روشن سندھ پروگرام کیس: شرجیل میمن کی عبوری ضمانت میں 11 فروری تک توسیع
اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیر اطلاعات سندھ کی عبوری ضمانت میں 11 فروری تک کی توسیع کردی۔
ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے دریافت کیا کہ کیا قومی احتساب بیورو (نیب) غبن شدہ رقم برآمد کرنے کے لیے ملزم کو گرفتار کرسکتا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس لبنیٰ سلیم پرویز نے شرجیل انعام میمن کی جانب سے عبوری ضمانت میں توسیع کی درخواست پر سماعت کی۔
یہ بھی پڑھیں: روشن سندھ پروگرام کیس: شرجیل میمن کی عبوری ضمانت منظور
یاد رہے کہ عدالت نے انہیں گزشتہ برس دسمبر می سندھ کے مختلف اضلاع میں اسٹریٹ لائٹس کی تنصیب کے روشن سندھ پروگرام کے کیس میں عبوری ضمانت دی تھی۔
شرجیل میمن کی جانب سے سردار لطیف کھوسہ عدالت میں پیش ہوئے جنہوں نے عدالت کو آگاہ کیا کہ نئے نافذ شدہ قومی احتساب ترمیمی آرڈیننس کی روشنی میں سابق وزیر کی بریت کے لیے ایک علیحدہ درخواست بھی دائر کردی گئی ہے۔
لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ جس کمیٹی نے یہ منصوبہ منظور کیا شرجیل انعام میمن کبھی اس کا حصہ نہیں تھے وہ صوبائی وزیر تھے اور انہوں نے صرف منصوبے کی سمری وزیراعلیٰ سندھ کو بھجوائی تھی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ نیب نے مبینہ طور پر غبن کی گئی رقم برآمد کرنے کے لیے شرجیل انعام میمن کو گرفتار کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
مزید پڑھیں: کرپشن کیس: شرجیل میمن ضمانت پر جیل سے رہا
جسٹس اطہر من اللہ نے پروسیکیوشن سے استفسار کیا کہ کیا نیب غبن شدہ رقم برآمد کرنا چاہتا ہے؟ جس پر نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل سردار مظفر عباسی نے اقرار میں جواب دیا۔
بینچ کا کہنا تھا کہ نیب آرڈیننس تحقیقاتی افسر کو غبن شدہ رقم برآمد کرنے کے لیے گرفتار کرنے کا اختیار نہیں دیتا، قانون کے تحت نیب ملزم کی رضامندی سے ناجائز رقم برآمد کرسکتا ہے۔
ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے پروسیکیوٹر کو یاددہانی کروائی کہ شرجیل میمن 20 ماہ نیب کی حراست میں رہے اور وہ اس دوران بھی کیس کی تفتیش نہیں کرسکے۔
پروسیکیوٹر سردار مظفر عباسی کا کہنا تھا کہ چونکہ شرجیل میمن کو اس کیس میں گرفتار نہیں کیا گیا تھا اس لیے نیب کی تحقیقات ٹیم ان سے روشن سندھ پروگرام کے حوالے سے تفتیش نہیں کرسکی۔
عدالت کا کہنا تھا کہ نیب کسی ملزم کو گرفتار کرنے کے لیے اختیارات کا ناجائز استعمال نہیں کرسکتا۔
جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ نیب چیئرمین کے پاس گرفتار کرنے کا لامحدود اختیار نہیں اور اگر بیورو نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا تو آئینی عدالت کے پاس مکمل انصاف یقینی بنانے کے لیے غیر معمولی دائرہ اختیار طلب اور مداخلت کرنے کا ہر حق ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں: شراب کی بوتلوں کی برآمدگی: شرجیل میمن ہسپتال سے جیل منتقل
جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ’اگر نیب منصف کا کردار ادا کرنے لگے تو کیا ہمیں عدالتیں بند کردینی چاہیئیں؟'
ان کا مزید کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں نہ تو نیب غبن شدہ رقم برآمد کرنے کے لیے ملزم کو گرفتار کرسکتا ہے اور نہ ہی گرفتاری کے دوران پلی بارگین کا عمل قانونی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پلی بارگین کے حوالے سے سپریم کورٹ کا حکم واضح ہے کہ ’پلی بارگین صرف اس صورت میں قبول کی جائے گی جب ملزم بغیر کسی دباؤ اور خوف کے رقم کی ادائیگی کے لیے راضی ہو‘۔
بعدازاں عدالت نے پروسیکوشن کو سپریم کورٹ کے احکامات کا بغور جائزہ لینے کی ہدایت کرتے ہوئے تحقیقاتی افسر کو آئندہ سماعت پر ٹھوس وجوہات پیش کرنے کی ہدایت کی۔
پارک لین کیس
احتساب عدالت نے پارک لین ریفرنس میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور دیگر ملزمان پر فرد جرم عائد کرنے کو ملتوی کردیا گیا۔
عدالت نے پروسیکیوشن کو ہدایت کی کہ فرد جرم عائد کرنے کے لیے 11 فروری کو ایئر ایمبولینس کے ذریعے اس کیس کے ملزم اور اومنی گروپ کے انور مجید کو پیش کیا جائے۔
مزید پڑھیں: پارک لین ضمنی ریفرنس: آصف زرداری پر 22 جنوری کو فرد جرم عائد ہونے کا امکان
سماعت میں احتساب عدالت کے جج اعظم خان نے عبد الغنی مجید، فریال تالپور اور دیگر ملزمان کو جعلی اکاؤنٹس سے متعلق ریفرنس کی نقول فراہم کیں۔
دلائل کے دوران فاروق ایچ نائیک نے عدالت کو آگاہ کیا کہ جب سے نیب جعلی اکاؤنٹس کیس کی سماعت کررہا ہے اس نے اب تک صرف عبوری ریفرنس دائر کیا ہے اس لیے ملزم پر فرِد جرم عائد نہیں کی جاسکتی۔
نیب پروسیکیوٹر کا کہنا تھاکہ بیورو تحقیقات مکمل ہونے کے بعد ضمنی ریفرنس بھی دائر کرسکتا ہے، انہوں نے عدالت سے درخواست کی کہ جن ملزمان کے خلاف تفتیش مکمل ہوچکی ان کے خلاف فرد جرم عائد کردی جائے۔
بعدازاں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ایڈووکیٹ فاروق نائیک کا کہنا تھا کہ پارک لین اور جعلی اکاؤنٹس 2 علیحدہ ریفرنسز ہیں، انہوں نے کہا کہ پارک لین میں نیب نے آصف زرداری کو ملزم جبکہ جعلی اکاؤنٹس ریفرنس میں ان کی بہن فریال تالپور اور دیگر کو ملزم نامزد کررکھا ہے۔
فاروق نائیک نے دعویٰ کیا کہ دونوں ریفرنسز بے بنیاد ہیں اور بدنیتی پر مبنی ہیں۔
اس کیس کی مزید سماعت 11 فروری تک موخر کردی گئی۔
یہ خبر 23 جنوری 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی