• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

حکومت نے آرمی چیف کی مدت ملازمت سے متعلق عدالتی فیصلے پر حکم امتناع مانگ لیا

شائع January 2, 2020
حکومت نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے فیصلے پر نظرثانی درخواست دائر کی تھی—فائل فوٹو: رائٹرز
حکومت نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے فیصلے پر نظرثانی درخواست دائر کی تھی—فائل فوٹو: رائٹرز

وفاقی حکومت نے آرمی چیف کی مدت ملازمت سے متعلق دیے گئے 28 نومبر 2019 کے فیصلے پر حکم امتناع مانگتے ہوئے ایک متفرق درخواست دائر کردی۔

واضح رہے کہ 28 نومبر 2019 کو عدالت عظمیٰ نے 3 رکنی بینچ نے کہا تھا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ آئندہ 6 ماہ کے لیے آرمی چیف رہیں گے اور اس عرصے کے دوران پارلیمان آرمی کی توسیع/دوبارہ تقرر کے معاملے پر قانون سازی کرے گی۔

اس کے جواب میں وفاقی حکومت نے فیصلے کے خلاف 26 دسمبر 2019 کو سپریم کورٹ میں ایک نظرثانی درخواست دائر کی تھی، جس میں مذکورہ فیصلے کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی تھی۔

مزید پڑھیں: وفاقی کابینہ کا ہنگامی اجلاس، آرمی ایکٹ میں ترامیم منظور

علاوہ ازیں جمعرات کو جمع کروائی گئی درخواست میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے فیصلے پر تب تک عمل درآمد روکے جب تک حکومت کی دائر کردہ نظرثانی درخواست پر فیصلہ نہیں آجاتا۔

اس کے ساتھ ساتھ عدالت سے متفرق درخواست میں یہ بھی استدعا کی گئی کہ عدالت پہلے دائر کردہ نظرثانی درخواست پر سماعت کے لیے 5 ججز پر مشتمل لارجر بینچ تشکیل دیے۔

کابینہ سے آرمی ایکٹ میں ترامیم منظور

قبل ازیں یکم جنوری کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی وفاقی حکومت نے کابینہ کے ہنگامی اجلاس میں آرمی ایکٹ میں ترامیم کی منظوری دی تھی۔

آئین کی دفعہ 172 اور آرمی ایکٹ 1952 میں ترمیم کرنے کا فیصلہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں کیا گیا تھا جس کا واحد ایجنڈا آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع تھا۔

آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے قواعد میں ابہام دور کرنے کے سپریم کورٹ کے دیے گئے حکم کی روشنی میں حکومت نے اس معاملے پر اپوزیشن کے ساتھ اتفاق رائے ہونے کے بعد ترمیمی بل پارلیمنٹ میں بھی پیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اس ضمن میں کابینہ کے ایک رکن نے بتایا تھا ’ترمیم کے مطابق، آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی صورت میں ان کی ریٹائرمنٹ کی زیادہ سے زیدہ عمر 64 برس ہوجائے گی جبکہ عمومی عمر 60 سال ہی رہے گی‘ اور وزیراعظم کا استحقاق ہے کہ مستقبل میں آرمی چیف کو توسیع دے دیں۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ: آرمی چیف کی مدت ملازمت میں 6 ماہ کی مشروط توسیع

کابینہ کے ایک رکن نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا تھا کہ ’اجلاس میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں 3 سال کی توسیع کی تجویز دی گئی جس کے بعد جنرل قمر جاوید باجوہ 2023 تک آرمی چیف برقرار رہیں گے۔

آئین اور آرمی ایکٹ میں ترمیم کے لیے بل پارلیمان میں پیش کرنے سے قبل حکومت نے اس معاملے پر اتفاق رائے کے لیے اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

عدالت میں دائر نظرثانی درخواست

خیال رہے کہ 26 دسمبر کو اٹارنی جنرل کے توسط سے جمع کروائی گئی درخواست میں وفاقی حکومت، وزیراعظم عمران خان، صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ درخواست گزار ہیں۔

خیال رہے کہ وزیراعظم عمران خان نے اگست میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں 3 سال کی توسیع کی تھی کیونکہ وہ 29 نومبر کو متوقع طور پر ریٹائر ہوجاتے لیکن اس سے قبل ہی وزیراعظم نے ان کی مدت ملازمت میں 3 سال کی توسیع کر دی تھی۔

تاہم 29 نومبر سے قبل ہی عدالت میں اس توسیع کے خلاف درخواست سامنے آئی جس پر سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس نے سماعت کی اور 26 نومبر کو اس مدت ملازمت میں توسیع کے نوٹی فکیشن کو معطل کردیا تھا۔

جس کے بعد 3 روز تک عدالت میں طویل اور اہم ترین سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے 28 نومبر کو پارلیمنٹ کو ہدایت کی تھی کہ وہ 6 ماہ میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع/دوبارہ تعیناتی پر قانون سازی کرے اور اس دوران جنرل قمر باجوہ ہی آرمی چیف رہیں گے۔

بعد ازاں اس کیس کا 43 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کیا گیا تھا، جس کے جائزے کے بعد حکومت نے عدالت عظمیٰ میں درخواست دائر کی تھی۔

مزید پڑھیں: آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع:حکومتی نظرثانی درخواست سماعت کیلئے منظور

درخواست میں کہا گیا تھا کہ یہ حکم بے ضابطگیوں کا شکار ہے جس نے انصاف کی مدد سے ہونے والے ایک عمل کو ناانصافی کے عمل میں تبدیل کردیا۔

اس کے علاوہ درخواست میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ یہ درخواست عوام کے بہترین مفاد میں دائر کی گئی ہے، ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ عدالت کو عوامی پالیسی اور مشترکہ مفادات کے معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔

مذکورہ درخواست میں کہا گیا تھا کہ مودبانہ طور پر اس عمل کی طرف نشاندہی کی جاتی ہے کہ مبہم فیصلے میں نمایاں بھول چوک اور واضح غلطیاں ہیں، جو آئین و قانون کی خلاف ورزی ہے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024