• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:07pm
  • LHR: Maghrib 5:10pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:12pm Isha 6:37pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:07pm
  • LHR: Maghrib 5:10pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:12pm Isha 6:37pm

اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں اضافے کا بل سینیٹ میں مسترد

شائع February 3, 2020 اپ ڈیٹ February 4, 2020
حکومتی اراکین نے بل کی مخالفت کی—فائل/فوٹو:اے پی پی
حکومتی اراکین نے بل کی مخالفت کی—فائل/فوٹو:اے پی پی

سینیٹ میں حکومتی اور اپوزیشن سمیت متعدد آزاد اراکین کی جانب سے اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں اضافے کا بل کثرت رائے سے مسترد کردیا گیا۔

چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی زیر صدارت اجلاس شروع ہوا تو سینیٹر نصیب اللہ بازئی، سجاد حسین طوری، یعقوب ناصر، دلاور خان، اشوک کمار اور شمیم آفریدی نے چیئرمین سینیٹ و اسپیکر قومی اسمبلی، ڈپٹی چیئرمین سینیٹ و ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی اور اراکین کی تنخواہوں میں اضافے کے بل ایوان میں پیش کیے۔

سینیٹر نصیب اللہ بازئی کا کہنا تھا کہ تمام اداروں کے سربراہان کی تنخواہ 7 لاکھ روپے سے زائد ہے لہٰذا چیئرمین سینیٹ اور اسپیکر قومی اسمبلی کی تنخواہوں میں بھی اضافہ کیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں:شدید تنقید کے باعث پی ٹی آئی کا تنخواہوں میں اضافے کا بل واپس لینے کا عندیہ

اس موقع پر حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے بل کی مخالفت کی اور سینیٹر اعظم سواتی نے کہا کہ تنخواہوں سے متعلق ریسرچ کی تھی تو معلوم ہوا کہ محتسب اعلیٰ کی تنخواہ 13 سے 14 لاکھ اور سیکریٹری کی تنخواہ ساڑھے تین لاکھ ہے۔

وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور اعظم سواتی کا کہنا تھا کہ مشکل معاشی صورت حال کے باوجود تنخواہیں کم نہیں ہوئیں، یہ ظلم کا نظام ہے اس پر بحث ہونی چاہیے اور ایسے بلز پہلے قومی اسمبلی میں پیش ہونے چاہیئں۔

انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 73 اور 74 کے مطابق مالیاتی بل پہلے قومی اسمبلی میں آنے چاہیئں۔

سینیٹر فیصل جاوید نے کہا کہ اس بل کی ٹائمنگ درست نہیں، ملک اس وقت معاشی مسائل کا شکار ہے، وزیر اعظم نے کفایت شعاری کا آغاز اپنی ذات سے کر لیا ہے اور اراکین پارلیمنٹ ابھی گزارہ کریں۔

وزیراعظم کی تنخواہ میں اضافے کی افواہوں پر وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جب معاشی حالات ٹھیک ہوں گے تو تنخواہیں بڑھائیں گے، وزیر اعظم نے اپنی تنخواہ میں اضافہ نہیں کیا بلکہ وزیر اعظم نے اپنے خرچے سے بنی گالہ کی سڑک ٹھیک کروائی۔

فیصل جاوید کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نے ماضی کے حکمرانوں کی طرح عیاشی نہیں کی، اسی دوران اپوزیشن اراکین کی جانب سے شور بھی کیا گیا۔

اس موقع پر پشتونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے میپ) کے سینیٹر عثمان کاکڑ نے تنخواہوں میں اضافے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ایوان میں موجود اکثر اراکین تنخواہوں میں اضافہ چاہتے ہیں، چند لوگ تنخواہوں میں اضافہ چاہتے ہیں لیکن سیاست کر رہے ہیں۔

مزید پڑھیں:مہنگائی کے اثرات: اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہ، مراعات میں اضافے کا بل تیار

عثمان کاکڑ نے کہا کہ کوشش ہو رہی ہے کہ ارکان رشوت لیں، اراکین پارلیمنٹ گریڈ 17 کے افسران سے کم تنخواہ لے رہے ہیں اور بعض لوگ سیاست کے علاوہ کوئی اور کام نہیں کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ چند سیاستدان ارب پتی اور کھرب پتی ہیں، اعظم سواتی جیسے لوگ پوری پارلیمنٹ کو پال سکتے ہیں جبکہ 50 لاکھ اور 60 لاکھ تنخواہ لینے والے اینکرز بھی ہم پر تنقید کر رہے ہیں۔

سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما راجا ظفرالحق نے اپنی پارٹی کی جانب سے اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں اضافے کے بل کی مخالفت کی۔

ان کا کہنا تھا کہ ملکی معاشی صورت حال بہتر ہونے تک اضافے کی حمایت نہیں کریں گے، لوگ مہنگائی کی وجہ سے بددعائیں دے رہے ہیں۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر مشاہداللہ خان نے کہا کہ لوئر مڈل کلاس خاندان کھانا نہیں کھا پا رہے، زندگی کے نرخ اتنے بڑھ گئے ہیں کہ موت کا سودا سستا لگا۔

مشاہد اللہ خان کا کہنا تھا کہ تنخواہوں سے متعلق فرق کی پالیسی تبدیل ہونی چاہیے، چھوٹے درجے کے ملازمین کی تنخواہیں بڑھائی جائیں اور آئندہ بجٹ میں مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے اقدامات کیے جائیں۔

انہوں نے تجویز دی کہ ایسی قانون سازی کی جائے کہ نجی شعبے کے ملازمین کو تنخواہیں دی جائیں اور میڈیا مالکان سے پوچھنا چاہیے کہ 30 ہزار روپے والے کیمرہ مین کو تنخواہ نہیں دیتے لیکن 50 لاکھ روپے والے اینکروں کو تنخواہ دے دیتے ہیں۔

سینیٹ میں بحث کے بعد بل کو کثرت رائے سے مسترد کردیا گیا، بل کے حق میں 16 اور مخالفت میں 29 ووٹ دیے گئے۔

حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی)، پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور جماعت اسلامی نے تینوں بل کی مخالفت کی۔

تنخواہ میں اضافے کے بل کی حمایت کرنے والی جماعتوں میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان، بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی)، پشتونخوا ملکی عوامی پارٹی (پی کے میپ)، جمعیت علمائے اسلام (ف)، نیشنل پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) شامل تھیں۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیف وہپ سجاد حسین طوری نے کہا تھا کہ اگر بل پر اتفاق رائے قائم نہیں ہوا تو واپس لے لیا جائے گا۔

ڈان نیوز سے بات کرتے ہوئے سجاد حسین طوری نے کہا تھا کہ کچھ لوگ نمبر گیم کی وجہ سے بل کی مخالفت کررہے ہیں۔

انہوں نے کہا تھا کہ تنخواہوں میں اضافے کی ضرورت ہے اور دعویٰ کیا کہ 104 اراکین میں سے 85 فیصد نے بل کی حمایت کی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:'وزیراعظم کی تنخواہ میں اضافے سے متعلق من گھڑت خبریں پھیلائی گئیں'

سجاد حسین طوری نے مزید کہا تھا کہ وہ بل سے متعلق مختلف سیاسی جماعتوں سے مشاورت کریں گے اور اگر اتفاق رائے نہ ہوسکا تو بل واپس لے لیں گے۔

دوسری جانب وفاقی وزیر اسد عمر اور پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) سینیٹر شیری رحمٰن نے بھی بل کی مخالفت کی تھی۔

اسد عمر نے اپنے ٹویٹ میں کہا تھا کہ 'امید ہے کہ میڈیا میں پارلیمنٹ کے ارکان کی تنخواہ بڑھانے سے متعلق سینیٹ کی قرارداد کی خبریں درست نہیں،ان حالات میں بالکل بھی مناسب نہیں کہ عوامی نمائندے اپنی مراعات میں اضافہ کریں'۔

شیری رحمٰن کا کہنا تھا کہ 'اس وقت پاکستانی عوام کو معاشی بحران کا سامنا ہے اور ایسے موقع پر دیگر افراد سے تنخواہوں کی برابری نہیں کی جاسکتی، سرکاری پیسے کو اس وقت عوام پر خرچ کرنا چاہیے'۔

سینیٹ کے ایجنڈے میں شامل سیلریز، الاونسز اینڈ پرویلیجز ترمیمی بل 2020 کی نقول کے مطابق اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کی تنخواہ 2 لاکھ 25 ہزار سے بڑھا کر سپریم کورٹ کے جج کی بنیادی تنخواہ 8 لاکھ 79 ہزار روپے کے برابر مقرر کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

ڈپٹی چیئرمین سینیٹ اور ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کی تنخواہ 1 لاکھ 85 ہزار سے بڑھا کر اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج کی بنیادی تنخواہ 8 لاکھ 29 ہزار روپے کے برابر کرنے کی تجویز ہے۔

سینیٹرز نے اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہوں اور مراعات ایکٹ میں ترمیم کرکے اراکین کی تنخواہ 1 لاکھ 50 ہزار روپے سے بڑھا کر 3 لاکھ روپے مقرر کرنے کی تجویز شامل کی ہے۔

مجوزہ بل میں کہا گیا ہے کہ اراکین پارلیمنٹ کو سفر کے لیے ٹرین کی ایئر کنڈنشنڈ کلاس ٹکٹ کے برابر رقم دی جائے اور جہاز کے بزنس کلاس کے ٹکٹ کے مطابق سفری الاؤنس دیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں:'وزیراعظم کی تنخواہ میں اضافے سے متعلق من گھڑت خبریں پھیلائی گئیں'

سینیٹرز نے تجویز پیش کی ہے کہ بذریعہ سڑک سفر کی صورت میں اراکین پارلیمنٹ کو 25 روپے فی کلومیٹر سفری الاؤنس دیا جائے اور بیرون ملک دوروں میں فرسٹ کلاس ایئر ٹکٹ بھی دیا جائے۔

بل میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ اراکین پارلیمنٹ کو 25 فرسٹ کلاس بزنس ایئر ٹکٹ فراہم کیے جائیں، اندرون ملک سفر کے لیے اراکین پارلیمنٹ کی اہلیہ، شوہر یا بچے بھی ان ٹکٹوں کو استعمال کر سکیں گے۔

بل کے اغراض و مقاصد میں سینیٹرز نے موقف اپنایا ہے کہ چیئرمین، ڈپٹی چیئرمین سینیٹ، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی اور دیگر اراکین پارلیمنٹ کو ملنے والے تنخواہ ان کے روزانہ کے اخراجات برداشت کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔

سینیٹرز کا بل میں کہنا ہے کہ ملک میں ہونے والی حالیہ مہنگائی اور روپے کی قدر میں کمی نے عام شہریوں کی طرح چیئرمین سینیٹ اور اسپیکر قومی اسمبلی کو بھی متاثر کیا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024