ایئر مارشل ارشد ملک کا بطور سی ای او پی آئی اے بحالی کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع
پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کے چیف ایگزیکٹو افسر (سی ای او) ایئرمارشل ارشد ملک نے اپنے خلاف سندھ ہائی کورٹ کا عبوری فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا۔
سی ای او پی آئی اے نے سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے انہیں کام سے روکنے کے عبوری حکم نامے کے خلاف اپیل دائر کردی، جس میں وفاق، کابینہ ڈویژن اور وزارت سول ایوی ایشن کو فریق بنایا گیا ہے۔
عدالت عظمیٰ میں دائر درخواست میں موقف اپنایا گیا کہ کابینہ ڈویژن نے اکتوبر 2018 میں پی آئی اے میں عبوری تقرر کیا۔
ساتھ ہی اپیل میں یہ موقف اپنایا گیا کہ درخواست گزار کو قومی ایئرلائن کی بحالی اور خسارہ ختم کرنے کے لیے لایا گیا، تاہم سندھ ہائیکورٹ کا کام سے روکنے کا حکم کسی قانونی اتھارٹی کے بغیر دیا گیا۔
خیال رہے کہ 31 دسمبر 2019 کو سندھ ہائی کورٹ نے قومی ایئر لائن کے چیف ایگزیکٹو افسر ایئر مارشل ارشد ملک کو کام کرنے سے روک دیا تھا اور ادارے میں نئی بھرتیوں، ملازمین کو نکالنے اور تبادلے پر بھی پابندی لگادی تھی۔
سندھ ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے ایئر مارشل ارشد ملک کو کام کرنے اور پی آئی اے میں خرید و فروخت، پالیسی سازی اور ایک کروڑ سے زائد کے اثاثے بھی فروخت کرنے سے روک دیا تھا۔
علاوہ ازیں عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل کو 22 جنوری کے لیے نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کر لیا تھا۔
واضح رہے کہ ایئر مارشل ارشد ملک کے خلاف ایئر لائنز سینئر اسٹاف ایسوسی ایشن (ساسا) کے جنرل سیکریٹری صفدر انجم نے عدالت میں درخواست دائر کی تھی جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ اس عہدے کے لیے ایئر مارشل ارشد ملک تعلیمی معیار پر پورا نہیں اترتے اور ان کا ایئر لائن سے متعلق کوئی تجربہ نہیں ہے۔
درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ ایئر مارشل ارشد ملک نے 1982 میں بی ایس سی کیا اور اس کے بعد وار اسٹیڈیز سے متعلق تعلیم حاصل کی، تاہم انہیں ایئر لائن انڈسٹری اور کمرشل فلائٹس سے متعلق سول ایویشن قوانین سے کچھ آگاہی نہیں ہے۔
اس ضمن میں مزید کہا گیا تھا کہ ایئر مارشل ارشد ملک کی تعیناتی میں پبلک سیکٹر کمپنیز رولز 2013 اور رول 2 اے کو قطعی طور پر نظر انداز کیا گیا جس کے تحت سی ای او تعینات کیے جاتے ہیں۔
تاہم یہاں یہ بات مدنظر رہے 21 جنوری 2019 کو لاہور ہائی کورٹ نے قومی ایئر لائن کے سی ای او ایئر مارشل ارشد ملک کی تعیناتی قانون کے مطابق قرار دی تھی۔