امیر قطر کا دورہ ایران: 'تناؤ میں کمی اور مذاکرات ضروری ہیں'
قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی نے کہا ہے کہ اس حساس وقت میں علاقائی بحران کے حل کے لیے تناؤ میں کمی اور مذاکرات ضروری ہیں۔
واضح رہے کہ عراق میں امریکی ڈرون حملے میں ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد واشنگٹن اور تہران کے مابین شدید تناؤ کے پیش نظر قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی ایران کا دورہ کیا۔
خبررساں اداروں کے مطابق اپنے دورے میں انہوں نے ایران کے صدر حسن روحانی سے ملاقات کی۔
بعدازاں شیخ تمیم بن حمد الثانی نے قطر کو درپیش مشکل حالات میں فضائی اور زمینی راستہ فراہم کرنے پر تہران کا شکریہ بھی ادا کیا۔
واضح رہے کہ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے قطر کے خلاف 2017 کے وسط میں تجارتی بائیکاٹ کردیا گیا تھا۔
جس کے بعد ایران نے قطر کو تجارتی سرگرمیاں جاری رکھنے کے لیے فضائی اور زمینی راستہ فراہم کیا تھا۔
واضح رہے کہ قطر اور امریکا کے قریبی سفارتی تعلقات ہیں اور قطر میں امریکی فوجیوں کا سب سے بڑا فوجی اڈہ ہے۔
دوسری جانب قطر کے تہران کے ساتھ بھی مضبوط تعلقات ہیں، دونوں ممالک دنیا کا سب سے بڑا گیس فیلڈ کے حصہ دار ہیں۔
شیخ تمیم بن حمد الثانی نے ایرانی صدر حسن روحانی کے علاوہ ایران کے دیگر اعلیٰ سطح کی قیادت سے ملاقات کی۔
مزیدپڑھیں: عراق: امریکی فضائی حملے میں ایرانی قدس فورس کے سربراہ ہلاک
اس سے قبل قطر کے وزیر خارجہ محمد بن عبد الرحمٰن آل ثانی نے امریکا اور ایران کے مابین تنازع کے پرامن حل پر زور دیا تھا۔
قطر کے وزیر خارجہ نے امریکی ڈرون حملے کے فوری بعد تہران کا دورہ کیا تھا۔
سرکاری خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق شیخ تمیم بن حمد الثانی اتوار کی صبح 'سلطان قابوس کی ہلاکت پر اظہار تعزیت کے لیے دوحہ روانہ ہوئے'۔
یہ بھی پڑھیں: ایران کا کسی بھی جارحیت کی صورت میں امریکا کو مزید حملوں کا انتباہ
قطر کے ایران کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں جبکہ سعودی عرب اور تہران ایک دوسرے کو بڑا حریف سمجھتے ہیں، سعودی عرب، بحرین، متحدہ عرب امارات اور مصر نے 2017 میں قطر کے ساتھ تعلقات منقطع کردیے تھے۔
دوحہ پر شدت پسندوں کی پشت پناہی کرنے اور ایران کے بہت قریب ہونے کا الزام عائد کیا گیا تھا جس پر قطر نے سختی سے تردید کی تھی۔
واضح رہے کہ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ روز جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کے نتیجے میں ایران سے ہونے والی کشیدگی کے خاتمے اور عالمی سطح پر امن کے قیام کے لیے ایران کو مذاکرات کی غیر مشروط پیش کش کی تھی۔
گزشتہ ہفتے امریکی ڈرون حملے میں ایران کی قدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی ہلاک ہوگئے تھے جس کے بعد تہران نے امریکا کو سنگین نتائج کی دھمکی دی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: ایران کا جوابی وار، عراق میں امریکی فوجی اڈوں پر میزائل حملے
ایران نے سلیمانی کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے عراق میں موجود امریکی فوجی اڈوں پر 20 میزائل فائر کیے تھے اور ان حملوں میں 80 امریکی فوجیوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا تھا۔
تاہم اس کے برعکس امریکا نے ایرانی دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ حملوں میں امریکی فوج کا کسی بھی قسم کا جانی نقصان نہیں ہوا۔
ایران کی جانب سے غیر ارادی طور پر یوکرین کے طیارے کو نشانہ بنانے کے اعتراف کے بعد یوکرین کے صدر ولودومیر زیلینسکی نے تہران واقعے کے ذمہ داران کو سزا دینے اور معاوضہ ادا کرنے کا مطالبہ کردیا تھا۔
یوکرین کے صدر نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر لکھا تھا کہ 'ہم ایران کی جانب سے قصور واروں کو عدالت کے کٹہرے میں لانے کی توقع کرتے ہیں'۔
مزیدپڑھیں: ایران کا اعتراف : یوکرین نے ذمہ داروں کو سزا دینے اور معاوضے کا مطالبہ کردیا
دوسری جانب ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے بھی واقعے کا افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ایران کی مسلح افواج کو حکم دیا تھا کہ فوج میں موجود ان خامیوں کو دور کریں تاکہ مستقبل میں اس طرح کے حادثات سے بچا جا سکے۔
یاد رہے کہ امریکا سمیت متعدد ممالک نے یوکرین کے مسافر طیارے کی تباہی کا الزام ایران پر عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایران کا میزائل لگنے سے طیارہ تباہ ہوا اور ان کے پاس اس کے ثبوت بھی موجود ہیں۔