بلوچستان میں شدید برفباری، بارشوں کے باعث 14 افراد جاں بحق
کوئٹہ/اسلام آباد: بلوچستان میں جاری شدید برف باری اور بارشوں کے باعث صوبے کے مختلف علاقوں میں 14 افرد جاں بحق ہوگئے۔
اس کے علاوہ (رقبے کے لحاظ سے) ملک کے سب سے بڑے صوبے کا دنیا کے دیگر حصوں سے فضائی اور زمینی رابطہ بھی منقطع ہوگیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ملک کے زیادہ تر حصوں کو مغرب سے آنے والی تیز ہواؤں نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور محکمہ موسمیات کے مطابق خیبرپختونخوا، گلگت بلتستان اور کشمیر میں برفباری جبکہ بالائی اور وسطی پنجاب کے ساتھ ساتھ اسلام آباد میں پیر سے منگل تک موسلادھار بارش کا بھی امکان ہے۔
چیف میٹرولوجسٹ ڈاکٹر عظمت حیات خان کے مطابق کوئٹہ میں شدید برفباری نے 20 سالہ ریکارڈ توڑ دیا ہے جبکہ قلعہ سیف اللہ میں 3 سے 4 فٹ برف ریکارڈ کی گئی جو معمول کے مطابق ہونے والی ایک سے ڈیڑھ فٹ برفباری سے دُگنی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی میں نئے سال کی پہلی بارش، سردی میں اضافہ
ذرائع کے مطابق کوئٹہ ایئر پورٹ کے رن وے پر برفباری کے باعث سعودی عرب سے مسافروں کو کوئٹہ لانے والا ہوائی جہاز واپس پرواز نہ کرسکا۔
اسی طرح خیبرپختونخوا، پنجاب اور سندھ سے آنے والے بھی سیکڑوں مسافر بلوچستان کی مختلف شاہراہوں پر پھنس گئے، کوئٹہ سے کراچی جانے والی شاہراہ لک پاس ایریا پر بلاک ہوگئی جبکہ شدید برف باری کے باعث کوئٹہ سبی ہائی وے کو بھی کولپور اور مچھ کے مقام پر ٹریفک کے لیے بند کردیا گیا۔
سرکاری ذرائع کا کہنا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کو منسلک کرنے والے خوراک پاس پر شدید برف باری کے باعث کوئٹہ چمن شاہراہ پر بھی ٹریفک معطل ہوگیا۔
چنانچہ پاک افغان سرحد کے دونوں اطراف سازو سامان سے لدی سیکڑوں گاڑیاں اور ٹرکس رک گئے جس کی وجہ سے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ بھی معطل ہوگئی۔
مزید پڑھیں: کوئٹہ میں شدید برف باری سے نظام زندگی مفلوج
اس کے علاوہ خان مہترزئی میں پھنس جانے والے مسافروں کو فوجی اہلکاروں اور فرنٹیئر کور کے جوانوں نے نکالا اور شاہراہ سے برف صاف کی۔
تاہم دالبندین سے ماشکیل آنے والے مسافروں کو سیلاب اور موسلا دھار بارشوں کے باعث سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور اطلاع ملنے کے بعد ایف سی اہلکاروں نے لوگوں کو نکالنے کی کوشش کی تاہم راستے کی دشواری کے سبب اس مقام پر نہ پہنچ سکے جہاں عوام کی اکثریت ہفتے کی رات سے مدد کی منتظر تھی۔
دوسری جانب ضلع چاغی کے ڈپٹی کمشنر فتح خان کھجک کا کہنا تھا کہ جب وہ لیویز اہلکاروں کے ہمراہ 13 افراد کو ریسکیو کرنے کچھر پہنچے تو ان کی اپنی گاڑیاں بھی راستے میں پھنس گئی تھیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’کئی افراد اپنی گاڑیوں میں اب بھی امداد کا انتظار کررہے ہیں لیکن بدقسمتی سے ان علاقوں تک ہیلی کاپٹر کے علاوہ پہنچنا ممکن نہیں، (لہذا) انہوں نے صوبائی ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کو ہیلی کاپٹر فراہم کرنے کی درخواست کردی ہے‘۔
یہ بھی پڑھیں: بلوچستان: موسلادھار بارشوں، برف باری سے 6 افراد جاں بحق
دریں اثنا اطلاعات کے مطابق چمن کے سرحدی علاقوں بارشور، بوستان اور ضلع پشین میں مسلسل برف باری کے باعث کچے مکانات منہدم ہوگئے یا انہیں نقصان پہنچا۔
اس کے علاوہ مکران ڈویژن میں بھی شدید بارشوں کا سلسلہ جاری رہا اور گوادر اور کیچ کے علاقوں میں میرانی، شادی کور اور اکرا کور، سوارد اور بلار ڈیمز بھر گئے جس کے بعد ان کے اسپل ویز کھول دیے گئے۔
محکمہ موسمیات کے مطابق بلوچستان کے شمال مغربی علاقوں میں شدید بارشیں تربت، کیچ، پنجگور، قلات اور آوران میں سیلاب کا سبب بن سکتی ہیں جبکہ کوئٹہ، ہرنائی، زیارت، قلعہ عبداللہ اور پشین میں پیر کے روز بھی شدید برف باری کا امکان ہے۔
گلگت بلتسان میں برفباری، زلزلے کے جھٹکے
گلگت بلتستان کے ضلع استور میں گزشتہ دو ہفتے سے زلزلے کے جھٹکوں اور شدید برف باری کے باعث رہائشی شدید ذہنی اذیت کا شکار ہوگئے۔
31 دسمبر سے معمولی نوعیت کے زلزلوں کا سلسلہ جاری ہے، جس کی وجہ سے گھروں میں دراڑیں پڑگئی ہیں اور بونجی، ڈویان،شلتر، ڈاشکن، مشکن اور ہرچو کے علاقوں میں لوگ کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔
ڈسٹرکٹ ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کی جانب سے مقامی افراد کو خیمے تقسیم کیے گئے ہیں جبکہ متاثرین میں شامل بچے اور بوڑھے کئی بیماریوں میں مبتلا ہوگئے ہیں۔
متاثرین نے انتظامیہ سے خوراک اور علاج معالجے کی سہولیات فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
وزیراعلیٰ گلگت بلتستان کے کوآرڈینیٹر راجا شہزادہ حسین خان نے بتایا کہ گلگت بلتستان کی تحصیل جبلوٹ میں درجنوں گھر، ایک اسپتال اور اسکول زلزلے کے جھٹکوں سے متاثر ہوئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ گزشتہ دو ہفتوں سے جاری زلزلوں کے باعث ایک مقامی شہری ذہنی توازن بھی کھو بیٹھا ہے جبکہ شدید سردی کے باعث بچے اور بزرگ شہری نمونیا سمیت مختلف بیماریوں میں مبتلا ہورہے ہیں۔
انہوں نے حکومت کی جانب سے متاثرین کے لیے ہر ممکن امداد اور سہولیات پہنچانے کی یقین دہانی کرائی۔