متنازع شہریت قانون کےخلاف احتجاج کرنے پرخواتین کوگھر سے نکال دیا گیا
بھارت میں گزشتہ ماہ دسمبر کے آغاز میں بنائے گئے متنازع شہریت قانون کے خلاف اب تک مظاہرے جاری ہیں اور ان میں ہر آئے دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
متنازع شہریت قانون کے تحت 31 دسمبر 2014 سے قبل پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے آنے والے ’ہندو، عیسائی، سکھ، بدھ مت اور جین‘ مذاہب کے پیروکاروں کو شہریت دی جائے گی۔
مذکورہ قانون میں مسلمانوں کو شامل نہ کیے جانے کے خلاف بھارت بھر میں مظاہرے جاری ہیں اور اب تک مظاہروں میں 30 کے قریب افراد ہلاک جب کہ درجنوں زخمی ہوچکے ہیں۔
متنازع شہریت قانون کے خلاف ہونے والے مظاہروں کے دوران اب تک 1500 کے قریب افراد کو گرفتار بھی کیا جا چکا ہے جب کہ مظاہروں کو روکنے کے لیے بھارتی حکومت طاقت کا استعمال بھی کر رہی ہے۔
بھارت: متنازع شہریت قانون کے خلاف آواز اٹھانے والی بہادر سماجی رہنما صدف جعفر
متنازع شہریت قانون کے خلاف مظاہرہ کرنے والی نئی دہلی کی خواتین کے خلاف بھی طاقت کا استعمال کیا گیا اور انہیں گھر سے ہی بے دخل کردیا گیا۔
بھارتی اخبار ’انڈین ایکسپریس‘ کے مطابق نئی دہلی کے علاقے لاجپت نگر میں وزیر داخلہ امیت شاہ کے سامنے متنازع شہریت قانون کے خلاف احتجاج کرنے والی خواتین کو گھر سے نکال دیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق خواتین نے اپنے کرائے کے فلیٹ کی بالکونی سے متنازع شہریت قانون کے خلاف احتجاجی بینر لٹکایا تو امیت شاہ کے ساتھ آئے لوگوں کو غصہ آگیا اور انہوں نے خواتین کے فلیٹ پر حملہ کردیا۔
متنازع شہریت قانون کے خلاف احتجاج ریکارڈ کروانے والی خواتین میں سے ایک خاتون کا تعلق ریاست کیرالہ سے تھا اور انہوں نے بتایا کہ احتجاج کرنے پر 150 افراد نے ان کے فلیٹ پر حملہ کیا۔
مذکورہ خاتون سوریہ راجاپن نے بتایا کہ انہوں نے متنازع شہریت قانون کے خلاف اس وقت احتجاج ریکارڈ کرانے کا سوچا جب انہیں معلوم ہوا کہ وزیر داخلہ امیت شاہ ان کے خلاف میں متنازع قانون کی حمایت میں ایک ریلی نکالنے والے ہیں۔
مزید پڑھیں: شہریت قانون کے خلاف جامع مسجد کے باہر مظاہرے، 'دلت رہنما' گرفتار
خاتون کے مطابق جب امیت شاہ کی ریلی ان کے فلیٹ کے سامنے سے گزری تو انہوں نے بالکونی سے احتجاجی بینر لٹکایا جس پر ’متنازع شہریت قانون‘ کے خلاف نعرے سمیت ’جے ہند‘ اور ’آزادی میرا نام نہیں‘ کے نعرے درج تھے۔
خاتون کا کہنا تھا کہ احتجاج ریکارڈ کروانا ان کا جمہوری حق تھا اور اگر وہ وزیر داخلہ کے سامنے احتجاج ریکارڈ نہ کرواپاتیں تو وہ خود کو کبھی بھی معاف نہیں کر پاتیں۔
سوریہ راجاپن کے مطابق تاہم احتجاج ریکارڈ کروانے کی انہیں بہت بڑی سزا دی گئی اور 150 افراد نے ان کے فلیٹ کو گھیرے میں لے کر انہیں دھمکیاں دینا شروع کیں۔
خاتون نے دعویٰ کیا کہ فلیٹ پر حملہ کرنے والے افراد میں ان کے مالک مکان بھی شامل تھے اور انہیں کئی گھنٹوں تک فلیٹ میں محسور رکھا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت: متنازع شہریت قانون کےخلاف پُرتشدد مظاہرے، متعدد افراد ہلاک
خاتون کے مطابق انہوں نے اپنے فلیٹ پر بھیڑ کے حملے کی اطلاع پولیس کو دی اور کئی گھنٹوں بعد ہی وہ پولیس کی مدد سے فلیٹ سے باحفاظت باہر نکلیں۔
سوریہ راجاپن نے بتایا کہ متنازع شہریت قانون کے خلاف احتجاج ریکارڈ کروانے کے بعد مالک مکان نے انہیں کرائے کے فلیٹ سے نکال دیا اور وہ سامان لے کر وہاں سے شفٹ ہوگئیں۔
دوسری جانب خواتین کے مالک مکان نے بھی انہیں گھر سے نکالے جانے کی تصدیق کی اور اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ انہوں نے مذکورہ خواتین کو گھر کرائے پر دیا تھا۔
مالک مکان کے مطابق انہیں اس بات کا علم نہیں کہ مذکورہ خواتین کہاں گئیں تاہم انہوں نے انہیں گھر سے نکالے جانےکی تصدیق کی۔