جسٹس عیسیٰ کیس: 'اثاثہ جات برآمدی یونٹ قانون کو خاطر میں نہیں لارہا'
اسلام آباد: سینیٹر رضا ربانی نے سپریم کورٹ میں اثاثہ جات برآمدی یونٹ (اے آر یو) کے قائم ہونے کا نوٹی فکیشن اور ٹرمز آف ریفرنس (ٹی او آر) پڑھ کر سنایا اور موقف اپنایا کہ ادارہ قانون کو خاطر میں لائے بغیر کام کر رہا تھا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق رضا ربانی نے اے آر یو کی جانب سے کی گئی کارروائی کو 'وچ ہنٹ' قرار دیتے ہوئے کہا کہ 'کیا یہ نوٹی فکیشنز اور ٹی او آر، آئین کے آرٹیکل 209 کی خلاف ورزی نہیں'۔
واضح رہے کہ رضا ربانی، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے متعلق صدارتی ریفرنس دائر کیے جانے کے خلاف سپریم کورٹ کے 10 رکنی فل کورٹ بینچ کے سامنے سندھ بار کونسل کی نمائندگی کر رہے تھے۔
6 نومبر 2018 کے نوٹی فکیشن کو پڑھتے ہوئے انہوں نے موقف اپنایا کہ کابینہ نے غیر قانونی آف شور اثاثے بر آمد کرنے کے لیے اثاثہ جات برآمدی یونٹ قائم کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور اس کا مقصد مواد اکٹھا کرنا نہیں بلکہ انکوائری کرنا تھا۔
مزید پڑھیں: جسٹس عیسیٰ ریفرنس: 'وزیراعظم بے اختیار ہوئے تو سارا نظام شتر بے مہار ہوجائے گا'
ان کا کہنا تھا کہ ٹی او آر کے مطابق اے آر یو پاکستانی شہریوں کی نیب، ایف آئی اے، ایف بی آر اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد سے معلومات یا شواہد جمع کرسکتا ہے۔
رضا ربانی کا کہنا تھا کہ ٹی او آر کے سیکشن 7 کے تحت اے آر یو وفاقی حکومت کے زیر اثر کسی بھی خفیہ ایجنسی سے مواد اکٹھا کرنے میں معاونت کی درخواست دے سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'اس سے کسی بھی شخص کی ذاتی زندگی میں مداخلت کے لیے خفیہ اداروں کو آزادی مل جاتی ہے اور ایگزیکٹوز کے ججز کے خلاف ہاتھ مضبوط ہوتے ہیں'۔
ایک سوال کے جواب میں رضا ربانی کا کہنا تھا کہ انہیں نہیں معلوم کہ دنیا میں کوئی بھی ادارہ اتنے اختیارات رکھتا ہو۔
10 مئی 2019 کو یونٹ کی جانب سے وزارت قانون کو لکھے گئے خط میں انہوں نے کہا تھا کہ شکایت گزار عبدالحمید ڈوگر نے ناکافی شواہد دیے ہیں جس کی وجہ سے انہوں نے خود تحقیقات کیں اور اس کے نتائج وزارت قانون کو بھیج رہے ہیں، کا حوالہ دیتے ہوئے رضا ربانی نے کہا کہ اے آر یو نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف مکمل تحقیقات کی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: جسٹس عیسیٰ ریفرنس: 'کوئی شخص جج کے خلاف انکوائری کا حکم نہیں دے سکتا'
جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ یونٹ کو انکوائری کرنے کی کس نے اجازت دی تو رضا ربانی نے جواب دیا کہ اے آر یو کے چیئرمین نے خود سے انکوائری کا آغاز کیا۔
جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ یہ حیرت انگیز ہے کہ ایک قانون سے ذیلی ایجنسی کو اتنے اختیارات مل گئے ہیں۔
سینیٹر رضا ربانی نے حکومت کے کام کرنے کے طریقہ کار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ قانون نے خود اے آر یو کو اتنے اختیارات نہیں دیے 'اصل وزارتی اختیارات صرف وزیر اعظم ہی کے پاس ہیں'۔
جسٹس باقر نے سوال کیا کہ کیا کوئی وزارتی اختیارات اے آر یو کو دیے گئے ہیں جس پر سینیٹر رضا ربانی نے جواب دیا کہ 'یہ غیر واضح ہے کیونکہ اے آر یو کے خدمات اب تک واضح نہیں کیے گئے ہیں'۔
جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ کیا اے آر یو کی خدمات عام شہریوں کو دستیاب ہیں جس پر رضا ربانی کا کہنا تھا کہ 'اس کا انحصار شہری کی کلاس پر ہے، یونٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جائیداد کی بغیر قانون کو خاطر میں لائے اور آئین کے آرٹیکل 209 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے وسیع پیمانے پر تلاشی لی'۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ ججز کی نگرانی کی تحقیقات کا حکم دے، وکیل جسٹس عیسیٰ
بعد ازاں انہوں نے اے آر یو کے خط کا حوالہ دیا جس میں اعتراف کیا گیا تھا کہ یونٹ نے خود سے مکمل انکوائری کی اور برطانیہ میں لینڈ رجسٹری سے جائیداد کے دستاویزات کی کاپی حاصل کی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ 'یہ پورا عمل مواد اکٹھا کرنے کے قواعد سے دور ہے بلکہ یہ پوری جامع تحقیقات ہیں'۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ اے آر یو کی اسٹیبلشمنٹ کو نوٹی فکیشن جاری کرنے کا نقطہ نہایت اہمیت کا حامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'قانون موجود ہے مگر یہ صرف انکم ٹیکس کے معاملات کو دیکھتا ہے'۔
رضا ربانی نے کہا کہ صدر کو ریفرنس دائر کرنے کی تجاویز دینے کا پورا عمل غیر آئینی ہے۔
انہوں نے عدالت عظمیٰ سے ریفرنس کو ختم کرنے کی استدعا کی اور کہا کہ اگر بنیاد ہی غیر آئینی ہو تو اس پر کھڑی پوری عمارت گر جاتی ہے۔
انہوں نے عدالت میں 6 فروری 2019 کو سنائے گئے فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے کا حوالہ دیا اور کہا کہ 'اس فیصلے سے پاکستان تحریک انصاف اور متحدہ قومی موومنٹ کی موجودہ اتحادی حکومت کو نقصان پہنچا تھا اور یہ فیصلہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لکھا تھا'۔
یہ بھی پڑھیں: قوانین آرڈیننس سے بنانے ہیں تو پارلیمان کو بند کردیں، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
انہوں نے سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس کے کے آغا کے خلاف ریفرنس کو 12 مئی 2007 کے سانحے کے کیس میں ان کے 11 ستمبر 2018 کو سنائے گئے فیصلے سے جوڑتے ہوئے کہا کہ 'ان کے خلاف کارروائی اس فیصلے کی وجہ سے سامنے آئی تھی'۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ یہ نتیجہ آپ کے اپنے خیالات پر مبنی ہے کیا جسٹس کے کے آغا نے کبھی اس طرح کے الزامات لگائے ہیں۔
رضا ربانی نے جواب دیا کہ 'واقعات کی کڑی اور شواہد سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بھی اس کیس میں معاون کے طور پر ایک مرتبہ پیش ہوئے تھے'۔
جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ وکیل نے بغیر کسی مواد کے سیاسی جماعت کا نام لیا ہے کیا 12 مئی کے سانحے کے فیصلے کے خلاف کوئی اپیل یا نظر ثانی درخواست دائر کی گئی تھیں۔
جسٹس یحیٰ آفریدی نے سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی نمائندگی کرنے والے رشید اے رضوی سے سوال کیا کہ کیا صدر مملکت کو ایک جج کی غیر ظاہر شدہ جائیداد کی غیر مجازی اتھارٹی کی جانب سے غیر قانونی انکوائری سے ملنے والی معلومات کو رد کرنا چاہیے یا نہیں۔
رشید اے رضوی نے جواب دیا کہ تحقیقات کو صدر مملکت کے احکامات کے تحت ہونا چاہیے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس
واضح رہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس کے کے آغا کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا تھا۔
ریفرنس میں دونوں ججز پر اثاثوں کے حوالے سے مبینہ الزامات عائد کرتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل سے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کی استدعا کی گئی تھی۔
سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو پہلا نوٹس برطانیہ میں اہلیہ اور بچوں کے نام پر موجود جائیدادیں ظاہر نہ کرنے کے حوالے سے جاری کیا گیا تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو جاری کیا گیا دوسرا شو کاز نوٹس صدر مملکت عارف علوی کو لکھے گئے خطوط پر لاہور سے تعلق رکھنے والے ایڈووکیٹ وحید شہزاد بٹ کی جانب سے دائر ریفرنس پر جاری کیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ ججز کی نگرانی کی تحقیقات کا حکم دے، وکیل جسٹس عیسیٰ
ریفرنس دائر کرنے کی خبر کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر ڈاکٹر عارف علوی کو خطوط لکھے تھے، پہلے خط میں انہوں نے کہا تھا کہ ذرائع ابلاغ میں آنے والی مختلف خبریں ان کی کردارکشی کا باعث بن رہی ہیں، جس سے منصفانہ ٹرائل میں ان کے قانونی حق کو خطرات کا سامنا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر مملکت سے یہ درخواست بھی کی تھی کہ اگر ان کے خلاف ریفرنس دائر کیا جاچکا ہے تو اس کی نقل فراہم کردی جائے کیونکہ مخصوص افواہوں کے باعث متوقع قانونی عمل اور منصفانہ ٹرائل میں ان کا قانونی حق متاثر اور عدلیہ کے ادارے کا تشخص مجروح ہو رہا ہے۔
بعد ازاں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے سپریم کورٹ میں ریفرنس کے خلاف درخواست دائر کی گئی تھی جس پر عدالت عظمیٰ کا 10 رکنی بینچ سماعت کررہا ہے۔