• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

دہلی الیکشن: ’جے شری رام‘ کے سیاسی نعرے کو ’جے بجرنگ بلی‘ کا کرارا جواب

شائع February 12, 2020 اپ ڈیٹ February 13, 2020

بھارت کے دارالحکومت دہلی کے ریاستی انتخابات میں تیسری مرتبہ عام آدمی پارٹی (عاپ) کی حکومت قائم ہوگئی۔ مرکز میں حکمران جماعت بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی) ریاستی اسمبلی کی 70 میں سے صرف 8 نشستوں میں ہی کامیابی حاصل کرسکی، جبکہ دہلی میں طویل ترین حکومت کا ریکارڈ رکھنے والی کانگریس اس بار ایک نشست بھی نہیں جیت سکی۔

اگرچہ قومی انتخابات میں بھاری اکثریت حاصل کرنے کے باوجود بی جے پی اس سے قبل بھی 5 دیگر ریاستی انتخابات میں شکست کا منہ دیکھ چکی ہے، لیکن دہلی میں اس کی شکست کو ملنے والی اہمیت کے اسباب مختلف ہیں۔

شہریت قانون میں ترمیم (سی اے اے) کی منظوری کے 2 ہفتوں بعد ہی بی جے پی کو جھاڑکھنڈ کے ریاستی انتخابات میں بُری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا، لیکن بی جے پی نے دہلی کے انتخابات کو اس قانون کی عوامی حمایت کا پیمانہ بنانے کی مہم چلائی۔

اس قانون کے خلاف دہلی کے علاقے شاہین باغ میں جاری طویل دھرنے کے شرکا نے خود کو سیاست سے دُور رکھا ہوا ہے لیکن بی جے پی نے انہیں سیاسی رنگ دینے کی پوری کوشش کی۔ انتخابی مہم میں وزیرِاعظم مودی ہوں، وزیرِ داخلہ امت شاہ، یوپی کے وزیرِاعلی یوگی ادتیہ ناتھ، مرکز میں خزانے کے جونیئر وزیر انوراگ ٹھاکر یا ان کی جماعت کے مقامی رہنما ہوں، ان سبھی نے شاہین باغ کے مظاہرین اور سی اے اے کے مخالفین کو مسلسل نشانے پر رکھا۔

اس کے علاوہ حالیہ دیگر ریاستی انتخابات کے بنسبت دہلی میں بی جے پی نے بہت بڑے پیمانے پر مہم چلائی۔ بی جے پی کی جانب سے ان انتخابات کو اہمیت دینے کے بھی اپنے اسباب تھے۔

2014ء اور 2019ء کے عام انتخابات میں تو بی جے پی نے دہلی میں لوک سبھا کی ساتوں نشستوں پر کامیابی حاصل کی، لیکن اس کے برعکس 2015ء میں ریاستی انتخابات میں عام آدمی پارٹی نے 70 میں سے 67 نشستیں جیت کر سب کو ہی حیران کردیا، اور اب جب 2019ء میں حکمراں جماعت بی جے پی نے دہلی الیکشن میں اپنا پورا زور لگایا تو خیال تھا کہ شاید اس بار نتیجہ مختلف ہو، مگر 2019ء میں بھی عاپ تیسری بار حکومت میں آگئی۔

2014ء کے عام انتخابات میں دہلی میں ڈالے گئے ووٹوں میں سے 46 فیصد بی جے پی کو ملے اور 2019ء میں یہ شرح بڑھ کر 56 فیصد تک پہنچ گئی۔ یہی وجہ تھی کہ 2019ء کے عام انتخابات کے بعد بی جے پی کو یہ اعتماد حاصل ہوا تھا کہ وہ دہلی کے انتخابات میں بھی ہندتوا کے سیاسی ایجنڈے پر ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گی۔

لیکن یہاں صورت حال بھارت کی مرکزی سیاست سے مختلف تھی۔ بی جے پی نے عام انتخابات میں تو کانگریس کے طویل اقتدار، موجودہ قیادت کی نااہلی، رام مندر، کشمیر اور پاکستان کے خلاف نفرت انگیزی سے ووٹ بٹور لیے لیکن دہلی میں اس کا مقابلہ کارکردگی کی بنیاد پر عوامی مقبولیت حاصل کرنے والی ایک جماعت سے تھا۔

انتخابات سے قبل نومبر اور دسمبر میں ہونے والے سروے پولز کے نتائج کے مطابق دہلی کے 86 فیصد عوام نے عاپ سرکار کی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کیا تھا۔ سروے کے انہی نتائج کی وجہ سے بی جے پی کو بھی اپنی روایت سے ہٹ کر عوامی مسائل کو انتخابی مہم کا حصہ بنانا پڑا اور عاپ کی کارکردگی کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ لیکن اس کی اصل حکمت عملی وہی تھی کہ شہریت قانون کے بعد رائے عامہ میں ہونے والی تقسیم کو اپنے حق میں استعمال کیا جائے۔

اس لیے ہندو اکثریت کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے شاہین باغ کو دہلی میں ’پاکستان‘ سے تشبیہ دی گئی اور چونکہ عام آدمی پارٹی بھی اس شہریت قانون کی مخالفت کرتی ہے اس لیے اسے شاہین باغ سے جوڑ کر ملک دشمن کے طور پر پیش کیا گیا۔

دہلی انتخابات کے نتائج کے مطابق بی جے پی کی یہ حکمتِ عملی ناکام تو ہوئی لیکن کیا اس شکست سے بھارت کے مرکزی سیاسی دھارے میں ہندتوا کے سیاسی ایجنڈے کی پسپائی کا سفر شروع ہوگیا؟ کیا دہلی کے ووٹروں نے مودی اور بی جے پی کے مستقبل کا بھی فیصلہ کردیا؟ خطے پر مودی کی پالیسوں کے پڑنے والے ممکنہ اثرات کی وجہ سے یہی وہ سوال ہیں جس نے دہلی کے ریاستی انتخابات کو بھارت کے باہر اس قدر اہم بنادیا تاہم اس سوالات کے جواب اتنا سادہ نہیں۔

بھارت میں ریاستی اور عام انتخابات میں ووٹنگ کا الگ الگ رجحان رہا ہے بلکہ 2014ء میں بی جے پی کی کامیابی اور جارحانہ پالیسیوں کی وجہ سے اس کی کئی نئی مثالیں قائم ہوئی ہیں۔ اسے سمجھنے کے لیے بھارت کے ریاستی ڈھانچے اور سماجی حقائق بالخصوص مختلف ریاستوں میں ذات پات، مذہب اور مقامی سیاسی حقائق سے آگاہی ہونا ضروری ہے۔

مجموعی طور پر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ بھارت میں مرکزی اور صوبائی حکومت کے کردار کے حوالے سے ووٹر کا ذہن قدرے واضح ہے۔ وہ صوبے کی سطح پر اپنے مسائل اور مقامی حالات کی بنیاد پر فیصلہ کرتا ہے لیکن مرکز میں حکومت کا انتخاب کرنے کے لیے اس کے پیمانے کچھ اور ہیں۔

مثلاً دہلی ہی میں انتخابات سے قبل سینٹر فار دی اسٹڈی آف ڈیویلپنگ سوسائٹیز (سی ایس ڈی سی) کے سروے میں 70 فیصد جواب دہندگان نے بی جے پی کے شہریت قانون کی حمایت کی اور جیسا کے پہلے ذکر آچکا کہ 2019ء کے لوک سبھا کے انتخابات میں بی جے پی کو دہلی سے 56 فیصد ووٹ حاصل ہوئے۔ اس لیے دہلی، جھاڑکھنڈ، مہاراشٹریہ یا کسی اور ریاست کے انتخابات میں بی جے پی کی شکست سے اس کے سیاسی مستقبل کے بارے میں کوئی بھی فوری نتیجہ اخذ نہیں کیا جاسکتا۔

لیکن انتخابی نتائج سے ہٹ کر بھارتی سیاست میں بی جے پی کی برتری کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ بی جے پی بھارت کی سیاست کا رُخ متعین کرچکی ہے۔ عوامی حمایت کو برقرار رکھنے کے لیے سیکولر یا ترقی پسند شناخت رکھنے والی جماعتوں کو بھی بی جے پی کی وکٹ ہی پر کھیلنا پڑ رہا ہے۔

عام انتخابات کی طرح دہلی میں بھی اس کی جھلک نظر آئی۔ اس بار اروند کیجریوال نے اپنی انتخابی مہم میں 3 بار دہلی کے معروف ہنومان مندر پر حاضری دی۔ بی جے پی نے اگر ’جے شری رام‘ کو سیاسی نعرہ بنایا تو عاپ کو بھی اس کا جواب ’جے بجرنگ بلی‘ سے دینا پڑا۔ چاہے یہ سیاسی عملیت پسندی کے تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہو، اہم بات یہی ہے کہ بی جے پی نے ان تقاضوں میں ہندو شناخت کے اظہار کو شامل کردیا ہے۔

ریاستی انتخابات میں بی جے پی کی حالیہ ناکامیوں کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ریاستوں کی سطح پر سیاسی اتحاد اور حکمتِ عملی کی مدد سے بی جے پی کو شکست دینا ممکن ہے، جس طرح مہاراشٹریہ میں شیو سینا، شرد پوار کی نیشنل کانگریس اور کانگریس نے اتحاد کرکے بی جے پی کا راستہ روکا۔ حالانکہ ان تینوں جماعتوں کے مابین کوئی نظریاتی اشتراک نہیں تھا بلکہ شیو سینا تو اپنی مذہبی اور قومی شناخت ہی پر ووٹ لیتی ہے۔

یا پھر عاپ کی طرح کارکردگی کی بنیاد پر مضبوط عوامی حمایت سے بی جے پی کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے، لیکن اس سے بھارت کی مرکزی سیاست میں بی جے پی کے مستقبل کا تعین کرنا ممکن نہیں۔

رانا محمد آصف

صاحبِ تحریر گزشتہ ایک دہائی سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ انٹرویو، ترجمہ نگاری کے ساتھ ساتھ عالمی سیاسی و معاشی حالات ان کی دلچسپی کا موضوع ہے۔ ادبی و سماجی موضوعات پر بھی قلم اٹھاتے ہیں

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024