• KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:33pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm
  • KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:33pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm

امریکا ماضی کی طرح افغانستان کو نظر انداز نہ کرے، وزیر خارجہ

شائع January 17, 2020
شاہ محمود قریشی نے امریکی سینٹر فار اسٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز سے خطاب کیا—تصویر: وزارت اطلاعات ٹوئٹر
شاہ محمود قریشی نے امریکی سینٹر فار اسٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز سے خطاب کیا—تصویر: وزارت اطلاعات ٹوئٹر

پاکستان نے کہا ہے کہ امریکا، افغانستان سے فوجیوں کے انخلا اور اپنی سب سے طویل جنگ ختم کرنے میں کامیاب ہو بھی جائے تو اسے افغانستان کی تعمیر نو سے منسلک رہنا چاہیے۔

واشنگٹن میں امریکی سینٹر فار اسٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے امریکا کو خبردار کیا کہ ’دوبارہ افغانستان کو نظر انداز نہ کریں‘، جیسا کہ 1989 میں امریکا اور پاکستان کی حمایت یافتہ جنگجوؤں کے دباؤ میں سوویت فوج کے انخلا کے بعد دیکھا گیا تھا، انہوں نے کہا کہ ’80 کی دہائی کو نہ دہرایا جائے‘۔

فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ’اگر کامیاب معاہدہ ہو بھی گیا تو چیلنجز برقرار رہیں گے اس لیے امریکا، اس کے دوستوں اور اتحادیوں کو مزید ذمہ داری کے ساتھ انخلا کرنا ہوگا‘۔

یہ بھی پڑھیں: وزیر خارجہ کی انتونیو گوتریس سے ملاقات، خطے کی صورتحال اور مسئلہ کشمیر پر تبادلہ خیال

وزیر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ ’انہیں (افغانستان سے) منسلک رہنا چاہیے، لڑائی کے لیے نہیں بلکہ تعمیر نو کے لیے'۔

واضح رہے کہ 2001 میں نیویارک کے ٹوئن ٹاور پر ہوئے حملے کے بعد امریکا نے افغانستان پر چڑھائی کر کے طالبان حکومت کا خاتمہ کردیا تھا۔

تاہم اب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ افغانستان سے 12 ہزار امریکی فوجیوں کا انخلا چاہتے ہیں۔

دوسری جانب طالبان نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکا کے ساتھ ہونے والے حالیہ مذاکرات میں عارضی جنگ بندی کی پیشکش کی تا کہ امن معاہدے کی راہ ہموار ہوسکے۔

مزید پڑھیں: وزیر خارجہ کی ایرانی ہم منصب سے ملاقات، 'پاکستان صرف امن میں حصہ دار بن سکتا ہے'

واضح رہے کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر ایران اور امریکا کے درمیان کشیدگی کم کرنے کے لیے اس وقت امریکی دورے پر ہیں اور واشنگٹن پہنچنے سے قبل انہوں نے تہران اور ریاض کا دورہ بھی کیا تھا۔

شاہ محمود قریشی کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے دیکھا ہے کہ طالبان تشدد میں کمی چاہتے ہیں، ’وہ بے وقوف نہیں حقیقت پسند ہیں اور وہ بھی (اس جنگ سے) تھک گئے ہیں‘۔

وزیر خارجہ کی امریکی عہدیداران کے ساتھ ملاقات

وزیر خارجہ نے امریکی سینیٹ کمیٹی برائے غیر ملکی تعلقات کے اراکین کے ساتھ ملاقات کی، امریکی اراکین سینیٹ میں باب میننڈیز، مٹ رومنی اور کرِس مرفی اور جم ریش شامل تھے۔

شاہ محمود قریشی نے بتایا کہ انہوں نے افغان امن عمل میں پاکستان کے کردار، مشرق وسطیٰ میں حالیہ کشیدگی اور بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کے غیر قانونی لاک ڈاؤن پر بات چیت کی۔

اس کے علاوہ واشنگٹن میں وزیر خارجہ نے امریکی انڈر سیکریٹری دفاع جان رووڈ سے بھی ملاقات کی جس میں امریکا اور پاکستان کے دفاعی تعاون کے مختلف پہلوؤں کے ساتھ ساتھ علاقائی صورتحال پر گفتگو کی گئی۔

دفتر خارجہ سے جاری بیان کے مطابق انڈر سیکریٹری نے وزیر خارجہ کو دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعاون کے حوالے بریف کیا۔

وزیر خارجہ نے انڈر سیکریٹری کو جنوبی ایشیائی خطے میں امن و استحکام کے حوالے سے کی گئی پاکستان کی متعدد کوششوں سے آگاہ کیا۔

اس موقع پر وزیر خارجہ نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ دفاعی اور سیکیورٹی تعاون دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کا انتہائی اہم جز ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکا کی جانب سے پاکستان کے لیے انٹرنیشنل ملٹری ایجوکیشن اینڈ ٹریننگ پروگرام کی بحالی کے فیصلے کی انتہائی اہم دو طرفہ فوجی تعاون کی تجدید کے لیے پہلے قدم کا خیر مقدم کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: وزیر اعظم کی وزیر خارجہ کو سعودیہ، امریکا، ایران کے دوروں کی ہدایت

وزیر خارجہ نے انڈر سیکریٹری کو کشیدگی کے خاتمے کے لیے خطے کے ممالک کے اپنے حالیہ دوروں کے بارے میں آگاہ کیا اور کشیدگی کے خاتمے اور مذاکرات کی اہمیت پر زور دیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کو اپنے ہمسایے میں عدم استحکام کے خطرے کے حوالے سے گہری تشویش ہے اور امریکا، ایران کے مابین کشیدگی کے پرامن حل میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔

ؤأ

کارٹون

کارٹون : 4 نومبر 2024
کارٹون : 3 نومبر 2024