اسلام آباد ہائیکورٹ: 'پرامن' مظاہرین کیخلاف اندراج مقدمہ کا حکم دینے والے مجسٹریٹ طلب
اسلام آباد ہائی کورٹ نے پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے سربراہ منظور پشتین کی گرفتاری پر احتجاج کے دوران 23 کارکنان کے خلاف فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) کے اندراج کا حکم دینے والے مجسٹریٹ سے وضاحت طلب کرلی۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی عدالت عالیہ میں چیف جسٹس اطہر من اللہ کو بتایا گیا کہ اسلام آباد سٹی کے مجسٹریٹ غلام مرتضیٰ نے 23 افراد کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا۔
واضح رہے کہ ان 23 افراد میں پی ٹی ایم کے کارکنان کے ساتھ ساتھ عوامی ورکرز پارٹی (اے ڈبلیو پی) کے لوگ بھی شامل تھے۔
اس پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ 'یہ کیا طریقہ ہے؟ آپ پہلے پرامن مظاہرین پر بغاوت کی دفعات لگائیں اور پھر انہیں دہشت گردی کی دفعات میں تبدیل کردیں؟'
مزید پڑھیں: پشاور: پی ٹی ایم سربراہ منظور پشتین گرفتار، 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل منتقل
تاہم اسی دوران عدالت کو آگاہ کیا گیا کہ مظاہرین کے خلاف درج مقدمے سے دہشت گردی کی دفعات ختم کردی گئی ہیں، جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ 'آج آپ کہہ رہے ہیں کہ دہشت گردی کی دفعات حذف کردی گئی ہیں'۔
ساتھ ہی چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ کیوں نہ ہم ان کے خلاف تحقیقات کا آغاز کریں جنہوں نے مقدمے کے اندراج کا حکم دیا تھا؟ مجسٹریٹ پیش ہوکر وضاحت کریں کہ انہوں نے اس طرح کے احکامات کیوں جاری کیے۔
بعد ازاں عدالت نے مجسٹریٹ کو وضاحتی بیان حلفی کے ساتھ عدالت میں طلب کرلیا۔
عدالت عالیہ کے چیف جسٹس نے کہا کہ کیوں نہ مجسٹریٹ سے جوڈیشل اختیارات واپس لے لیے جائیں؟
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ہم اس کیس کو ہر کسی کے لیے مثال بنائیں گے۔
بعد ازاں مذکورہ معاملے میں عدالت نے اسلام آباد کے چیف کمشنر اور اسلام آباد کے پولیس چیف کو آئندہ سماعت پر طلب کرتے ہوئے مزید کارروائی 17 فروری تک ملتوی کردی۔
یاد رہے کہ گزشتہ سماعت پر اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر اور ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس نے عدالت کو بتایا تھا کہ ایف آئی آر میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 124 اے (بغاوت) کو انسداد دہشت گردی ایکٹ (اے ٹی اے) 1997 کی دفعہ 7 سے تبدیل کردیا گیا۔
اس وقت عدالت عالیہ نے سماعت کے بعد 23 افراد کی ضمانت بعد از گرفتاری منظور کی تھی اور رپورٹ طلب کی تھی کہ بتایا جائے کہ ایف آئی آر میں بغاوت کی دفعات کیوں شامل کی گئیں۔
یاد رہے کہ منظور پشتین کو 27 جنوری کی علی الصبح پشاور کے شاہین ٹاؤن سے گرفتار کیا گیا تھا اور انہیں 14 دن کے جوڈیشل ریمانڈ پر شہر کی سینٹرل جیل بھیج دیا تھا۔
اس گرفتاری کے اگلے روز یعنی 28 جنوری کو اسلام آباد پولیس نے پی ٹی ایم رہنما اور رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ سمیت پی ٹی ایم اور اے ڈبلیو پی کے متعدد کارکنان کو نیشنل پریس کلب کے باہر سے اس وقت گرفتار کیا تھا جب وہ اپنے گروپ کے سربراہ منظور پشتین کی گرفتاری کے خلاف مظاہرہ کر رہے تھے۔
بعد ازاں 30 جنوری کو اسلام آباد کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محمد سہیل نے زیر حراست کارکنوں کو ضمانت دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ بادی النظر میں یہ دہشت گردی کا مقدمہ ہے کیونکہ دوران احتجاج مظاہرین نے حکومت اور فوج مخالف نعرے بازی کی۔
یہ بھی پڑھیں: بغاوت کا الزام: 'آپ کسی کے محب وطن ہونے پر کیسے شک کرسکتے ہیں؟'
تاہم جب معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں آیا تھا تو وہاں ان کارکنان کو ضمانت بعد از گرفتاری مل گئی تھی۔
علاوہ ازیں 8 فروری کو ڈیرہ اسمٰعیل خان کی عدالت نے 2 کیسز میں منظور پشتین کی ضمانت منظور کی تھی جبکہ دیگر 2 کیسز زیر التوا ہیں۔
پشتون تحفظ موومنٹ
واضح رہے کہ پشتون تحفظ موومنٹ ایسا اتحاد ہے جو سابق قبائلی علاقوں سے بارودی سرنگوں کے خاتمے کے مطالبے کے علاوہ ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگیوں اور غیر قانونی گرفتاریوں کے خاتمے پر زور دیتا ہے اور ایسا کرنے والوں کے خلاف ایک سچے اور مفاہمتی فریم ورک کے تحت ان کے محاسبے کا مطالبہ کرتا ہے۔
پی ٹی ایم ملک کے ان قبائلی علاقوں میں فوج کی پالیسیوں کی ناقد ہے، جہاں حالیہ عرصے میں دہشت گردوں کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن کیا گیا تھا۔
تاہم پی ٹی ایم کے رہنما خاص طور پر اس کے قومی اسمبلی کے اراکین بغیر کسی عمل کے انتظامیہ کی جانب سے حراست میں لیے گئے افراد کی رہائی کے لیے فوج کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، تاہم پاک فوج کا کہنا کہ یہ پارٹی ملک دشمن ایجنڈے پر کام کر رہی ہے اور ریاست کے دشمنوں کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ برس پی ٹی ایم کے دو رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ اور علی وزیر کو پولیس نے خرقمر میں مظاہرے کے دوران مبینہ طور پر فوجی اہلکاروں سے تصادم اور تشدد پر گرفتار کیا تھا۔
پی ٹی ایم کی جانب سے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ ملک کے قبائلی علاقوں کے عوام کے لیے ان کی پرامن جدوجہد ہے۔