قصور: 500 روپے کے عوض 12 سالہ بیٹی کو فروخت کرنے کے الزام میں باپ پر مقدمہ
قصور میں ایک شخص نے مبینہ طور پر دوسرے فرد سے چند روپے وصول کرکے اپنی نابالغ بیٹی کا جنسی استحصال کرنے کی اجازت دے دی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پولیس نے بچی کی والدہ کی شکایت پر دونوں ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کرلیا جبکہ ڈی پی او زاہد نواز مروت نے ملزمان کی گرفتاری کے لیے سی آئی اے حکام پر مشتمل ٹیم تشکیل دے دی۔
بچی کی والدہ کی جانب سے تھانے میں دائر کی گئی شکایت کے مطابق ان کے شوہر نے ایک شخص کو گھر میں بلایا اور اسے 500 روپے کے بدلے اپنی 12 سالہ بیٹی کا جنسی استحصال کرنے کی اجازت دی۔
مزید پڑھیں: بھارتی فلم ساز کا ’ریپ‘ کو قانونی قرار دینے کا مطالبہ
درج کردہ شکایت میں والدہ نے بتایا کہ وہ گھر سے دور کام پر گئی ہوئی تھیں جب یہ واقعہ ہوا۔
انہوں نے کہا کہ جب وہ کام سے واپس گھر آئیں تو ان کی بیٹی نے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کے بارے میں انہیں بتایا جبکہ دونوں ملزمان فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔
بعد ازاں پولیس نے طبی معائنے کے لیے متاثرہ لڑکی کو پتوکی تحصیل ہیڈکوارٹرز ہسپتال منتقل کیا، جہاں انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ واقعہ ریپ کی کوشش کا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ’گینگ ریپ‘ کا ڈراما رچانے پر 19 سالہ لڑکی کو سزا کا سامنا
واضح رہے کہ والد کو رقم دینے والے ملزم پر اس سے قبل 2013 میں بچوں پر تشدد کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
علاوہ ازیں پولیس نے تعزیرات پاکستان کی دفعہ 376 (ریپ)، 371-اے (کسی شخص کو جسم فروشی کے لیے فروخت کرنا)، 371-بی (کسی شخص کو جسم فروشی کے لیے خریدنا) کے تحت نیا مقدمہ درج کرکے ملزمان کو گرفتار کرنے کے لیے چھاپوں کا سلسلہ شروع کردیا۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ گزشتہ کچھ برسوں میں قصور بچوں کے ریپ اور زیادتی کے واقعات سے لرز اٹھا ہے۔
جنوری 2018 میں 5 روز سے لاپتہ رہنے کے بعد 6 سالہ بچی زینب انصاری کی لاش قصور میں شہباز خان روڈ کے قریب کچرے کے ڈھیر سے ملی تھی، جس کے بعد ملک بھر میں مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا اور لوگوں کی جانب سے ان واقعات میں ملوث لوگوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ سامنے آیا تھا۔
زینب کے کیس کے مرکزی ملزم عمران علی کو 23 جنوری 2018 کو گرفتار کرلیا گیا تھا اور 12 جون کو عدالت عظمیٰ نے ملزم کی سزائے موت کے خلاف اپیل کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملزم نے 8 دیگر بچوں کے ساتھ اسی طرح کا جرم کیا، بعد ازاں عمران علی کو گزشتہ برس اکتوبر میں پھانسی دے دی گئی تھی۔
اس سے قبل 2015 میں قصور کے حسین خان والا گاؤں نے دنیا بھر کی توجہ اس وقت حاصل کی تھی جب وہاں چائلڈ پورنوگرافی کا معاملہ سامنے آیا تھا، اس وقت سیکڑوں ایسی ویڈیو کلپس سامنے آئی تھیں جس میں ایک گروپ کم عمر لڑکے اور لڑکیوں کو جنسی عمل کرنے اور اس کی فلم بندی کرنے پر مجبور کرتا تھا۔
یہ گروپ ان ویڈیوز کو ان بچوں کے اہل خانہ کو بلیک میل کرنے کے لیے استعمال کرتا تھا اور ان سے لاکھوں روپے نقد اور جیولری کی صورت میں وصول کرتا تھا۔