گھروں سے کام کرنے والی خواتین کیلئے قانون سازی میں حائل رکاوٹ دور کرنے کا عزم
پارلیمنٹیرینز اور سینئر سرکاری افسران نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ اپنے صوبوں میں گھروں سے کام کرنے والی خواتین کو بااختیار بنانے سے متعلق زیر التوا قانون سازی کا معاملہ متعلقہ فورم پر اٹھائیں گے۔
اقوام متحدہ کے ادارے خواتین پاکستان کی جانب سے جاری پریس ریلیز میں کہا گیا کہ 31 قانون سازوں اور سینئر سرکاری عہدیداروں کے ایک گروپ نے وومن ہوم بیس ورکرز (ایچ بی ڈبلیو) کو بااختیار بنانے کے لیے قانون سازی کے عمل کو فعال کرنے کا عزم کیا۔
مزید پڑھیں: پاکستان کی 12 باصلاحیت خواتین
ایچ بی ڈبلیو کو معاشی طور پر بااختیار بنانے سے متعلق بین الصوبائی تبادلہ خیال کے بعد پارلیمنٹیرینز اور سینئر سرکاری عہدیداروں نے عزم کا اظہار کیا۔
تقریب کے اختتام پر خیبر پختونخوا کے صوبائی وزیر اطلاعات شوکت یوسف زئی نے کہا کہ خواتین کو معاشرے میں مثبت طریقے سے آگے بڑھنے اور معاشرتی اور معاشی طور پر ترقی دینے میں تعلیم کلیدی عنصر ہے۔
انہوں نے بتایا کہ خیبرپختونخوا میں تعلیم کا 70 فیصد بجٹ لڑکیوں پر خرچ کیا جاتا ہے جو صوبے میں خواتین کو بااختیار بنانے کے ہمارے عزم کا ثبوت ہے۔
صوبائی وزیر اطلاعات نے کہا کہ 'صوبے کی خواتین کو بااختیار بنانے کی پالیسی خواتین کو معاشی اعتبار سے بااختیار بنانے کا تصور پیش کرتی ہے'۔
یہ بھی پڑھیں: نسیم شاہ نے ہر بال سے پہلے ایسا کیا کیا کہ پاکستان کو فتح نصیب ہوئی؟
انہوں نے کہا کہ 'صوبے میں مزدور قوانین میں خواتین کو ہر طرح کے امتیازی سلوک کے خلاف تحفظ فراہم کرنے کی دفعات شامل ہیں'۔
پنجاب اسمبلی کی کمیٹی برائے جینڈر مین اسٹریمنگ کی چیئرپرسن عظمی کاردار نے کہا کہ 'جینڈر مین اسٹریمنگ کا مطلب خواتین کو محض افرادی قوت میں شامل کرنا نہیں ہے بلکہ فیصلہ سازی کی سطح پر ان کی نمائندگی مردوں کے برابر ہونی چاہیے'۔
اس ضمن میں خواتین کی حیثیت سے متعلق سندھ کمیشن کی چیئرپرسن نزہت شیرین نے کہا 'مجھے یقین ہے کہ گھروں کی سطح پر چھوٹے کاروبار کرنے والی خواتین کی ترقی کو مزید تیز کرنے سے ہمارے ملک کو معاشی چیلنجز سے نکالنے میں مدد مل سکتی ہے۔
اقوام متحدہ وومن کی پاکستان کی نائب کنٹری ترجمان عائشہ مختار نے اپنے اختتامی کلمات میں کہا کہ ان دو دنوں میں ہم نے خواتین اور موسمیاتی تبدیلی جیسے ابھرتے مسائل پر گفتگو کی۔
مزید پڑھیں: سعودی عرب خواتین کو بااختیار بنانے میں پاکستان و بھارت سے بھی آگے
انہوں نے کہا کہ ہم نے معاشرے میں نظر انداز ہونے والے طبقے 'ایچ بی ڈبلیو' اور خواجہ سراؤں کے مسائل اور ان کے لیے جامع حکمت عملی کے بارے میں تبادلہ خیال کیا۔
عائشہ مختار کا کہنا تھا کہ 'ہم خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے 'ایل ایچ آر ڈی' اور 'ڈبلیو ڈی ڈی' کی حمایت جاری رکھیں گے۔
انہوں نے کہا کہ 'ہم منتخب عوامی نمائندوں کی حمایت بھی جاری رکھیں گے جو خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے کوشش کریں گے'۔
عائشہ مختار نے تعاون کرنے پر ناروے کے سفارتخانے کا شکریہ ادا کیا۔