اقوام متحدہ امریکا اور ایران کے درمیان کشیدگی کے خاتمے میں کردار ادا کرے، وزیر خارجہ
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ امریکا اور ایران کے درمیان کشیدگی کے خاتمے میں کردار ادا کرے
ریڈیو پاکستان کی رپورٹ کے مطابق امریکی افواج پر ایران کے میزائل حملوں کے بعد سرکاری نشریاتی ادارے پی ٹی وی سے بات چیت کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا پاکستان خطے میں امن اور استحکام کا خواہش مند ہے اور اسے برقرار رکھنے میں اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان خطے میں کشیدگی نہیں چاہتا کیونکہ خطہ کسی نہیں جنگ کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
امریکا اور ایران کے درمیان کشیدگی سے متعلق سوال کے جواب میں وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ سے خطے کے مفاد میں دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کے خاتمے میں کردار ادا کرنے پر زور دیا۔
مزید پڑھیں: ایران کا جوابی وار، عراق میں امریکی فوجی اڈوں پر میزائل حملے
وزیر خارجہ نے کہا کہ عراق کی پارلیمنٹ نے ایک قرارداد منظور کی تھی جس میں امریکی فوجیوں کے انخلا کا مطالبہ کیا گیا تھا اس پر امریکا نےردعمل بھی دیا تھا۔
ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کے بیان کو سراہتے شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ میں سمجھتا ہوں کہ ان کے بیان میں ایک سنجیدگی اور ٹھہراؤ تھاجو دانشمندی کا مظہر ہے‘۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ امریکہ کو بھی محتاط رہنا چاہیے۔
وزیر خارجہ نے بتایا کہ موجودہ صورتحال کے پیشِ نظر میرے خطے کے مختلف وزرائے خارجہ سے روابط ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم سب کی کوشش ہے کہ خطے میں کشیدگی میں اضافہ نہ ہو صورتحال میں ٹھہراؤ پیدا ہو کیونکہ یہ خطہ کشیدگی اور جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا جنگ کسی کے مفاد میں نہیں اس کے عالمی معیشت پر اثرات مرتب ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان سمیت مختلف ممالک کی شہریوں کو عراق کا سفر نہ کرنے کی ہدایت
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ امریکا میں بھی ایک بہت بڑا طبقہ جنگ کا حامی نہیں ہے اور امریکی افواج کو ایک نئی جنگ میں جھونکنے کا خواہشمند نہیں ہے سو دونوں آراء اس وقت موجود ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی خواہش یہی ہے کہ حالات نہ بگڑیں اور یہ خطہ جنگ کی نئی دلدل میں نہ پھنس جائے، پاکستان امن کا خواہاں ہے پاکستان سمجھتا ہے کہ ان معاملات کو گفت وشنید کے ذریعے حل ہونا چاہیے
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اس وقت معاملات بگڑ رہے ہیں کشیدگی آر ہی ہے اور ان حالات میں بردباری کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت دونوں ممالک کو جذبات میں آنے کی ضرورت نہیں ہے جذباتی ردعمل خطے اور اس سے دوچار ہونے والے ممالک کے لیے نقصان دہ ہوسکتا ہے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ عراق کی صورتحال نازک ہوسکتی ہے وہاں کشیدگی میں اضافہ ہوسکتا ہے، وہ پہلے ہی 2018 کے انتخابات کے بعد معاشی مشکلات سمیت مختلف مسائل سے دوچار ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ایران کا کسی بھی جارحیت کی صورت میں امریکا کو مزید حملوں کا انتباہ
خیال رہے کہ ایران نے گزشتہ شب ڈیڑھ بجے عراق میں 2 فوجی اڈوں پر درجن سے زائد میزائل داغتے ہوئے امریکی افواج کو نشانہ بنایا۔
ایران کے سرکاری ٹیلی ویژن کے مطابق ایران کے اسلامی پاسداران انقلاب نے قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے جواب میں راکٹ فائر کرنے کی تصدیق کی تھی۔
بعدازاں پینٹاگون کے ترجمان جوناتھن ہوفمین نے ایک بیان میں کہا تھا کہ عراق میں عین الاسد فضائی اڈے اور اربیل میں ایک اور اڈے کو نشانہ بنایا گیا، ہم لڑائی سے ہونے والے نقصانات کے ابتدائی جائزے پر کام کررہے ہیں‘۔
واضح رہے کہ 6 جنوری کو سینیٹ میں حالیہ امریکا-ایران کشیدگی سے وزیر خارجہ نے پاکستان کی خارجہ پالیسی پر بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘پاکستان کی سرزمین کسی دوسری ریاست کے خلاف استعمال نہیں ہوگی اور ہم خطے کے اس تنازع میں فریق نہیں بنیں گے’۔
وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ حکومت پاکستان کی خود مختاری پر سمجھوتہ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی جبکہ ہم طاقت کے استعمال اور یکطرفہ کارروائیوں کی حمایت نہیں کریں گے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ 'امریکا کی طرف سے ایرانی کمانڈر پر حملے کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے اور یہ خطے اور دنیا کے امن و سلامتی کے لیے تباہ کن ثابت ہوگا۔'
ایرانی جنرل کی ہلاکت
خیال رہے کہ 3 جنوری کو عراق کے دارالحکومت بغداد میں ایئرپورٹ کے نزدیک امریکی فضائی حملے میں پاسداران انقلاب کی قدس فورس کے سربراہ میجر جنرل قاسم سلیمانی ہلاک ہوگئے تھے۔
بعدازاں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد ان کے نائب اسمٰعیل قاآنی کو پاسداران انقلاب کی قدس فورس کا سربراہ مقرر کردیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: عراق: امریکی فضائی حملے میں ایرانی قدس فورس کے سربراہ ہلاک
6 جنوری کو ایران کے دارالحکومت تہران میں ایرانی فوجی کمانڈر قاسم سلیمانی کی نماز جنازہ ادا کردی گئی جس میں عوام کی بڑی تعداد نے شریک کی۔
7 جنوری کو جنرل قاسم سلیمانی کا جسدِ خاکی تدفین کے لیے ایرانی علاقے کرمان پہنچایا گیا تھا جہاں بھگدڑ کے نتیجے میں 50 افراد ہلاک ہوگئے جبکہ 60 کے زخمی ہونے کی اطلاعات تھیں جس کے بعد ایرانی فوجی کمانڈر کی تدفین آج (8 جنوری) کردی گئی۔