ایرانی عوام کے ساتھ ہیں، دوبارہ پرامن مظاہرین کا قتل نہیں چاہیے، امریکی صدر
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کو مزید قتل عام نہ کرنے کا انتباہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ یوکرین کا مسافر طیارہ مار گرانے کے ایرانی حکام کے اعتراف کے بعد ایران میں ہونے والے مظاہروں کا بغور جائزہ لے رہے ہیں۔
خبررساں اداروں کی رپورٹس کے مطابق ایران کی جانب سے یوکرین کا مسافر طیارہ مار گرائے جانے کے اعتراف کے بعد تہران میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے جبکہ مظاہرین اور اخبارات کی جانب سے ملک کی قیادت پر احتجاج کے ذریعے دباؤ بڑھایا جارہا ہے۔
مزید پڑھیں: ایران نے یوکرین کا مسافر طیارہ مار گرانے کا اعتراف کرلیا
ایران کی جانب سے طیارہ مار گرائے جانے کے اعتراف کے بعد گزشتہ روز دارالحکومت تہران اور دیگر شہروں میں ہزاروں افراد نے احتجاجی مظاہرہ کیا اور مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے آنسو گیس کا استعمال کیا۔
مظاہرین میں ایرانی قیادت کے خلاف شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے اور انہوں نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کی جانب اشارہ کرتے ہوئے 'آمر کو سزائے موت دو' کے نعرے بھی لگائے۔
ایک حکومتی عہدیدار نے خبر رساں ایجنسی رائٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج (12 جنوری کو) دارالحکومت میں احتجاج کے پیش نظر پولیس کی نفری کی تعداد بڑھا دی گئی ہے۔
ایران کے روزنامہ 'اعتماد' نے اتوار کو اپنے اخبار میں 'معافی مانگیں اور استعفیٰ دیں' کی سرخی لگاتے ہوئے کہا کہ عوام، طیارہ حادثے کے ذمے داران کے استعفیٰ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ایران میں مسافر طیارہ گر کر تباہ، 176 افراد ہلاک
گزشتہ روز ایران نے یوکرین کا طیارہ مار گرانے کا اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا کہ غیر ارادی طور پر ’انسانی غلطی‘ کی وجہ سے طیارے کو نشانہ بنایا گیا۔
ایرانی فوج نے سرکاری نشریاتی ادارے پر جاری بیان میں کہا تھا کہ رواں ہفتے کے آغاز میں تباہ ہونے والا یوکرینی طیارہ پاسداران انقلاب سے وابستہ حساس ملٹری سائٹ کے قریب پرواز کررہا تھا اور اسے انسانی غلطی کی وجہ سے غیر ارادی طور پر نشانہ بنایا گیا۔
ایران کے صدر حسن روحانی نے اسے ناقابل معاف غلطی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ فوجی تحقیقات میں پتہ چلا ہے کہ انسانی غلطی سے فائر ہونے والے میزائل کے نتیجے میں بوئنگ 737 طیارے کا حادثہ رونما ہوا۔
ہفتے کو حادثے کے متاثرین کو خراج عقیدت پیش کرنے والے طلبا کے احتجاج کے دوران حکام نے برطانوی سفیر کو حراست میں لے لیا تھا جسے برطانیہ نے عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا جس کے بعد سفیر کو رہا کردیا گیا تھا۔
ٹرمپ نے انگریزی اور فارسی میں کی گئی اپنی ٹوئٹ میں ایران کے عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں آپ کے ساتھ کھڑا ہوں اور مظاہروں کا جائزہ لے رہا ہوں۔
انہوں نے ٹوئٹ کی کہ بہادر اور ایک عرصے سے مصائب کا سامنے کرنے والے ایرانی عوام کے ساتھ میں اپنے دور صدارت کے آغاز کے وقت سے ہی کھڑا ہوں اور میری انتظامیہ آپ لوگوں کے ساتھ کھڑی رہے گی۔
انہوں نے گزشتہ برس نومبر میں ایرانی حکام کی جانب سے مظاہرین کے خلاف کی جانے والی کارروائی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پرامن مظاہرین کا دوبارہ قتل عام نہیں ہونا چاہیے نہ ہی انٹرنیٹ سروس بند کی جانی چاہیے۔
ٹرمپ نے کہا کہ ہم آپ کے احتجاج کا بغور جائزہ لے رہے ہیں اور آپ کی جرات سے بہت متاثر ہوئے ہیں۔
واضح رہے کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں گزشتہ سال نومبر میں عوام کی جانب سے کیے جانے والے احتجاج کے خلاف حکومتی کارروائی میں کم از کم 300 افراد کی ہلاکت کا دعویٰ کیا گیا تھا جبکہ اس دوران انٹرنیٹ سروس بھی بند کردی گئی تھی۔
علاوہ ازیں کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈیو نے مطالبہ کیا تھا کہ طیارہ گرائے جانے کے بعد ایران مکمل وضاحت پیش کرے، مذکورہ طیارے میں 57 کینیڈین باشندے بھی سوار تھے۔
مزید پڑھیں: عالمی رہنماؤں کا ایران پر یوکرین کا طیارہ مار گرانے کا الزام
دوسری جانب ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے بھی واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ایران کی مسلح افواج کو حکم دیا تھا کہ فوج میں موجود ان خامیوں کو دور کریں تاکہ مستقبل میں اس طرح کے حادثات سے بچا جا سکے۔
یاد رہے کہ امریکا سمیت متعدد ممالک نے یوکرین کے مسافر طیارے کی تباہی کا الزام ایران پر عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایران کا میزائل لگنے سے طیارہ تباہ ہوا اور ان کے پاس اس کے ثبوت بھی موجود ہیں۔
تاہم کئی دن انکار کے بعد ناقابل تردید شواہد سامنے آنے پر ایران نے اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے طیارہ گرانے کی غلطی مان لی تھی۔
یوکرین کا مسافر طیارہ 8 جنوری کو تہران کے امام خمینی انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے اڑان بھرنے کے چند منٹ بعد ہی گر کر تباہ ہو گیا تھا۔
یاد رہے کہ یہ حملہ ایک ایسے موقع پر کیا گیا تھا جب جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے طیارہ گرنے سے چند گھنٹے قبل ہی ایران کی جانب سے عراق میں موجود امریکی فوجی اڈوں کو 20میزائلوں سے نشانہ بنایا گیا تھا۔
کب کیا ہوا؟
3 جنوری کو امریکا کے ڈرون حملے میں ایران کی القدس فورس کے سربراہ اور انتہائی اہم کمانڈر قاسم سلیمانی مارے گئے تھے ان کے ساتھ عراقی ملیشیا کمانڈر ابو مہدی المہندس بھی حملے میں ہلاک ہوئے تھے۔
قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد مشرق وسطیٰ میں کشیدگی میں اضافہ ہوگیا تھا۔
جس کے بعد 8 جنوری کو ایران نے جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے جواب میں عراق میں امریکا اور اس کی اتحادی افواج کے 2 فوجی اڈوں پر 15 بیلسٹک میزائل داغے تھے اور 80 امریکی ہلاک کرنے کا دعویٰ بھی کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: ایران کی یوکرین اور بوئنگ کو طیارے کی تحقیقات میں شرکت کی دعوت
جس کے کچھ گھنٹے بعد اسی روز تہران کے امام خمینی ایئرپورٹ سے اڑان بھرنے والا یوکرین کا مسافر طیارہ گر کر تباہ ہوگیا تھا جس کے نتیجے میں طیارے میں سوار تمام 176 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
یوکرینی وزیراعظم نے طیارے میں 176 افراد سوار ہونے کی تصدیق کی تھی جس میں 167 مسافر اور عملے کے 9 اراکین شامل تھے۔
یوکرینی وزیر خارجہ نے بتایا تھا کہ طیارے میں 82 ایرانی، 63 کینیڈین، سویڈش، 4 افغان، 3 جرمن اور 3 برطانوی شہری جبکہ عملے کے 9 ارکان اور 2 مسافروں سمیت 11 یوکرینی شہری سوار تھے۔
9 جنوری کو ایران نے حادثے میں تباہ ہونے والے یوکرین کے مسافر طیارے کے حوالے سے ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ دوران سفر مسافر طیارے میں آگ بھڑک جانے کے بعد مدد کے لیے ایک ریڈیو کال بھی نہیں کی گئی جبکہ طیارے نے ایئرپورٹ کے لیے واپس جانے کی کوشش کی تھی۔
ایرانی تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ تہران کے امام خمینی بین الاقوامی ہوائی اڈے سے پرواز کے کچھ ہی منٹ کے بعد یوکرین انٹرنیشنل ایئرلائن کے بوئنگ 737 میں اچانک ہنگامی صورتحال پیدا ہوگئی اور وہ گر کر تباہ ہوگیا تھا۔
مزید پڑھیں: ایران کا جوابی وار، عراق میں امریکی فوجی اڈوں پر میزائل حملے
خیال رہے کہ حادثے کے بعد عالمی رہنماؤں نے طیارہ حادثے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ایران پر طیارے کی تباہی کا الزام عائد کیا تھا۔
کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے دعویٰ کیا تھا کہ ہمارے پاس اس بات کے ثبوت ہیں کہ طیارہ ایران کے زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل سے تباہ ہوا جبکہ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن اور ان کے آسٹریلین ہم منصب اسکاٹ موریسن نے بھی اسی طرح کے بیانات دیے تھے۔
علاوہ ازیں 9 جنوری کو نیویارک ٹائمز نے ایک ویڈیو پوسٹ کی تھی، جس میں ایران میں یوکرینی طیارے پر میزائل فائر کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا، ساتھ ہی انہوں نے اس ویڈیو کی تصدیق کا بھی دعویٰ کیا تھا۔
بعدازاں ایران نے تباہ ہونے والے یوکرین کے طیارے کی تحقیقات میں بوئنگ اور یوکرین دونوں کو شرکت کی دعوت دی تھی۔