• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

مسلم لیگ (ق) نے تحریک انصاف کی نئی ٹیم کے ساتھ مذاکرات سے انکار کردیا

شائع February 3, 2020
مسلم لیگ (ق) کا تحریک انصاف کے وفد سے مذاکرات — فوٹو: ڈان
مسلم لیگ (ق) کا تحریک انصاف کے وفد سے مذاکرات — فوٹو: ڈان

لاہور: مسلم لیگ (ق) کے صدر چوہدری شجاعت حسین نے وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے ناراض اتحادی جماعتوں کو منانے کے لیے قائم کردہ نئی کمیٹی سے مذاکرات سے انکار کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پنجاب کے گورنر چوہدری سرور نے امید ظاہر کی ہے کہ مسلم لیگ (ق) اتحادی جماعت ہی رہے گی اور پاکستان تحریک انصاف بلدیاتی انتخابات کے ساتھ آئندہ عام انتخابات میں بھی مسلم لیگ (ق) کے ساتھ حصہ لے گی۔

حکمراں جماعت تحریک انصاف اور اتحادی جماعتوں کے درمیان تنازعات میں اضافہ اس وقت ہوا جب وزیر اعظم عمران خان نے جہانگیر ترین کو مسلم لیگ (ق) اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) سے چند پی ٹی آئی رہنما کی شکایات پر مذاکرات سے روکا تھا۔

پی ٹی آئی رہنماؤں نے وزیر اعظم سے شکایت کی تھی کہ جہانگیر ترین حکومت سے زیادہ اتحادی جماعتوں کے مفادات کا تحفظ کر رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: چیئرمین سینیٹ کی ایم کیو ایم کے مرکز آمد، 'چاہتے ہیں خالد مقبول کابینہ کا حصہ بنیں'

تحریک انصاف کے ذرائع کا کہنا تھا کہ 'پہلی مرتبہ عمران خان نے جہانگیر ترین کے خلاف کسی بھی مسئلے پر شکایت کو سنا ہے اور اپنے قریبی دوست کا نظریہ سنے بغیر ان کے خلاف فیصلہ سنایا ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'وزیر اعظم عمران خان کو پنجاب کے چند پارٹی رہنماؤں نے کہا تھا کہ جہانگیر ترین نے مسلم لیگ (ق) کے زیادہ تر مطالبات کو تسلیم کرلیا ہے اور وزیر اعلیٰ کی طرح ہدایات جاری کی ہیں کہ ان پر عمل در آمد کیا جائے، تحریک انصاف کے کیمپ میں موجود چوہدری برادران کے مخالفین نے وزیر اعظم کو اس بات پر آمادہ کرلیا کہ 'اتنی رحم دلی' دکھانا اور مسلم لیگ (ق) کے مطالبات کے آگے گھٹنے ٹیکنا پارٹی کے مفاد میں نہیں ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'پارٹی رہنماؤں نے وزیر اعظم سے کہا تھا کہ چوہدری برادران سمجھدار سیاست دان ہیں، تحریک انصاف کو ان سے نمٹنے میں بھی سمجھداری سے کام لینا چاہیے'۔

تحریک انصاف کے رہنما کا کہنا تھا کہ عمران خان کو اتحادیوں پر 'اپنے عدم اعتماد' کی صورتحال کے حوالے سے با آسانی قائل کرلیا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اسی طرح جہانگیر ترین کی جانب سے ایم کیو ایم کو 'زیادہ' پیش کرنے کے طرز عمل کو بھی چند پی ٹی آئی رہنماؤں نے پسند نہیں کیا تھا جس کے بعد عمران خان نے جہانگیر ترین کی سربراہی میں پینل کو تحلیل کرتے ہوئے اتحادی جماعتوں سے مذاکرات کے لیے نئی کمیٹیاں تشکیل دی تھیں۔

خیال رہے کہ جہانگیر ترین اس وقت لندن میں ہیں اور ان سے رائے کے لیے رابطہ نہیں ہوسکا۔

واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے وزیر اعظم عمران خان نے جہانگیر ترین کی قیادت میں بشمول وزیر دفاع پرویز خٹک کمیٹی کو تحلیل کردیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم نے اتحادی جماعتوں سے رابطے کیلئے کمیٹیاں تشکیل دے دیں

وزیر اعظم عمران خان نے گورنر پنجاب چوہدری سرور، وزیر اعلیٰ عثمان بزدار اور وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کو مسلم لیگ (ق) سے نئے مذاکرات کرنے کی ہدایت دی تھی جبکہ گورنر سندھ عمران اسمعیٰل، سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر فردوس شمیم نقوی اور رکن سندھ اسمبلی حلیم عادل شیخ کو ایم کیو ایم سے ملاقات کرنے کا کہا تھا۔

جہانگیر ترین کی قیادت میں کمیٹ نے مسلم لیگ (ق) کے 2 پنجاب میں اور ایک مرکز میں وزرا کا با اختیار بنانے پر رضامندی کا اظہار کیا تھا جس کے علاوہ انہوں نے جماعت کو گجرات، چکوال اور بہاولپور اضلاع سمیت کئی تحصیلوں میں انتظامی اختیارات دینے کا بھی کہا تھا۔

کمیٹٰی نے یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ وزیر اعظم سے مسلم لیگ (ق) کے لیے ایک اور وفاقی وزارت دینے کی بات کریں گے۔

مسلم لیگ (ق) کا اجلاس:

پارٹی کے ہنگامی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے چوہدری شجاعت نے واضح کیا کہ وہ طے شدہ معاملات کے نفاذ تک حکومت سے کوئی مذاکرات نہیں کریں گے۔

اجلاس میں پنجاب اسمبلی کے اسپیکر چوہدری پرویز الہیٰ، رکن قومی اسمبلی مونس الہیٰ اور حسین الہیٰ، سابق سینیٹر کامل علی آغا اور دیگر شریک تھے۔

مسلم لیگ (ق) کے مطابق تمام شرکا نے رضامندی کا اظہار کیا کہ تحریک انصاف کی قیادت کو بتایا جائے کہ جب سیاسی معاملات طے ہوجائیں تو اس میں تبدیلی عدم اعتماد پیدا کرتی ہیں۔

مزید پڑھیں: پی ٹی آئی کو ساتھی سمجھتے ہیں، وہ دشمن نہ سمجھے، چوہدری شجاعت

مسلم لیگ (ق) کے سربراہ کا کہنا تھا کہ 'ہم نے 2018 کے عام انتخابات سے قبل تحریک انصاف سے تحریری معاہدہ کیا تھا جس کے کسی بھی فیصلے پر عمل در آمد نہیں ہوا، جب (جہانگیر ترین کی قیادت میں) دوسری کمیٹی سے معاملات طے ہوگئے تو کمیٹی کو تحلیل کردیا گیا اور نئی کمیٹی قائم کردی گئی'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'تحریک انصاف کے چند وزرا اور رہنما ہمارے اور وزیر اعظم کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کر رہے ہیں'۔

گورنر پنجاب کا کہنا تھا کہ 'چوہدری شجاعت نے ٹھیک کہا کہ اتحاد کا خاتمہ تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ق) دونوں کے لیے برابر نقصان دہ ہوگا'۔

انہوں نے کہا کہ 'مسلم لیگ (ق)، ایم کیو ایم، بلوچستان عوامی پارٹی سمیت دیگر اتحادی حکومت کے ساتھ ہیں اور ان میں سے کوئی بھی حکومت گرانے کی بات نہیں کر رہا'۔

گورنر پنجاب کا کہنا تھا کہ 'نئی کمیٹی جلد مسلم لیگ (ق) کی قیادت سے رابطہ کرنے اور اس کے تحفظات دور کرنے کی کوشش کرے گی، تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ق) کا اتحاد خطرے میں نہیں ہے'۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024