• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

اوپن اسکائی پالیسی سے ایک سال میں ایک کھرب روپے سے زائد کا نقصان ہوا

شائع February 8, 2020
سینیٹ اجلاس میں وقفہ سوال و جواب کے درمیان وفاقی وزیر ہوابازی غلام سرور خان نے بریفنگ دیتے ہوئے اوپن اسکائی پالیسی کو تنقید کا نشانہ بنایا — فائل فوٹو:اے پی پی
سینیٹ اجلاس میں وقفہ سوال و جواب کے درمیان وفاقی وزیر ہوابازی غلام سرور خان نے بریفنگ دیتے ہوئے اوپن اسکائی پالیسی کو تنقید کا نشانہ بنایا — فائل فوٹو:اے پی پی

اسلام آباد: ایوان بالا (سینیٹ) کو بتایا گیا ہے کہ اوپن اسکائی پالیسی سے قومی خزانے کو ایک سال میں ایک کھرب 7 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وفاقی وزیر برائے ہوا بازی غلام سرور خان نے سینیٹ میں سوال و جواب کے سیشن کے دوران بتایا کہ 'پی آئی اے کے مالی بحران کا آغاز 1990 میں اپنائی گئی اوپن اسکائی پالیسی اور متحدہ عرب امارات اور دیگر خلیجی ریاستوں کو گرانٹس دینے سے ہوا، 2017 میں اوپن اسکائیز، خلیجی ممالک بشمول متحدہ عرب امارات، ترکی اور سری لنکا کے لیے لبرل ٹریفک حقوق دینے کی وجہ سے قومی خزانے کو تقریباً ایک کھرب 7 ارب روپے کا نقصان ہوا'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ان تمام ایئرلائنز کے مسافروں کا حق پاکستانی ایئرلائنز کو تھا جس سے حاصل رقم ملک کی معیشت میں حصہ ڈالتی'۔

انہوں نے کہا کہ 'حکام نے 1992 میں اوپن اسکائیز پالیسی کے تحت بننے والے جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ کراچی کے آغازپر اس پالیسی کو اپنایا تھا۔

وفاق وزیر نے کہا کہ دو ممالک کے درمیان اوپن اسکائی پالیسی کا مقصد صرف تجارتی، باہمی اور نامیاتی (پوائنٹ ٹو پوائنٹ) مارکیٹ کی ترقی پر مبنی ہونا چاہیے جیسا کہ قومی ہوا بازی کی پالیسی 2019 میں کیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: پی آئی اے کی مسافروں کے بغیر 46 پروازیں، قومی خزانے کو کروڑوں روپے کا نقصان

تاہم ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے دبئی، ابوظبی، شارجہ اور راس الخیمہ جیسی شہری ریاستوں سے اوپن اسکائیز نے پاکستان کی ایئر لائنز کی تجارتی عملداری کو نقصان پہنچایا ہے اور قومی خزانے کو بری طرح متاثر کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اوپن اسکائی پالیسی زیادہ تر یا تو ان ممالک کے لیے اختیار کی گئی تھی جو غیر معمولی مقامی ٹریفک رکھتے تھے یا شہری ریاستوں کے لیے جن کے پاس کوئی مقامی نیٹ ورک نہیں تھا جیسے متحدہ عرب امارات، قطر، بحرین اور سنگاپور۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'اپنی ایئر لائنز کو بچانے اور اپنے ممالک کی خوشحالی کے لیے انہوں نے گنجان آباد ممالک سے لبرل حقوق طلب کیے، یہ ممالک پاکستان جیسے ممالک میں متعدد شہروں کے لیے غیر محدود ٹریفک کے حقوق کے خواہاں ہیں جبکہ وہ اپنے علاقے میں صرف ایک پوائنٹ پیش کرتے ہیں جیسے امارات ایئرلائنز کو پاکستان کے 11 شہروں تک چلانے کی اجازت ہے جبکہ پاکستان کی ایئر لائنز صرف دبئی میں ایک مقام پر کام کرسکتی ہے'۔

غلام سرور خان کا کہنا تھا کہ 'متحدہ عرب امارات اور دیگر خلیجی ممالک کی ایئر لائنز نے برطانیہ، یورپ، امریکا اور کینیڈا کے لیے اپنے مراکز کے ذریعے چھٹی آزاد ٹریفک کا سہارا لیا جو دوسری صورت میں پاکستانی ایئر لائنز یا اس ملک کی ایئر لائنز کا حق تھا جہاں مسافر سفر کر رہا تھا، ٹریفک کے حقوق کے لبرل گرانٹ کو اپنانے کے ساتھ دیگر ایئر لائنز نے پی آئی اے کے ٹریفک شیئر پر ڈاکا ڈالنا شروع کردیا'۔

ایک سوال کے جواب دیتے ہوئے انہوں نے دعویٰ کیا کہ 'قومی ایئرلائنز کا خسارہ 2018 میں 32 ارب سے کم ہوکر 2019 میں 11 ارب ہو گیا ہے اور یہ بہتر حکمرانی کے ذریعہ ہی ممکن ہوا ہے'۔

انہوں نے کہا کہ نئے طیاروں کے حصول اور زمینی منصوبوں کو آپریشنل بنانے سے بھی ریونیو میں اضافہ ہوا ہے۔

ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پی آئی اے کو درپیش سخت مالی حالات کے باوجود حکومت اسے خود انحصار کرنے کی خواہاں ہے، 'کارپوریشن کے مختلف ذرائع اور طریقوں سے اپنے نقصانات/خسارے کو کم کرکے مالی حالت کو بہتر بنانے کی کوششیں جاری ہیں، مشکلات کا سامنا کرنے کے باوجود، پی آئی اے سی ایل نقصانات کو کم کرنے کے اپنے ہدف کے تحت اپنی کارکردگی بہتر بنانے میں کامیاب رہی ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: پی آئی اے کے بیڑے میں 2023 تک 12 نئے طیارے شامل ہوں گے، سی ای او

وزیر نے کہا کہ 'پی آئی اے کے نقصانات کی سب سے بڑی وجہ گزشتہ حکومتوں کے وراثت میں ملنے والے قرض اور بڑھتے ہوئے مارک اپس وغیرہ ہیں، مزید یہ کہ ایندھن کی قیمتوں میں نمایاں اضافے اور کرنسی کی قدر میں کمی نے بھی نقصانات میں حصہ ڈالا ہے'۔

انہوں نے کہا کہ نقصانات میں ہونے والی کمی کی وجہ ریونیو میں اضافے اور اخراجات کو کم کرنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'لاگت میں کٹوتی اور سادگی اپنانے کے اقدامات اور غیرضروری انتظامی اخراجات میں کمی، ضائع ہونے کے کاموں میں نظم و ضبط اور احتساب، خسارے میں آنے والے راستوں اور دیگر منصوبوں کو کم کرنے، پی آئی اے کے لیے موزوں آپریشنل سہولیات کی تبدیلی پر توجہ دی جارہی ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'اس کے نتیجے میں، تمام کارکردگی کے اشارے جیسے ریونیو، سیٹ فیکٹر، پیداوار اور ہر دستیاب سیٹ پر آمدنی میں گزشتہ برسوں کے مقابلہ میں زبردست اضافہ ہوا ہے جبکہ آپریٹنگ اور انتظامی اخراجات میں خاطر خواہ کمی ہوئی ہے'۔

بعد ازاں ایوان کا اجلاس پیر 4 بجے تک کے لیے ملتوی کردیا گیا۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024