کراچی میں یہودی کا قائم کردہ اسکول آج کس حالت میں ہے؟
تاریخی عمارتوں کے لحاظ سے شہرِ کراچی ممتاز حیثیت رکھتا ہے، لیکن وقت اور حالات کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے کئی پرانی عمارتوں کی جگہ پلازے کھڑے ہوچکے ہیں۔ اب کہیں کہیں ان کے آثار بکھرے پڑے ہیں اور کہیں قدیم عمارتیں کسی بھی وقت معدوم ہونے کو ہیں۔
شہر کی تاریخی عمارتوں میں سے چند ایک بلند عزائم کی امین بھی ہیں اور خوش نصیب بھی۔ خوش نصیب اس لیے کہ یہ عمارتیں نہ صرف آج تک اپنی بنیادوں پر کھڑی ہیں بلکہ جس مقصد کے لیے انہیں بنایا گیا اس مقصد کو انجام بھی دے رہی ہیں، انہی میں سے ایک گورنمنٹ ابراہم روبن پرائمری و سیکنڈری اسکول کی 90 سالہ پرانی عمارت بھی ہے۔
پچھلی صدی میں تعلیم اس شہر کا ایک اہم مسئلہ شمار ہوتا تھا لہٰذا پرانے وقتوں میں کراچی کے نقشے پر وجود میں آنے والے اس اسکول کی تاریخ کریدنا کسی دلچسپ امر سے کم نہیں ہوگا۔
سندھ کا سب سے پہلا سرکاری اسکول نارائن جگن ناتھ ودیا یعنی مشہور زمانہ این جے وی اسکول تھا۔ نارائن جگن ناتھ سندھ کے پہلے ڈپٹی تعلیمی انسپیکٹر تھے۔ نجی شعبے کی بات کی جائے تو کراچی گرامر اسکول شہر کا پہلا نجی اسکول تھا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ان دونوں اسکولوں کے قیام میں 8 برسوں کا فرق ہے۔
این جے وی کا سنِ تعمیر 1855ء ہے جبکہ پاکستان کے قیام سے ٹھیک ایک صدی پہلے کراچی گرامر میں تعلیمی سرگرمیوں کا آغاز ہوا۔ کراچی گرامر غیر منقسم ہندوستان کا دوسرا قدیم ترین اسکول ہے جسے بنیادی طور پر انگریزوں اور اینگلو انڈین طبقے کے بچوں کے لیے قائم کیا گیا تھا جبکہ این جے وی کے قیام کا مقصد مقامی عام آبادی کو تعلیم کی فراہمی تھا۔
حیرت کی بات یہ کہ 1876ء میں جب اے ڈبلیو ہیوگز نے سندھ گزیٹئر کا دوسرا شمارہ مرتب کیا تھا اس وقت کراچی سندھ کا ایک تعلقہ تھا۔
گزیٹئر میں ہیوز نے سندھ اور خاص کر شہر کراچی سے جڑی معلومات کو یکجا کیا ہے۔ پانی، ٹیلی گرام اور سڑکوں کی سہولیات، ہسپتالوں، چرچوں، کلبز اور انگریز بہادروں کی تعمیر کردہ درسگاہوں، وہاں زیرِ تعلیم طلبہ و طالبات کی تعداد سے لے کر نصاب میں شامل مضامین کی تفصیلات بھی بتائی گئی ہیں البتہ ہندو، محمدن، مراٹھی، گجراتی اور سندھی ورنیکولر اسکولوں کے بارے میں بنیادی باتوں کو چھوڑ کر سندھ کے بقیہ مقامی تعلیمی اداروں کے حوالے سے مفصل جائزہ پڑھنے کو نہیں ملتا۔
19ویں صدی کی ابتدا میں بندرگاہ سے جڑی شہری آبادی لیاری اور منوڑہ سے بندر روڈ اور گارڈن تک پھیل چکی تھی۔ آج کی طرح اس وقت بھی مضافاتی آبادیاں ہوا کرتی تھیں، اور انہی میں سے ایک لسبیلہ سے قریب حاجی مرید گوٹھ ہے۔
حاجی مرید گوٹھ فردوس کالونی اور لیاقت آباد کے درمیان واقع ہے۔ یہاں کراچی کا ایک قدیم اور تاریخی اسکول بھی قائم ہے، جہاں گزشتہ 90 سال سے اس قدیم بستی کے بچوں کو تعلیم فراہم کی جارہی ہے۔ اس اسکول کا نام اس کے بانی کے نام پر گورنمنٹ ابراہم روبن پرائمری وسیکنڈری اسکول رکھا گیا ہے۔
آخر یہ ابراہم روبن تھے کون؟
یہاں ہم، کراچی کی یہودی برادری سے تعلق رکھنے والے ’ابراہم روبن' کو اس لیے یاد کرنے پر مجبور ہیں کہ انہوں نے کراچی میں مقیم اپنی برادری سمیت دیگر عام لوگوں کی تعلیمی سہولیات کی فراہمی کے لیے عملی اقدام اٹھایا۔ ابراہم، کراچی میونسپل کارپوریشن میں 1923ء تا 1919ء بطور کونسلر منتخب ہوئے۔ 30ء کی دہائی میں خود ابراہم روبن اور 60ء کی دہائی میں ان کے صاحبزادے کراچی یہودی ایسوسی ایشن کے صدر رہے۔
گل حسن کلمتی اپنے تحقیقی مقالے بعنوان ’کراچی کے یہودی‘ میں ابراہم روبن کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’18 مارچ 1911ء کو راجہ صاحب محمود آباد کی زیرِ قیادت علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے طلبہ کا ایک وفد کراچی آیا۔ ان کے استقبال کے لیے کراچی کنٹونمنٹ اسٹیشن پر جہاں علاقے کے اکابرین جمع تھے وہیں عام لوگوں کا ایک جمِ غفیر بھی اکٹھا تھا۔ لوگوں نے ان کی بگھی کو اپنے کندھوں پر اٹھا رکھا تھا۔
جب یہ وفد لارنس روڈ پر یہودی عبادت گاہ کے قریب پہنچا تو راجا صاحب محمود آباد کی بگھی پر ابراہم روبن کی قیادت میں اتنے پھول نچھاور کیے گئے کہ گاڑی پھولوں سے ڈھک گئی، اس وقت ابراہم میونسپل کارپوریشن میں سرویئر کی حیثیت سے کام کر رہے تھے۔
ان کا ایک اور حوالہ کتاب ’میرے زمانے کی کراچی‘ میں بھی ملتا ہے۔ مصنف اقبال حسین لکھتے ہیں کہ تقسیم سے قبل لیاری کے مشہور داخلی دروازے چیل چوک کا نام ’ابراہم روبن‘ چوک تھا۔ پرانے سرکاری کاغذات میں بھی یہی نام ملتا ہے۔ 60ء سے 70ء کی دہائی کے دوران غیر مسلم ناموں کی تبدیلی کا سلسلہ چلا تھا، اور اس چوک پر اقبال کے شاہین نے بسیرہ کیا سو یہ شاہین چوک کہلایا۔ تاہم شاہین کو لیاری کی مقامی آبادی نے چیل سے تشبیہہ دیتے ہوئے مشہور چیل چوک بنا دیا۔
ابراہم روبن نے جہاں کراچی کے یہودیوں کے لیے یہودی عبادت گاہ کے احاطے میں عبرانی زبان کا اسکول کھولا، وہیں 1927ء میں کراچی کے اس وقت کے مضافاتی علاقے حاجی مرید گوٹھ میں 4 کمروں پر مشتمل ایک سندھی اسکول کی بنیاد بھی رکھی۔ 3 سال میں اسکول کی عمارت تیار ہوئی اور تعلیم کا سلسلہ چل نکلا جو آج تک جاری ہے۔
اسکول کے ابتدائی رجسٹر کے مطابق اس اسکول کا پہلا داخلہ مئی 1930ء میں دیا گیا تھا۔ اس وقت اسکول کے احاطے میں 2 شفٹوں میں طلبہ و طالبات کے لیے 3 اسکول چل رہے ہیں۔ یہ اسکول آج بھی فردوس کالونی کا واحد سرکاری اسکول ہے۔
اس اسکول کا سراغ ہمیں کراچی کے یہودیوں کی کھوج لگانے پر ملا تھا۔ ابتدائی طور پر ہمارا خیال تھا کہ مرید بکک نامی گوٹھ ملیر کے آس پاس واقع ہوگا۔ یہ اندازہ اس لیے لگایا گیا کیونکہ شہر کے اسی حصے میں چند گوٹھ موجود ہیں۔ لیکن بھلا ہو گوگل بھائی کے نقشے کا جس نے یہ جگہ فردوس کالونی کے قریب لیاقت آباد ٹاؤن میں بتائی۔
نقشے میں نظر آنے والی جگہ کے بارے میں آس پاس کے کئی لوگوں سے پوچھا اور تعلیمی رپورٹرز سے بات کی لیکن درست جگہ تک نہ پہنچ سکے۔ کوئی بھی اس نام کے اسکول سے واقف نہیں تھا۔
خوش قسمتی سے ہماری والدہ بھی شعبہ تعلیم سے وابستہ رہی ہیں، جب ان سے اس اسکول کا تذکرہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ ہاں فردوس کالونی میں ایک گورنمنٹ عرف پیلا اسکول واقع ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کبھی میرے والد بھی وہاں پڑھاتے تھے۔ اس کے بعد ہم نے اسکول ڈائریکٹر سے بات کی، جس کے بعد ہمیں اسکول پرنسپل تک رسائی حاصل ہوسکی۔
اسکول میں ہماری ملاقات ابراہم روبن اسکول کے سابق طالب علم اور سندھی کے سابق استاد محمد رفع بکک سے ہوئی۔ محمد رفیع آج بھی محکمہ تعلیم سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ صرف انہوں نے نہیں بلکہ ان کی والدہ نے بھی اسی اسکول میں دوسری جماعت تک تعلیم حاصل کی تھی۔ چونکہ علاقے میں یہی واحد سرکاری اسکول ہے، اس لیے آس پاس کے بچے یہیں آتے ہیں۔ اس وقت اسکول میں طلبہ و طالبات کی تعداد 500 سے زائد ہے۔
اسکول ریکارڈ کے مطابق یہاں 1930ء میں لڑکوں جبکہ 1943ء میں لڑکیوں کے داخلے کا آغاز کیا گیا تھا۔ پرائمری اسکول کی پرنسپل نسیم جاوید خواجہ صاحبہ نے بتایا کہ ابتدائی طور پر اس اسکول میں چوتھی جماعت تک تعلیم فراہم کی جاتی تھی اور مزید تعلیم کے لیے بچوں کو سندھ مدرسہ بھیجا جاتا تھا۔
اس پرانے اسکول کے ابتدائی داخلہ رجسٹر ابھی تک درست حالت میں ہیں۔ انگریزی، گجراتی اور سندھی زبان میں پرنٹ شدہ رجسٹر میں طلبہ و طالبات کی تفصیلات سندھی زبان میں درج ہیں۔ رجسٹر سے پتا چلتا ہے کہ اس اسکول کا پہلا طالب علم 7 سالہ پنہوں ولد قادر خان تھا، جس کا تعلق نور پارڑ گوٹھ سے تھا۔
اسکول ریکارڈ کے مطابق 1943ء میں ابتدائی داخلہ لینے والی طالبات میں 6 سالہ سودی ولد ہاشم اور 2 بہنیں 9 سالہ کنیز اور 5 سالہ فاطمہ ولد موسیٰ شامل تھیں۔ یہاں پر کچھ بچے گارڈن اور ملیر سے بھی آئے تھے اور کچھ کھاٹیاواڑ، کَچھ اور گجرات واپس چلے گئے۔ اچھی بات یہ ہے کہ 4 کمروں پر مشتمل اسکول کی پہلی عمارت آج تک جوں کی توں کھڑی ہے، اور یہاں آج بھی تعلیم فراہم کی جا رہی ہے۔
90 سالہ اس اسکول کو دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ لوگ چلے جاتے ہیں لیکن ان کے کیے ہوئے کام ان کی پہچان بن جاتے ہیں۔ اگر یہ اسکول نہ ہوتا تو ہم برسوں بعد ایک کراچی کے پرانے باسی کو کیونکر یاد کرتے؟
ابراہم روبن کا قائم کردہ اسکول آج بھی سیکڑوں بچوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کر رہا ہے۔
تبصرے (6) بند ہیں