دوست تو بدلے جا سکتے ہیں لیکن ہمسائے نہیں، فردوس عاشق اعوان
وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے خطے کی موجودہ کشیدہ صورتحال کے حوالے سے تبادلہ خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کے مفاد کی حفاظت کرنا ہماری ذمہ داری ہے اور کوئی بھی فیصلہ پاکستانی مفادات کو مدنظر رکھ کر کیا جائے گا۔
سیالکوٹ میں نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ ایران ہمارا برادر اسلامی ملک اور ہمسایہ ہے اور خطے میں جب کبھی بھی کڑا وقت آیا تو ہم نے مشاورت اور مذاکرات کے ذریعے اس چیلنج کا مقابلہ کیا۔
مزید پڑھیں: پاکستان اپنی سرزمین کسی کے خلاف استعمال ہونے کی اجازت نہیں دے گا، ڈی جی آئی ایس پی آر
ان کا کہنا تھا کہ دوست تو بدل سکتے ہیں لیکن ہمسائے نہیں بدلے جا سکتے، ہمیں پاکستان کا مفاد سب سے زیادہ عزیز ہے، پاکستان کے مفاد کی حفاظت کرنا ہماری ذمہ داری ہے اور کوئی بھی فیصلہ پاکستانی مفادات کو مدنظر رکھ کر کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کل سینیٹ میں حکومتی ترجیحات پر پالیسی بیان دیں گے اور وہ پاکستان کے قومی مفاد سے جڑی تمام تر ترجیحات کے بارے میں آگاہ کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت اور وزیر اعظم پاکستان کا بہت واضح موقف ہے کہ ہم اس خطے میں امن کے داعی بنے ہیں اور افغان امن عمل کا حل بھی خطے میں امن سے وابستہ ہے، اگر خطہ بدامنی کا شکار ہو گا تو افغان امن عمل بھی متاثر ہو گا جو کسی کے بھی مفاد میں نہیں اور ہمیں امن کو فروغ دینا ہے۔
آرمی ایکٹ میں ترمیم کے حوالے سے فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ اپوزیشن نے پارلیمنٹ کی ڈیفنس کمیٹی میں اس بل کی مخالفت نہ کر کے جس بردباری اور سمجھداری کا مظاہرہ کیا ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ اس کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے کیونکہ یہ کسی جماعت کے نہیں بلکہ قوم کے ادارے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ایرانی جنرل کی ہلاکت: آرمی چیف سے امریکی سیکریٹری خارجہ کی ٹیلی فونک گفتگو
انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے قومی اداروں پر سیاست کرنے سے گریز کرنا چاہیے اور مجھے امید ہے کہ اپوزیشن جماعتیں پارلیمنٹ میں لائحہ عمل تیار کر کے یکجہتی کے ساتھ ان ترامیم کو منظور کریں گی تاکہ پاکستان میں حاصل ہونے والے معاشی استحکام کو آگے بڑھایا جا سکے۔
فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ اگر اپوزیشن کو ترمیم کے حوالے سے کچھ تحفظات ہیں تو حکومت ان کے ساتھ بیٹھ کر اس معاملے کو قانون کے مطابق دیکھنے کے لیے تیار ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم اسے متفقہ قانون سازی بنانا چاہتے ہیں اور ہم یہ نہیں چاہتے کہ اپوزیشن کے کسی بھی قسم کے تحفظات باقی رہ جائیں لیکن اپوزیشن کو بھی کسی بھی ایسے اقدام سے گریز کرنا چاہیے جس سے ہماری یکجہتی کی فضا خراب ہو اور قومی مفاد کو زد پہنچے۔
معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ ہم سب نے مل کر پارلیمنٹ کو تقویت دینی ہے اور یہ اس لحاظ سے بھی اہم قانون سازی ہے کہ اس میں وزیر اعظم کا اختیار عدالت نے واپس پارلیمنٹ کو دے دیا ہے اور آئینی طور پر وزیر اعظم قومی سلامتی کے ذمہ دار ہیں لہٰذا جس پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے، اختیار بھی اسی کے پاس ہوتا ہے۔
مزید پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ کی ایران کو جوابی کارروائی کرنے پر 52 اہداف کو نشانہ بنانے کی دھمکی
ان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کی بالادستی اور اداروں کو تقویت دینے کے لیے سیاست سے آزاد ہو کر قومی مفاد میں اس قانون کو منظور ہونا چاہیے اور اس پر کوئی دوسری رائے نہیں ہونی چاہیے۔
مولانا فضل الرحمٰن کے آرمی ایکٹ کے حوالے سے بیان پر کیے گئے سوال پر وزیر اعظم کی معاون خصوصی نے کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن ایک زیرک اور منجھے ہوئے سیاستدان ہیں اور ان کی رائے ہمارے لیے قابل احترام ہے۔
فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمٰن بھی قومی مفاد کے ساتھ جوڑا جائے اور اگر انہیں کچھ تحفظات ہیں تو حکومت بات چیت کے ذریعے ان تحفظات کو دور کرنے کے لیے تیار ہے کیونکہ یہ کوئی سیاسی قانون سازی نہیں ہو رہی اور نہ ہی کسی جماعت کا ایجنڈا ہے بلکہ یہ کس قوم کے وقار اور بقا کا ایجنڈا ہے تاکہ اس ملک میں استحکام ہو۔
واضح رہے کہ ایوانِ زیریں میں پاک آرمی ایکٹ 1952، پاک فضائیہ ایکٹ 1953 اور پاک بحریہ ایکٹ 1961 میں ترامیم کے لیے علیحدہ علیحدہ بل وزیر دفاع پرویز خٹک نے پیش کیے تھے۔
یہ تینوں بل پاکستان آرمی (ترمیمی) ایکٹ 2020، پاکستان ایئرفورس (ترمیمی) ایکٹ اور پاکستان بحریہ (ترمیمی) ایکٹ 2020 کے نام سے اسمبلی میں پیش کیے گئے۔
ترامیمی بلز کو پیش کرنے کا مقصد سپریم کورٹ کی جانب سے 28 نومبر کو دیے گئے فیصلے کی روشنی میں آرمی ایکٹ کے احکامات میں ترامیم کرنا ہے تاکہ صدر مملکت کو بااختیار بنایا جائے کہ وہ وزیراعظم کے مشورے پر تینوں مسلح افواج کے سربراہان اور چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی کی مدت ملازمت اور اس حوالے سے قیود و شرائط کی صراحت کرسکیں۔
پاکستان آرمی (ترمیمی) ایکٹ 2020 کے عنوان سے کی جانے والی قانون سازی کے نتیجے میں تینوں مسلح افواج کے سربراہان اور چیئرمین آف جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی کی ریٹائرمنٹ کی زیادہ سے زیادہ عمر کی حد 64 برس ہوجائے گی۔
اس کے ساتھ مستقبل میں 60 برس کی عمر تک کی ملازمت کے بعد ان کے عہدے کی مدت میں توسیع کا استحقاق وزیراعظم کو حاصل ہوگا جس کی حتمی منظوری صدر مملکت دیں گے۔