خالد مقبول صدیقی کا وزارت آئی ٹی چھوڑنے کا اعلان
متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے کنوینر خالد مقبول صدیقی نے وفاقی کابینہ سے علیحدہ ہونے کا اعلان کردیا۔
کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے کنوینر خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ حکومت کا ہر مشکل مرحلے میں ساتھ دینے کا وعدہ پورا کیا ہے اور آئندہ بھی پورا کریں گے تاہم میرے وزارت میں بیٹھنے سے کراچی کے عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہورہا۔
ان کا کہنا تھا کہ 'حکومت کا حصہ بنے تو ہم پر یہ لازم تھا کہ 50 سال سے سندھ کے شہری علاقوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو حکومت کے سامنے رکھتے'۔
انہوں نے کہا کہ 'پاکستان میں جمہوریت کے استحکام، میرٹ کے قیام، انصاف اور سندھ کے شہری علاقوں کو ان کے حقوق دلانے کے لیے 2 مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے تھے'۔
مزید پڑھیں: ‘ایم کیو ایم کو بلاول کی پیشکش سے لگتا ہے سندھ حکومت خطرے میں ہے’
ایم کیو ایم کے رہنما کا کہنا تھا کہ 'ہم نے تحریک انصاف سے وعدہ کیا تھا کہ ہم آپ کو حکومت بنانے میں مدد کریں گے اور ہر مشکل مرحلے میں ساتھ دیں گے، ہم نے اپنا وعدہ پورا کیا ہے اور آئندہ بھی کریں گے'۔
ان کا کہنا تھا کہ '16سے 17 مہینوں بعد بھی اگر کسی ایک نکتے پر پیش رفت نہ ہوئی کہ اطمینان ہوجائے مگر اس مرحلے پر ایک نقطہ آگیا ہے'۔
انہوں نے کہا کہ 'سندھ کے تیسرے بڑے شہر حیدر آباد کو ہم 70 سال سے ایک یونیورسٹی نہیں دے سکے، اس کے لیے پیش رفت ہوئی مگر صرف کاغذوں کی حد تک ہی ہوسکی'۔
خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ 'میرے لیے ایسی صورت حال میں وزارت میں بیٹھنا مشکل ہوجاتا ہے کہ حکومت میں بیٹھے رہیں اور سندھ کے شہری علاقوں کے عوام انہی مشکلات کا سامنا کرتے رہیں جن کا وہ ہمارے حکومت میں آنے سے قبل سامنا کر رہے تھے'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ہم نے جو حکومت سے تعاون کا وعدہ کیا تھا وہ ہم دیتے رہیں گے تاہم میرا وزارت میں بیٹھنا بہت سارے سوالات کو جنم دے رہا ہے'۔
انہوں نے کہا کہ 'ہمیں سنجیدگی کی کمی نے اس اقدام پر مجبور کیا ہے اور رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں فیصلہ کیا کہ میرا وزارت میں بیٹھنا بے سود ہے'۔
ایم کیو ایم کے کنوینر کا کہنا تھا کہ 'گزشتہ دنوں کہیں اور سے بھی وزارتوں کی پیش کش ہوئی تھی تاہم آج کے اعلان کا اس سے کوئی تعلق نہیں'۔
'وزارت قانون مانگی اور نہ ہی فروغ نسیم کا نام وزارت کے لیے دیا'
ان کا مزید کہنا تھا کہ 'ہم نے وزارت قانون و انصاف مانگی تھی اور نہ ہی ہم نے جو نام دیے تھے ان میں فروغ نسیم کا نام شامل تھا تاہم ہمیں بتایا گیا کہ پاکستان میں جمہوریت، قانون، انصاف اور احتساب کے عمل کے لیے انہیں فروغ نسیم کی ضرورت ہے'۔
یہ بھی پڑھیں: 'ایم کیو ایم وفاقی حکومت گرانے میں ساتھ دے، سندھ میں وزارتیں دینے کو تیار ہیں'
انہوں نے کہا کہ 'حکومت کے اتحادی ہیں اور اس کے ساتھ تعاون کرتے رہیں گے تاہم اس کا میرے وزارت میں نہ رہنے سے کوئی تعلق نہیں'۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جہانگیر ترین کی موجودگی میں ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کے درمیان بنی گالہ اور بہادر آباد میں معاہدے ہوئے تھے تاہم اس کے نکات میں سے ایک پر بھی پیش رفت نہیں ہوئی ہے'۔
انہوں نے کہا کہ 'حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق کراچی نے 89 فیصد ٹیکس دیا ہے اور اسے اپنے پیسے مانگنے پڑ رہے ہیں'۔
خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ 'جو شہر ہزاروں ارب روپے دے چکا ہے اسے ایک ارب دینے کے لیے اتنی تکلیف ہوتی ہے'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'اگر پاکستان کا کوئی خفیہ آئین بنا ہوا ہے جو اس شہر کو کچھ دینے سے روکتا ہے تو ہمیں آگاہ کیا جائے'۔
خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ 'ایم کیو ایم نے 2018 کے انتخابی نتائج کو تسلیم نہیں کیا تھا'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ایم کیو ایم نے جمہوری مرحلے کی ہمیشہ غیر مشروط حمایت کی، ہم نے تمام تر دباؤ کے باوجود بے نظیر کی حکومت کی بھی حمایت کی تھی'۔
انہوں نے کہا کہ '2018 میں حکومت نے جمہوریت آگے بڑھانے کے لیے تعاون مانگا تھا اور ہم نے بغیر کسی شرط کے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی جماعت کی مدد کی تھی'۔
واضح رہے کہ کچھ عرصہ قبل ہی چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری نے کراچی کے علاقے لانڈھی اور کورنگی میں ترقیاتی منصوبوں کی افتتاحی تقریب میں ایم کیو ایم پاکستان کو کراچی کی بہتری کے لیے پی ٹی آئی کا اتحاد ختم کرکے سندھ حکومت میں وزارتیں لینے کی پیشکش کی تھی۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم پرانے ساتھی ہیں اور کراچی میں ترقیاتی کام کے لیے وفاقی حکومت سے فنڈز نہیں ملتے اس لیے پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت کو گرانے میں ہمارا ساتھ دیں تو انہیں سندھ میں وزارتیں دی جائیں گی۔
ان کا کہنا تھا کہ کراچی کے ساتھ جو ظلم ہورہا ہے اس کو روکا جاسکتا ہے، جس کے لیے ایم کیو ایم وفاقی حکومت سے اتحاد ختم کرے اور عمران خان کی حکومت کو گرا دیں۔
بعد ازاں میئر کراچی وسیم اختر نے اس پر ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس پر ہماری پارٹی سوچ سکتی ہے کیونکہ یہ کسی کا انفرادی معاملہ نہیں ہے۔
بعد ازاں ایم کیو ایم پاکستان نے بلاول بھٹو زرداری کی پیشکش کو باضابطہ طور پر مسترد تو نہیں کیا تاہم اسے 'غیر سنجیدہ کوشش' قرار دیا تھا۔