عراق میں مظاہرے پھر شدت اختیار کرگئے، 3 افراد ہلاک
عراق کے دارالحکومت بغداد میں حکومت مخالف مظاہروں میں ایک مرتبہ پھر شدت آگئی ہے اور احتجاج کے دوران سیکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے 3 افراد جاں بحق اور کئی زخمی ہوگئے۔
غیر ملکی خبر ایجنسی 'اے ایف پی' کی رپور ٹ کے مطابق بغداد سمیت ملک بھر میں ہزاروں مظاہرین نے اہم شاہراہیں بند کردیں اور حکومت سے اصلاحات کا مطالبہ کیا۔
مظاہرین بغداد کے علامتی تحریر اسکوائر میں جمع ہوئے اور حکومت کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے مطالبات ماننے پر زور دیا۔
رپورٹ کے مطابق طیران اسکوائر پر سیکڑوں مظاہرین جمع ہوئے جہاں سیکیورٹی فورسز سے تصادم ہوا جس کے بعد آنسو گیس اور فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں 3 افراد جاں بحق ہوگئے۔
مزید پڑھیں:عراق: حکومت مخالف مظاہروں میں شدت آگئی
ہسپتال کے عہدیداروں کا کہنا تھا کہ جاں بحق ہونے والے 3 افراد میں سے 2 کو گولیاں لگی تھیں جبکہ تیسرے شہری کے گردن میں آنسو گیس کا فائر لگا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ 50 سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے۔
مظاہرین نے پرانے مطالبات دہراتے ہوئے کہا کہ نئے انتخابی قوانین کے تحت اور عادل عبدالمہدی کی جگہ آزاد وزیر اعظم کی سربراہی میں قبل از انتخابات کروائے جائیں اور تمام بدعنوان سیاست دانوں کا احتساب کیا جائے۔
قبل ازیں گزشتہ روز نوجوان مظاہرین نے ٹائر نذرِ آتش کر کے سڑکیں بلاک کردی تھیں اور مطالبات منظور نہ ہونے کی صورت میں مظاہروں میں مزید شدت لانے کی دھمکی دی تھی۔
گزشتہ ہفتے حکومت کو اصلاحات کے وعدوں پر پیش رفت کے لیے دی گئی ایک ہفتے کی مہلت کے اختتام سے ایک روز قبل ہی نوجوان بغداد کے طیران چوک اور تحریر چوک پر موجود مرکزی احتجاجی کیمپ پہنچے تھے اور ٹائر جلا کر شاہراہیں اور پل بند کردیے تھے۔
یہ بھی پڑھیں:عراق: مظاہرین نے آئل فیلڈ سے تیل کی ترسیل روک دی
رپورٹ کے مطابق یکم اکتوبر 2019 کو شروع ہونے والے مظاہروں میں اب تک کم از کم 460 افراد جاں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور 25 ہزار زخمی ہوگئے ہیں۔
اقوام متحدہ نے خبردار کردیا
عراق میں اقوام متحدہ کی اعلیٰ عہدیدار جینائن ہینس کا کہنا تھا کہ مظاہرین کے مطالبات کو نظر انداز کرنے سے غصے میں مزید شدت آئے گی اور بداعتمادی میں اضافہ ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ اب تک جو اقدامات اٹھائے گئے ہیں اگر ان کو مکمل نہ کیا گیا تو وہ کھوکھلے ہوں گے۔
اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق مظاہرین نے خدشے کا اظہار کیا کہ ان کی تحریک کو امریکا اور ایران کے درمیان خطے میں جاری کشیدگی کی نذر کیا جائے گا جو 3 جنوری کو امریکی فضائی حملے میں ایران کی قدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد پیدا ہوئی تھی۔
مزید پڑھیں:عراق: امریکی فضائی حملے میں ایرانی قدس فورس کے سربراہ ہلاک
ایران نے جواب میں امریکی فوجی اڈے پر میزائل داغے تھے اور بڑے پیمانے پر امریکی فوجیوں کی ہلاکتوں کا دعویٰ کیا تھا جبکہ امریکا نے اس دعوے کو مسترد کردیا تھا۔
واضح رہے کہ مظاہرین اصلاحاتی ووٹنگ قانون کی بنیاد پر قبل از وقت الیکشن کا مطالبہ کررہے ہیں تاکہ نیا وزیراعظم موجودہ نگراں وزیراعظم عادل عبدالمہدی کی جگہ لے سکے اور بدعنوانی میں ملوث عہدیداروں کا احتساب ہوسکے۔
عادل عبد المہدی نے احتجاج کے پیش نظر 2 ماہ قبل ہی مستعفی ہونے کا اعلان کیا تھا لیکن سیاسی جماعتیں ان کے متبادل پر متفق نہ ہوسکی تھیں، اس لیے وہ نگراں وزیراعظم کی حیثیت میں حکومت چلا رہے ہیں۔