• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm

امتیاز شیخ کا ہتک عزت کا دعویٰ، ایس ایس پی رضوان کو ایک ارب روپے ہرجانے کا نوٹس

شائع January 22, 2020 اپ ڈیٹ January 23, 2020
نوٹس کے مطابق رضوان احمد نے امتیاز شیخ اور ان کے خاندان کی ساکھ مجروح کرنے کے لیے بے بنیاد اور جھوٹے الزامات لگائے — فائل فوٹو / ڈان نیوز
نوٹس کے مطابق رضوان احمد نے امتیاز شیخ اور ان کے خاندان کی ساکھ مجروح کرنے کے لیے بے بنیاد اور جھوٹے الزامات لگائے — فائل فوٹو / ڈان نیوز

وزیر توانائی سندھ اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما امتیاز احمد شیخ نے سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) شکارپور رضوان احمد کو ایک ارب روپے کے ہتک عزت کا نوٹس بھیج دیا۔

نوٹس میں ایس ایس پی شکارپور سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ 14 روز میں امتیاز شیخ کے خلاف کرپشن کے الزامات ثابت کریں، بصورت دیگر ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔

نوٹس میں کہا گیا کہ ایس ایس پی رضوان احمد نے امتیاز شیخ اور ان کے خاندان کی ساکھ مجروح کرنے کے لیے بے بنیاد اور جھوٹے الزامات لگائے۔

نوٹس میں مزید کہا گیا کہ رضوان احمد اور امتیاز شیخ کے مخالفین نے صوبائی وزیر کے خلاف غیر حقیقی 'خفیہ رپورٹ' تیار کرکے ان کے خلاف سازش کی، یہ من گھڑت رپورٹ امتیاز شیخ کے سیاسی کریئر کو متاثر کرنے کے لیے تیار کی گئی۔

امتیاز شیخ نے نوٹس میں کہا ہے کہ وہ ایک تعلیم یافتہ اور باوقار خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، جو بیوروکریٹ رہے، سابق وزیر اعلیٰ کے پرنسپل سیکریٹری کے فرائض انجام دیئے اور 8 انتظامی محکموں کے سربراہ بھی رہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ شکارپور کے عوام نے کئی بار انہیں اپنی نمائندگی کے لیے منتخب کیا جس کے باعث انہوں نے عوامی عہدوں پر فرائض انجام دیے اور سندھ کابینہ کا حصہ رہے۔

مزید پڑھیں: سعید غنی کی ایس ایس پی ڈاکٹر رضوان پر کڑی تنقید، 'تھرڈ کلاس شخص' قرار دے دیا

ڈاکٹر رضوان کی 'خفیہ رپورٹ'

واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے سامنے آنے والے والی ایس ایس پی شکارپور کی رپورٹ میں صوبائی وزیر توانائی امتیاز شیخ پر جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

رپورٹ میں امتیاز شیخ پر الزام لگاتے ہوئے کہا گیا کہ 'وہ سیاسی مخالفین کو دبانے اور معاشرے میں اپنا خوف قائم کرنے کے لیے اپنے کرمنل گینگ کا استعمال کرتے ہیں، جبکہ اسی گینگ کے افراد نے سیاسی مخالف شاہ نواز بروہی کے بیٹے کو بھی قتل کیا۔'

'خفیہ' رپورٹ میں ضلع کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) کو مخاطب کرکے کہا گیا ہے کہ 'امتیاز شیخ پولیس پر مکمل کنٹرول چاہتے ہیں اور محکمے میں اہم عہدوں پر من پسند افسران تعینات کرانے کے لیے ضلع کے ایس ایس پی پر مستقل دباؤ ڈالتے ہیں جبکہ یہ افسران محکمے کی خفیہ معلومات انہیں فراہم کرتے تھے۔'

اپنے الزامات کے ثبوت کے طور پر ڈاکٹر رضوان نے امتیاز شیخ، ان کے سیکریٹری، بیٹے اور ان کے قریبی ساتھیوں کا موبائل ریکارڈ بھی رپورٹ کے ساتھ منسلک کیا ہے، جس میں اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ صوبائی وزیر نے کئی بار 'مطلوب' اتو شیخ جیسے مجرمان سے رابطے کیے جس کے خلاف درجنوں مقدمات درج ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امتیاز شیخ کا کرمنل گینگ بھی ہے جو ضلع شکار پور کے تھانہ نیو فوجداری کی حدود میں واقعے علاقے چِنگی مُقام میں منشیات فروخت کرتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق امتیاز احمد شیخ، ان کے بھائی مقبول احمد شیخ اور بیٹے فراز احمد شیخ نے نجی محافظ بھی رکھے ہوئے ہیں جو مجرمانہ ریکارڈ رکھتے ہیں اور 'اشتہاری' ہیں۔

ایس ایس پی شکارپور کی یہ رپورٹ صوبے کے آئی جی ڈاکٹر کلیم امام کو 'ٹھوس وجوہات' کی بنا پر عہدے سے ہٹانے کے سندھ حکومت کے فیصلے کے ایک روز بعد سامنے آئی تھی۔

قبل ازیں 6 دسمبر 2019 کو سندھ حکومت نے ایس ایس پی ڈاکٹر رضوان کی خدمات بھی اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے سپرد کرنے کوشش کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: شکارپور : ڈاکوؤں کیلئے مخبری میں ملوث 50پولیس افسران و اہلکار ضلع بدر

صوبائی حکومت کے اس فیصلے کے خلاف ڈاکٹر رضوان نے سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا اور اعلیٰ عدالت نے ان کے تبادلے کا نوٹی فکیشن معطل کردیا تھا۔

ڈاکٹر رضوان اس معاملے کو نئے تشکیل پانے والے صوبائی پبلک سیفٹی اینڈ پولیس کمپلینٹس کمیشن بھی لے کر گئے تھے اور کہا تھا کہ سندھ میں ان کی خدمات کسی پیشگی اطلاع، شکایت یا تفتیش کے بغیر واپس کی جارہی ہیں۔

اس وقت صوبائی انسپکٹر جنرل نے چیف سیکریٹری سندھ کو خط لکھ کر شکایت کی تھی کہ انہیں اس فیصلے کی پیشگی اطلاع نہیں دی گئی اور تشویش کا اظہار کیا تھا کہ اس طرح کے اقدامات سے 'پولیس کی حوصلہ شکنی' ہو رہی ہے۔

ڈاکٹر رضوان، نقیب اللہ محسود قتل کیس کے تفتیشی افسر اور واقعے کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جی آئی ٹی) کے رکن بھی ہیں، کیس کی سماعت انسداد دہشت گردی عدالت میں زیر التوا ہے جہاں وہ ریاست کی نمائندگی کر رہے ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024