائی افسوسناک منظر دکھایا۔ یہ بے رحم مجرم کھپروں کے حصول کے لیے زندہ پینگولین کو گرم پانی میں ابال رہے تھے، وہ مررہے تھے اور یہ آوازیں ان کے جسموں سے کھپروں کے الگ ہونے کی تھیں۔
ذرائع کہتے ہیں کہ پاکستان میں ایک پینگولین 20 سے 25 ہزار روپے میں مل جاتا ہے جبکہ چین پہنچ کر یہ 10 لاکھ روپے کا ہوجاتا ہے جبکہ اس کی کھال پر موجود چھلکوں کی قیمت چین کی مارکیٹ میں 4 لاکھ کی مل جاتی ہے۔
کچھ آزاد ذرائع یہ بھی بتاتے ہیں کہ محکمہ وائلڈ لائف کی جانب سے جب بھی کہیں چھاپا مارا جاتا ہے تو قبضے میں لیے گئے کھپروں کی ایک بڑی تعداد راستے ہی میں کہیں غائب ہوجاتی ہے۔
سال 2019ء میں پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے پینگولین کے 3 ٹن کھپرے پکڑے اور اپنی تحویل میں لیے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ غیر قانونی شکاریوں نے ہزاروں پینگولن ہلاک کرکے یہ کھپرے حاصل کیے ہوں گے۔ 3 ٹن کھپروں کا مطلب ہوا تقریباً 6 ہزار پاؤنڈ گوشت، یعنی 3 ہزار کلو گرام۔ اتنا وزن کہ جتنا ایک ایشیائی ہاتھی کا ہوتا ہے!
اور یہ خبر تو ہر اخبار میں شائع ہوچکی ہے کہ سندھ وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ نے پچھلے سال جنوری میں کچھوؤں اور پینگولین کا 2 ہزار کلو گوشت پکڑا تھا جسے اسمگلنگ کی غرض سے ذخیرہ کیا گیا تھا مگر بعدازاں وائلڈ لائف کے دفتر سے یہ قیمتی گوشت چُرا لیا گیا۔
پاکستان میں کراچی، لاہور، آزاد کشمیر میں بھنبر اور میرپور کے علاوہ چکوال، میانوالی اور اٹک اس کی خاص منڈیاں ہیں۔ پاکستان کی بلیک مارکیٹ میں ایسے کوئی بھی اعداد و شمار موجود نہیں ہیں جن سے اندازہ لگایا جاسکے کہ سالانہ بنیادوں پر کتنا گوشت چین اسمگل کیا جاتا ہے۔ اس کالے دھندے کی کڑیاں مقامی افراد سے مڈل مین اور پھر بین الاقوامی اسمگلروں تک پہنچتی ہیں۔
چین کی ایک تنظیم ’چائنا بائیوڈیورسٹی کنزرویشن اینڈ گرین ڈیویلپمنٹ فاؤنڈیشن‘ کے مطابق چین میں ایسی 200 ادویہ ساز کمپنیاں ہیں، جو اپنی مصنوعات میں پینگولین کی جلد کو استعمال کرتی ہیں۔ چین میں قانونی طور پر ہر سال ان کمپنیوں کو 19 ٹن پینگولین (تقریباً 73 ہزار پینگولین) کی جِلد استعمال کرنے کی اجازت ہے۔
اکثر افراد کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان چین معاشی راہداری کے منصوبوں کے تحت خطے میں جب سے چینی عمل دخل بڑھا ہے تب سے پینگولین کی تجارت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
وجہ جو بھی ہو، اگر ہمیں پینگولین کو معدوم ہونے سے بچانا ہے تو قوانین پر سختی سے عمل درآمد کرنا ہوگا۔ بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ آزاد کشمیر اور پوٹھوہار جیسے علاقے جہاں سے پینگولین کا خاتمہ یا کمی ہوئی ہے وہاں درختوں کو تیزی سے دیمک لگ رہی ہے۔ یہ درخت مررہے ہیں اور یہ سچ ہی ہوگا کیونکہ کرہءِ ارض پر حیاتی زنجیر میں ہر کڑی کا ایک مخصوص کام مقرر ہے اور اگر زنجیر سے کڑیاں یونہی ٹوٹتی رہیں تو زنجیر کا کیا حال ہوگا اسے سمجھنے کے لیے کسی سائنس کی ضرورت نہیں۔
حالیہ کورونا وائرس (اگرچہ حتمی نہیں ہے) کا پینگولین سے تعلق نکل آنے پر شاید لوگ خوف زدہ ہوکر اس سے دُور رہیں اور یوں اس معصوم جانور کی نسل کشی کم ہوجائے یا رُک جائے۔
تبصرے (7) بند ہیں