• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

کیا نیب کا قانون صرف سیاستدانوں کے لیے ہے؟ رضا ربانی

شائع January 1, 2020
پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما رضا ربانی سینیٹ میں اظہار خیال کر رہے ہیں— فوٹو: ڈان نیوز
پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما رضا ربانی سینیٹ میں اظہار خیال کر رہے ہیں— فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینئر رہنما اور سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے نیب ترمیمی آرڈیننس پر حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ اگر حکومت بامعنی احتساب چاہتی ہے تو سب کا ایک جگہ احتساب کیا جائے ورنہ دیگر اداروں کی طرح اراکین پارلیمنٹ کے احتساب کا حق بھی پارلیمنٹ کو دیا جائے۔

حکومت کی جانب سے 24 گھنٹے کے نوٹس پر بدھ کو طلب کیے گئے سینیٹ کے رواں سال کے پہلا اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے رضا ربانی نے نیب ترمیمی آرڈیننس میں حکومت کی جانب سے مجوزہ ترمیم پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ حکومت نے اس قانون کے تحت کاروباری شخصیات، بیورو کریٹس، ججوں اور فوجیوں کو کارروائی سے استثنیٰ دے دیا ہے، تو پھر باقی رہ کون جائے گا، صرف میں اور آپ باقی رہ جائیں گے۔

انہوں نے سوال کیا کہ کیا نیب کا قانون صرف سیاستدانوں کے لیے ہے؟ اور تجویز پیش کی کہ اگر سب کے لیے احتساب کا عمل اپنا اپنا اور ہر ادارے کا اپنا احتساب کا نظام ہے تو اراکین پارلیمنٹ کے احتساب کا حق بھی پارلیمنٹ کو دیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت واقعی احتساب چاہتی ہے تو بامعنی احتساب کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے ایک قانون، ایک بیورو اور بلاتفریق احتساب کے تحت سب کا ایک جگہ احتساب کیا جائے لیکن آپ وہ کرنا نہیں چاہتے۔

رضا ربانی نے کہا کہ شفاف احتساب میں کوئی مقدس گائے نہیں ہونی چاہیے اور اس کا اطلاق بیوروکریسی کے ساتھ ساتھ عدلیہ اور مسلح افواج پر بھی ہونا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت آئین پر عملدرآمد نہیں کر رہی اور اس کے اقدامات سے پارلیمنٹ غیر موثر ہو رہی ہے۔

پیپلز پارٹی کے رہنما نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے پر حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف حکومت نے اپنی نااہلی کے سبب ایک قومی ادارے کو شرمندگی کی حالت میں لا کر کھڑا کردیا۔

ان کا کہنا تھا کہ 'یہ کیسی حکومت ہے جو تین یا چار درست نوٹی فکیشنز بھی نہیں نکال سکتی؟'

یہ بھی پڑھیں: 24 گھنٹے کے نوٹس پر پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے اجلاس طلب

انہوں نے ملائیشیا اور ترکی کی حکومتوں کے ساتھ وعدے کے باوجود سعودی عرب کے دباؤ کے سبب کوالالمپور اجلاس میں شرکت نہ کرنے پر وزیر اعظم عمران خان کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔

رضا ربانی نے کہا کہ مسئلہ کشمیر پر تین ممالک ایران، ترکی اور ملائیشیا نے ہمارے موقف کی حمایت کی اور ہم وزیر اعظم کے اس اقدام کو سراہتے ہیں کہ انہوں نے کوالالمپور جانے کا اعلان کیا لیکن پھر آپ نے اپنی سیاسی خود مختاری کو سعودی عرب کے سامنے گروی رکھ دیا اور کہا کہ ہم نہیں جائیں گے کیونکہ سعودی عرب نے ہمیں منع کیا ہے۔

اس سے قبل اپوزیشن نے سینیٹ کا اجلاس تاخیر سے بلانے اور آرڈیننس کے اجرا پر تحفظات کا اظہار کیا۔

ایوان بالا کا آخری اجلاس تقریباً 4 ماہ قبل 29 اگست کو ہوا تھا جو 3 ستمبر تک جاری رہا تھا۔

رضا ربانی نے کہا کہ جو بات کر رہا ہوں وہ اس ایوان کا استحقاق مجروح ہونے سے متعلق بھی ہے، ارکان کو جان بوجھ کر اپنا کام کرنے سے روکا گیا، محسوس ہوتا ہے کہ آئین موجود بھی ہے اور معطل بھی۔

ان کا کہنا تھا کہ سینیٹ کا اجلاس نہ بلانا اس ایوان کا استحقاق مجروح کرنے کے مترادف ہے اور اجلاس نہ بلائے جانے کے دوران 16 آرڈیننس جاری کیے گئے۔

انہوں نے کہا کہ 'صدر مملکت اس ایوان کا حصہ ہیں لیکن کیا وہ صرف آرڈیننسز پر دستخط کرنے کے لیے بیٹھے ہیں؟'

اس سے قبل حکومت کی جانب سے انتہائی جلد بازی میں سینیٹ کا اجلاس طلب کرنے پر اپوزیشن نے تحفظات کا اظہار کیا جس پر حکومت کا کہنا تھا کہ وہ موجودہ اہم پیشرفت پر ایوان کو اعتماد میں لینا چاہتی ہے۔

جب اس سلسلے میں منگل کو رضا ربانی سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ وہ 24 گھنٹے کے اندر اجلاس طلب کیے جانے کی وجہ سمجھنے سے قاصر ہیں اور شہر میں شدید دھند کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ دیگر شہروں میں رہنے والے اکثر اراکین کو بروقت اسلام آباد پہنچنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

انہوں نے اپوزیشن کی جانب سے اجلاس طلب کرنے کی درخواست جمع کرانے کے اگلے ہی دن سینیٹ کا اجلاس طلب کرنے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت مستقل پارلیمنٹ کو نظر انداز کر رہی ہے اور سینیٹ کا اجلاس 124 دن کے طویل وقفے کے بعد ہوگا۔

مزید پڑھیں: سینیٹ: اپوزیشن کا نیب قانون میں ترمیم نامنظور کرنے کا عندیہ

حکومت نے ایک حرام کو 50 کروڑ تک حلال کردیا، سراج الحق

امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ملک کے اداروں کے درمیان ٹکراؤ کی کیفیت ہے، ایک جلسے میں وزیر اعظم کھڑے ہو کر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس پر تنقید کرتے ہیں اور دوسرے دن اعلیٰ عدلیہ کے جج اس کا جواب دیتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے لیے سب سے پہلے 'غدار' کا لفظ موجودہ حکومت کے وزیر اعظم عمران خان نے استعمال کیا اور اگر آج ان کی بات کی توثیق عدالت عظمیٰ نے کی ہے تو حکومت حیران پریشان ہے کہ کہاں جائے۔

امیر جماعت اسلامی نے نئے نیب آرڈیننس کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ نیب کا نیا آرڈیننس آیا ہے کہ جس میں طے کیا گیا ہے کہ 50 کروڑ روپے معاف ہیں اور اس کے بعد نیب کسی الزام کے بارے میں ایکشن لے گی، اس کا مطلب ہے کہ آپ نے ایک حرام کو 50 کروڑ تک حلال کردیا لیکن آخر ایسا کس قانون کے تحت کیا گیا ہے کیونکہ یہ اختیار نہ آئین میں ہے، نہ قانون میں اور نہ ہی شریعت میں۔

نئے سال کے آغاز پر قومی ایجنڈا ترتیب دینا چاہیے، فواد چوہدری

وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے کہا کہ ہمارے چاروں ادارے تمام معاملاات میں قصور وار ہیں اور نہ ہی بے قصور ہیں، غلطیاں سب سے ہوتی ہیں، ہم سے بھی ہوئی ہوں گی، اپوزیشن، عدلیہ اور فوج سے بھی ہوئی ہوں گی۔

انہوں نے کہا کہ اگر ہم نے اپنے معاملات درست نہ کیے اور باہم دست و گریباں رہے تو مستقبل ہاتھ سے نکل جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تلخیاں بنیادی چیزوں پر رہنی چاہئیں لیکن اگر ہم الیکشن کمیشن کے اراکین، چیئرمین الیکشن کمیشن کا تقرر بھی خود نہیں کر سکتے، اگر ہم احتساب کا نظام بھی متفقہ طور پر طے نہیں کر سکتے تو اس طرح سے ملک اور جمہوریت نہیں چل سکتی۔

انہوں نے کہا کہ جن معاملات پر اتفاق رائے ہو سکتا ہے، ان پر حکومت اور اپوزیشن کو ضرور اتفاق کرنا چاہیے تاکہ ادارے کام کر سکیں۔

فواد چوہدری نے تجویز پیش کی کہ نئے سال کے پہلے دن ہمیں ایک قومی ایجنڈا ترتیب دیتے ہوئے اس میں الیکشن کمیشن، احتساب کے نظام اور بڑے معاملات کو شامل کر کے ان پر بات کرنی چاہیے اور یہاں سے نئے سال کا آغاز کرنا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: سینیٹ میں ’آرڈیننس کے ذریعے حکمرانی‘ پر تنازع شدت اختیار کرگیا

ایوان بنی گالا یا ایوان صدر سے نہیں چل سکتا، شیری رحمٰن

پیپلز پارٹی کی رہنما شیری رحمٰن نے سینیٹ اجلاس سے متعلق فیصلے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اخبارات کے ذریعے پتہ چلا کہ اجلاس بلایا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اسموگ کی وجہ سے بعض ارکان اجلاس میں شرکت نہیں کر سکے، عجلت میں اجلاس بلائے جاتے ہیں تو ان کے پیچھے لمبی کہانی ہوتی ہے، اتنے عرصے کے بعد اجلاس بلایا گیا لیکن وزرا ایوان میں موجود نہیں اور قومی اسمبلی میں بھی یہی حال ہے۔

شیری رحمٰن نے کہا کہ اس طرح اجلاس نہیں بلائے جاتے، یہ نہ کہا جائے ہم نے اجلاس بلایا اور یہ نہیں آرہے، ایوان چاروں صوبوں کی نمائندگی کرتا ہے، سوالات جوابات کو شامل نہیں کیا گیا جس کا مطلب ہے کہ حکومت کی تیاری نہیں تھی۔

انہوں نے حکومت پر پارلیمان کو بدحال کرنے کی کوشش کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ حکومت بم کے مترادف بلز لا رہی ہے، نااہلی اور ناامیدی کے اس سال 25 آرڈیننس لائے گئے، ایوان بنی گالا یا ایوان صدر سے نہیں چل سکتا۔

پیپلز پارٹی کی رہنما نے کہا کہ موجودہ حکومت کو لانے والے سلیکٹرز بھی پریشان ہیں، ان سے ایک نوٹی فکیشن تک جاری نہیں ہو رہا اور اب یہ اس فیصلے کے خلاف نظرثانی میں جا رہے ہیں، آخر نظرثانی میں جانے کا کیا مطلب ہے؟

اس موقع پر انہوں نے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پالیسی پر بھی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ کشمیر فرائیڈے کا کیا بنا؟ کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کا کیا ہوا؟ کشمیر کے مسئلے پر ایک تقریر کے علاوہ اور کچھ نہیں کیا گیا۔

شیری رحمان نے کہا کہ کشمیر کے مسئلے پر ہم ساتھ کھڑے ہوگئے لیکن وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ایوان میں آکر مسئلہ کشمیر کی صورتحال سے متعلق آگاہ کیوں نہیں کرتے؟

سینیٹ کا اجلاس کل دوپہر 3 بجے تک کے لیے ملتوی کردیا گیا۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024