مسلم لیگ(ن)، پی پی اراکین نے مشرف کیس میں لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ مسترد کردیا
اسلام آباد: پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور پاکستان مسلم لیگ نواز نے سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت کی جانب سے سابق صدر پرویز مشرف کی سزا کے خلاف لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے پر حیرت اور تحفظات کا اظہار کردیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پی پی پی کے سینٹرل میڈیا دفتر سے جاری بیان کے مطابق رکنِ قومی اسمبلی نفیسہ شاہ نے کہا کہ فیصلے نے انہیں شدید حیرت زدہ کردیا ہے اور’آج کا دن قانون کی حکمرانی کے لیے بدقسمت ہے‘۔
واضح رہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف وفاقی حکومت کی درخواست پر سنگین غداری کیس کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت کی تشکیل کو غیر آئینی قرار دیا تھا۔
مزید پڑھیں: پرویز مشرف کو سزائے موت سنانے والی خصوصی عدالت کی تشکیل غیر آئینی قرار
علاوہ ازیں اپنے فیصلے میں ہائی کورٹ نے یہ بھی کہا تھا کہ سابق آرمی چیف کے خلاف سنگین غداری کیس قانون کے مطابق نہیں بنایا گیا۔
یاد رہے کہ خصوصی عدالت نے 6 سال تک مقدمہ چلنے کے بعد 17 دسمبر 2019 کو جنرل (ر) پرویز مشرف کو سزائے موت سنائی تھی۔
مذکورہ کیس 3 نومبر 2007 کو آئین معطل کرنے کے بعد ایمرجنسی لگانے پر سابق صدر کے خلاف مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے 2013 میں دائر کیا تھا۔
ہائی کورٹ کے فیصلے پر تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے نفیسہ شاہ نے مزید کہا کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کو سزا سنانے والی خصوصی عدالت سپریم کورٹ نے تشکیل دی، جو ہائی کورٹ کے 3 ججز پر مشتمل تھی۔
ان کا نقطہ نظر یہ تھا کہ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں ہی درخواست دائر کرنے کے بجائے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی جانی چاہیے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پی پی پی کے بانی اور سابق وزیراعطم ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کا کیس بھی گزشتہ 8 برسوں سے سماعت کا منتظر ہے جبکہ فوجی آمر کی سزا کے خلاف درخواست پر چند دنوں میں فیصلہ ہوگیا۔
انہوں نے کہا کہ سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کے قاتل بھی اب تک گرفتار نہیں ہوئے۔
دوسری جانب ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے پی ایم ایل (ن) کے سینیٹر مشاہداللہ خان نے بھی خصوصی عدالت کے خلاف ہائی کورٹ کے فیصلے پر تحفظات کا اظہار کیا۔
یہ بھی پڑھیں: سنگین غداری کیس: خصوصی عدالت نے جنرل (ر) پرویز مشرف کو سزائے موت سنادی
ان کا کہنا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے باوجود وہ جسٹس وقار احمد سیٹھ کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں جنہوں نے سنگین غداری کیس میں جنرل (ر) پرویز مشرف کو سزا سنائی۔
سینیٹر مشاہداللہ نے کہا کہ پوری دنیا نے دیکھا کہ ’آمر جنرل مشرف‘ نے اپنے بوٹ تلے آئین کو منسوخ کیا اور سب نے یہ بھی دیکھا کہ فوجی حاکم نے پہلے سردار نواب اکبر بگٹی کو دھمکی دی اور پھر قتل کردیا۔
انہوں نے کہا کہ میڈیا نے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے ساتھ اسلام آباد کی سڑکوں پر ہونے والی بدسلوکی کی تصویر بھی دکھائی اور وہ جنرل (ر) پرویز مشرف ہی تھے جنہوں نے ججز کو نظر بند کیا۔
انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف نے 12 مئی 2007 کو کراچی میں لوگوں کے مرنے پر کیا رویہ اختیار کیا تھا، لوگوں کو اب بھی ان کی وہ تقریر یاد ہے جس میں انہوں نے اس وقت کہا تھا کہ ’کراچی میں طاقت کا مظاہرہ کیا گیا‘۔
مشاہداللہ خان نے کہا کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کے ’جرائم‘ کی فہرست خاصی طویل ہے، تاہم حیرت کی بات یہ ہے کہ تمام تر چیزوں کے باوجود ایسے لوگ موجود ہیں جو سمجھتے ہیں کہ مشرف کو سزا نہیں ہونی چاہیے۔
لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ
واضح رہے کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں موجود خصوصی عدالت کے 3 رکنی بینچ نے 17 دسمبر کو پرویز مشرف سنگین غداری کیس کے مختصر فیصلے میں انہیں آرٹیکل 6 کے تحت سزائے موت سنائی تھی۔
بعدازاں 27 دسمبر کو سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے اپنے خلاف سنگین غداری کیس میں اسلام آباد کی خصوصی عدالت کا فیصلہ لاہور ہائی کورٹ میں متفرق درخواست کے ذریعے چیلنج کیا تھا۔
مزید پڑھیں: غداری کیس کیخلاف درخواست: وفاقی حکومت سے خصوصی عدالت کی تشکیل کی سمری طلب
جس کی 13 جنوری 2020 کو ہونے والی سماعت میں لاہور ہائی کورٹ نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا فیصلہ سنانے والی خصوصی عدالت کی تشکیل کو غیر آئینی قرار دیا تھا۔
پرویز مشرف کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ نے خصوصی عدالت کی تشکیل کو غیر آئینی قراردیتے ہوئے کہا تھا کہ سابق صدر کے خلاف سنگین غداری کیس بھی قانون کے مطابق نہیں بنایا گیا۔
مزید برآں وفاقی حکومت اور پرویز مشرف دونوں کے وکلا کے مطابق خصوصی عدالت کی تشکیل غیر قانونی قرار دینے کے بعد سزائے موت کا فیصلہ بھی کالعدم تصور ہوگا۔