قدامت پسند ملک سعودی عرب میں پروان چڑھتی خفیہ محبتیں
گزشتہ چند سال سے خواتین کو خودمختاری دینے خلیجی ملک سعودی عرب میں اگرچہ اب بھی شادی کے بغیر لڑکوں اور لڑکیوں کا ملنا ممنوع سمجھا جاتا ہے تاہم پھر بھی وہاں نوجوانوں میں خفیہ محبت پروان چڑھ رہی ہے۔
سعودی عرب میں جب سے اخلاقیات پر نظر رکھنے والی مذہبی پولیس کے اختیارات کم کیے گئے ہیں یا انہیں غیر محرم مرد و خواتین کو تنگ نہ کرنے کی ہدایات کی گئی ہیں اس وقت سے وہاں کے نوجوان جوڑے ایک دوسرے سے چوری چھپے ملتے اور محبت کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق اب سعودی عرب کے نوجوان لڑکے اپنی گاڑیوں کے شیشوں سمیت دیگر جگہوں پر اپنے فون نمبر لکھ کر لڑکیوں کو پیغام دیتے ہیں کہ وہ ان کے منتظر ہیں۔
سعودی عرب کی نوجوان لڑکیاں اور لڑکے اب ٹوئٹر، اسنیپ چیٹ اور سوارم جیسی سوشل ایپس کا استعمال کرکے ایک دوسرے سے تعلقات استوار کر رہے ہیں۔
اگرچہ اب بھی نوجوانوں کو مخالف جنس سے رغبت بڑھانے اور ان کے قریب جانے سے روکا جاتا ہے تاہم نئی نسل بھی اپنے ہم عمر افراد سے ملنے کے خفیہ طریقے سیکھ چکی ہے اور کئی جوڑے ایک دوسرے سے ملتے دکھائی دیتے ہیں۔
خفیہ طورپر محبت کو پروان چڑھانے اور اپنی خاتون دوست سے ملاقات کرنے والے ایک نوجوان فلم ساز نے بدلتے ہوئے سعودی معاشرے کے حوالے سے بتایا کہ ماضی میں یہاں ’سرخ گلاب فروخت کرنا‘ بھی جرم مانا جاتا تھا مگر اب حالات بدل رہے ہیں۔
اپنے رشتہ داروں سے خفیہ اپنے بوائے فرینڈ سے ہوٹل میں ملاقات کرنے والی میڈیا پروفیشنل خاتون نے بتایا کہ ماضی میں غیر محرم لڑکے کے ساتھ بیٹھنا تو دور کی بات ہے اس کی جانب دیکھنا بھی ممکن نہیں تھا۔
انہوں نے بتایا کہ اب ایسا وقت آگیا ہے کہ لڑکیاں خود ہی لڑکوں کو کہہ رہی ہوتی ہیں کہ چلو باہر چلتے ہیں۔
شادی سے قبل غیر محرم مرد سے تعلقات استوار کرنا اور اس سے ملاقاتیں کرنا نہ صرف سعودی عرب بلکہ دیگر عرب ممالک سمیت آج بھی کئی مسلم ممالک میں ممنوع سمجھا جاتا ہے تاہم سعودی عرب میں تیزی سے پروان چڑھتی محبتیں کسی نئے زمانے کا پیغام سناتی ہیں۔
خفیہ طور پر محبتوں کو پروان چڑھانے میں اگرچہ سعودی عرب کے نوجوانوں کو کئی طرح کے مسائل کا سامنا ہے تاہم پھر بھی ان کے تعلقات درست سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔
خفیہ طور پر محبت کرنے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے 27 سالہ سمیرا نے بتایا کہ وہ دارالحکومت ریاض میں ایک کارپوریٹ ادارے میں ملازمت کرتی ہیں اور وہ بھی ایک نوجوان سے محبت کرتی ہیں۔
سمیرا کا کہنا تھا کہ ایک بار جب انہوں نے اپنے بوائے فرینڈ کو سالگرہ کا خط لکھا تو وہ خط ان کی والدہ نے پکڑا جس کے بعد ان کے لیے مسائل پیدا ہوگئے تاہم بعد ازاں انہوں نے بوائے فرینڈ سے ملاقاتوں کا نیا حل نکالا اور اب وہ ان سے ملاقات کے لیے چھٹیوں پر دبئی یا دیگر ممالک چلی جاتی ہیں۔
سمیرا واحد لڑکی نہیں ہیں جو اپنے نوجوان مرد دوست سے ملنے کے لیے خفیہ منصوبہ بندی کرتی ہیں بلکہ ان جیسی درجنوں لڑکیاں ہیں جو خفیہ طور پر اپنی محبت کو پروان چڑھا رہی ہیں۔
سمیرا نے شادی سے قبل غیر محرم لڑکے سے تعلقات استوار کرنے کے حوالے سے سعودی عرب کی لڑکیوں میں پائی جانے والی عام پریشانی پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ زیادہ تر لڑکیوں کو یہ پریشانی ہوتی ہے کہ اگر جس لڑکے سے تعلقات ہیں اس کے ساتھ جھگڑا ہوگیا تو وہ بلیک میل کر سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسی پریشانی کی وجہ سے زیادہ تر لڑکیاں شادی سے قبل لڑکوں سے جنسی تعلقات استوار کرنے سے گریز کرتی ہیں کیوں کہ انہیں خدشہ رہتا ہے کہ اگر ان کے درمیان جھگڑا ہوگیا تو لڑکا انہیں بلیک میل کر سکتا ہے۔
سعودی عرب کا شمار بھی ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں پر خواتین کو گھر اور خاندان کی عزت کے طور پر دیکھا اور سمجھا جاتا ہے اور اسی وجہ سے ہی وہاں پر خواتین پر پابندیاں عائد ہوتی ہیں تاہم گزشتہ چند سال سے وہاں اس معاملے میں قدرے بہتری دیکھی گئی ہے۔
سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے وژن 2030 کے تحت گزشتہ چند سال سے سعودی حکومت نے خواتین کو نمایاں آزادیاں دی ہیں۔
اب سعودی عرب کی خواتین کو بیرون ملک کا دورہ کرنے کے لیے جہاں کسی مرد سربراہ کی اجازت کی ضرورت نہیں پڑتی اب وہیں خواتین کو غیر محرم مرد کے ساتھ کام کرنے کی اجازت بھی حاصل ہے۔
سعودی عرب کی حکومت نے خواتین کے لباس اور کام سمیت دیگر معاملات میں بھی نمایاں تبدیلیاں کی ہیں اور اب وہاں کی خواتین فیشن اور شوبز میں بھی قسمت آزماتی دکھائی دیتی ہیں۔
ان ہی آزادیوں کی بدولت سعودی عرب میں چوری چھپے لڑکے اور لڑکیوں کی ملاقاتوں کا سلسلہ بتدریج بڑھ رہا ہے تاہم اب بھی نوجوان ملاقاتوں کے لیے احتیاط سے کام لیتے ہیں۔
خفیہ ملاقاتوں کے دوران غیر محفوظ مقامات کے حوالے سے 25 سالہ نصر نے بتایا کہ گزشتہ سال ان کے ایک دوست نے دارالحکومت ریاض کے ایک ہوٹل میں اپنی گرل فرینڈ کو بوسہ دیا تو ہوٹل انتطامیہ نے ان کی ویڈیو ریکارڈ کرکے اس کے لیے مسئلہ پیدا کردیا۔
نصر کا کہنا تھا کہ ہوٹل انتطامیہ نے ان کے دوست کے عمل کو ’حرام‘ یا ’غیر مذہبی‘ قرار دیتے ہوئے ان کے لیے مسئلہ پیدا کیا اور ایسے واقعات کی وجہ سے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ہوٹلوں میں ملنے کے بجائے دوسرے مقامات تلاش کرتی ہیں۔
تبصرے (2) بند ہیں