• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm

برطانیہ: اسپاٹ فکسنگ کے جرم میں ناصر جمشید کو 17 ماہ قید

شائع February 7, 2020 اپ ڈیٹ February 8, 2020
ناصر جمشید کو 2017 میں پی سی بی نے معطل کردیا تھا—فائل/فوٹو:اے ایف پی
ناصر جمشید کو 2017 میں پی سی بی نے معطل کردیا تھا—فائل/فوٹو:اے ایف پی

پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق اوپنر ناصر جمشید اور برطانوی شہریت رکھنے والے دو میچ فکسرز کو بین الاقوامی میچوں میں کھلاڑیوں کو فکسنگ کی طرف راغب کرنے کے جرم میں مجموعی طور پر سوا 7 برس کی قید سنادی گئی۔

برطانیہ کی نیشل کرائم ایجنسی (این سی اے) کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق سابق پاکستانی اوپنر ناصر جمشید اور دو میچ فکسرز یوسف انور اور محمد اعجاز نے تفتیش کے دوران اپنے جرم کا اعتراف کرلیا تھا۔

مانچسٹر کی کراؤن کورٹ نے ناصر جمشید کو ایک سال 5 ماہ (17 ماہ)، یوسف انور کو 3 سال 4 ماہ اور محمد اعجاز کو 2 سال اور 6 ماہ کی قید سنا دی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل: ناصر جمشید پر 10 سال کی پابندی عائد

رپورٹ کے مطابق ‘این سی اے کے تفتیش کاروں نے سراغ لگایا تھا کہ ایک گروپ 2016 میں بنگلہ دیش پریمیئر لیگ (بی پی ایل) کے میچوں کو فکس کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے جس میں ناصر جمشید کو بھی شرکت کرنا تھی’۔

این سی اے کا کہنا تھا کہ ‘یوسف انور اور محمد اعجاز نے ایک ایسا نظام بنایا تھا جس کے ذریعے وہ ایسے کھلاڑیوں تک پہنچ سکتے تھے جو میچ فکسنگ کرنا چاہتے ہیں اور کھلاڑی میچ کے آغاز میں ہی فکسنگ کی تصدیق کا اشارہ کرتے تھے’۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ‘عام طور پر وہ ہر فکس پر 30 ہزار پاؤنڈ کی پیش کش کرتے تھے جس کا آدھا کھلاڑی کو جاتا تھا’۔

عدالت سے سزا پانے والے میچ فکسرز کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ‘تینوں نے مزید منصوبہ بنایا تھا کہ دبئی میں پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے میچز فکسنگ کیے جائیں گے اور اسی سلسلے میں دوسرے کھلاڑیوں سے ملنے کے لیے یوسف انور فروری 2017 میں دبئی چلے گئے’۔

بیان کے مطابق ‘ان کھلاڑیوں میں اسلام آباد یونائیٹڈ کے خالد لطیف اور شرجیل خان بھی شامل تھے جنہوں نے میچ میں کرپشن کے لیے حامی بھری تھی’۔

برطانوی ایجنسی کا کہنا ہے کہ ‘یوسف انور کی دبئی روانگی سے قبل انہیں سینٹ البانز میں ایک ہول سیلر سے 28 مختلف رنگوں کے بیٹ ہینڈل کے گرپ خریدتے ہوئے ایک سی سی ٹی وی فوٹیج میں پکڑا گیا تھا جہاں انہوں نے محمد اعجاز کا نام لیا اور رسید کے لیے اپنا ایڈریس دے دیا’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ 28 مختلف رنگوں کے گرپ ان کھلاڑیوں میں استعمال ہونا تھا جو میچ فکسنگ کے لیے تیار تھے’۔

مزید پڑھیں:اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل: ناصر جمشید نے اپنا جرم قبول کر لیا

تفتیشی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’9 فروری 2017 کو دبئی میں اسلام آباد یونائیٹڈ اور پشاور زلمی کے درمیان میچ تھا اور اس میچ میں بنیادی طور پر خالد لطیف فکس کرنے کے لیے راضی تھے مگر 5 گھنٹے گھنٹوں میں شرجیل خان تھے جو کریز میں طے شدہ اشارے کے ساتھ داخل ہوئے’۔

شرجیل خان کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ‘شرجیل خان نے فکس کرنے کا منصوبہ جاری رکھا اور دوسرے اوور کی پہلی دو گیندوں میں کوئی رن نہیں بنایا تیسری گیند میں صفر پر ایل بی ڈبلیو آؤٹ ہوگئے’۔

این سی اے کے مطابق ‘ناصر جمشید کو 13 فروری 2017 کو برمنگھم میں ان کے گھر سے این سی اے کے افسران نے گرفتار کیا تھا اور یوسف انور کو دبئی سے واپسی پر ہیتھرو ایئرپورٹ جبکہ اعجاز کو دس روز بعد شیفلڈ شیلڈ میں ان کے گھر سے گرفتار کیا گیا تھا‘۔

یاد رہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے اسی دوران ناصر جمشید، خالد لطیف، شرجی خان اور محمد عرفان کو معطل کردیا تھا اور بعد ازاں انہیں سزائیں بھی سنائی تھیں۔

این سی اے کے سینئر تفتیش کار آئن مک کونیل نے اپنے بیان میں کہا کہ ‘ان افراد نے پروفیشنل، بین الاقوامی کرکٹ تک اپنی رسائی کے سہولت کو میچوں میں کرپشن کے لیے استعمال کیا اور اپنے مفاد کے لیے لوگوں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی’۔

پی سی بی کے انسدادِ بدعنوانی ٹریبونل نے اگست 2018 میں اسپاٹ فکسنگ کے معاملے پر ناصر جمشید پر 10 سال کی پابندی عائد کردی تھی۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024