جوانی میں بلڈ پریشر ریڈنگز کس خطرے کی گھنٹی بن سکتی ہے؟
بلڈ پریشر کو خاموش قاتل قرار دیا جاتا ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں درمیانی عمر میں دل کی شریانوں سے جڑے امراض جیسے ہارٹ اٹیک یا فالج کا خطرہ بڑھتا ہے۔
اور اب دریافت کیا گیا ہے کہ نوجوانوں میں بلڈ پریشر میں اضافہ درمیانی عمر میں جان لیوا امراض کا خطرہ بڑھاتا ہے۔
یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔
ڈیوک یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ نوجوانی میں اگر بلڈ پریشر ریڈنگ اوسط ہو تو ضروری ہے کہ ان افراد میں فشار خون کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔
کچھ تحقیقی رپورٹس میں یہ بات آچکی ہے کہ ہر بار معائنہ کرنے پر بلڈ پریشر ریڈنگ کے اعداد و شمار میں تبدیلی اور خون کی شریانوں سے جڑے امراض کے خطرے میں تعلق موجود ہے خصوصاً 50 سال سے زائد عمر کے افراد میں۔
مگر اس نئی تحقیق میں یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ اگر جوانی میں بلڈ پریشر کی ریڈنگز میں تبدیلیاں آنا بھی درمیانی عمر میں اس خطرے کو تو نہیں بڑھاتا۔
اس مقصد کے لیے محققین نے 3 ہزار سے زائد افراد کے ڈیٹا کا جائزہ لیا اور ان کی بلڈ پریشر ریڈنگز کا تجزیہ کیا گیا۔
جریدے جاما کارڈیالوجی میں شائع تحقیق میں محققین نے اوسط بلڈ پریشر ریڈنگز کا تجزیہ کیا۔
جن افراد کا ڈیٹا شامل کیا گیا تھا وہ 1985 سے 2015 کا تھا اور ان افراد کا دوبارہ معائنہ، 2، 5، 7، 10، 15، 25 اور 30 سال بعد معائنہ کیا گیا۔
محققین نے بلڈ پریشر کے اوپری نمبروں پر زیادہ توجہ دی اور محققین نے دریافت کیا کہ 10 سال کے دوران جن نوجوانوں کی بلڈ پریشر ریڈنگز میں تبدیلی آئی ان میں مستقبل میں خون کی شریانوں سے جڑے امراض کا خطرہ بڑھ گیا۔
تحقیق کے دوران 181 افراد ہلاک اور 162 مں خون کی شریانوں سے جڑے امراض جیسے امراض قلب، ہارٹ فیلیئر، فالج اور دیگر سامنے آئے اور محققین کا کہنا تھا کہ نوجوانی میں بلڈپریشر میں ہر 3.6 ایم ایم ایچ جی اضافہ اگلے 20 برسوں میں خون کی شریانوں سے جڑے امراض کا خطرہ 15 فیصد تک بڑھا دیتا ہے۔
محققین کا کہنا تھا کہ اگر کسی فرد کی ریڈنگ دسمبر میں مختلف اور جنوری میں کچھ زیادہ ہو، تو یہ فرق بعد کی زندگی میں صحت کے مسائل سے جڑا ہوسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جوانی میں اگر بلڈپریشر کے نمبروں میں بار بار تبدیلی نظر آئے تو ضروری ہے کہ وہ فرد طرز زندگی میں ایسی تبدیلیاں لائے جو بعد میں فشار خون کا شکار ہونے سے بچاسکیں۔