پاکستان نے بحری ایندھن صاف کرنے والی ڈیوائس کے استعمال پر پابندی لگادی
اسلام آباد: پاکستان نے سمندر میں بحری جہازوں کے اوپن لوپ اسکربر استعمال کرنے پر پابندی عائد کردی جو بحری ایندھن سے گندھک صاف کر کے باقیات کو سمندر میں خالی کردیتے ہیں۔
ریگولیٹری نوٹ کے مطابق پاکستان نیا ملک ہے جس نے صفائی کرنے والی اس ڈیوائس پر پابندی لگائی۔
برطانوی خبررساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق رواں برس کے آغاز میں ہی اقوامِ متحدہ کی بحری ایجنسی، انٹرنیشنل میری ٹائم آرگنائزیشن نے جہازوں پر 0.5 فیصد سے زائد گندھگ والا ایندھن استعمال کرنے پر پابندی عائد کردی تھی جو اس سے قبل 3.5 فیصد تھا۔
یہ اقدام تیل اور شپنگ انڈسٹریز کے لیے بہت بڑا جھٹکا ہے، جس کا مقصد فضائی آلودگی کم کر کے انسانی صحت کو بہتر بنانا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کی سمندری حدود میں اضافہ کیسے ہوا؟
صرف ان بحری جہازوں کو ہائی سلفر والا ایندھن استعمال کرنے کی اجازت ہوگی جن میں سلفر صاف کرنے کی ڈیوائس یعنی اسکربرز نصب ہوں گی۔
اس کے علاوہ بحری جہاز کے مالکان صاف ایندھن کے متبادل ذرائع بھی اپنا سکتے ہیں۔
تاہم کچھ بندرگاہوں نے ایک قسم کے اسکربرز پر بھی پابندی لگادی ہے اور وہ ہے اوپن لوپ، جو سمندر میں واش واٹر کی باقیات خالی کرتا ہے، اس اقدام سے شپنگ کمپنیوں کے لیے لاگت غیر متوقع طور پر بڑھ گئی جنہوں نے فی ڈوائس 10 لاکھ ڈالر خریدی تھیں۔
رواں ماہ کے آغاز میں وزارت پورٹس اینڈ شپنگ کے سرکلر میں کہا گیا کہ اوپن لوپ اسکربرز کے ذریعے واش واٹر کا اخراج پاکستانی بندرگاہوں اور مضافات میں ممنوع ہے۔
مزید پڑھیں: یاد رکھیں! سمندروں کی بقاء میں ہی ہمارا تحفظ ہے
سرکلر کے مطابق جن جہازوں میں اوپن لوپ اسکربر نصب ہیں انہیں مطابقت رکھنے والے ایندھن پر منتقل ہونے کی ضرورت ہے۔
وزارت بحری امور کا مزید کہنا تھا کہ تجویز ہے کہ جہاز بندرگاہ کے علاقے میں آنے سے قبل ہی کلوز اپ موڈ پر منتقل ہوجائیں یا پھر مناسب ایندھن استعمال کریں۔
خیال رہے کہ سمندری ایندھن بھرنے کے مراکز میں سے ملایئشیا، سنگاپور اور متحدہ عرب امارات میں فجیرہ پورٹ نے بھی اوپن لوپ اسکربرز پر پابندی عائد کردی تھی جبکہ چین بھی مزید ساحلی علاقوں میں اسکربر کے اخراج پر پابندی میں توسیع کرنے والا ہے۔
ان ڈیوائسز کے استعمال کنندگان نے اس بات پر زور دیا کہ ایسی کوئی جامع سائنسی تحقیق موجود نہیں جس سے یہ ظاہر ہو کہ اوپن لوپ اسکربرز سے خارج ہونے والا مواد ماحول کے لیے نقصان دہ ہے۔
تجزیہ کاروں نے ممکنہ طور پر پابندیوں میں سختی کے حوالے سے خبردار کیا ہے جس سے سرمایہ کاروں کی لاگت بڑھ جائے گی۔
یہ خبر 23 جنوری 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔