• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm

سال 2019ء قومی ٹیم کے لیے میدان میں بُرا لیکن میدان سے باہر اچھا رہا

2019 قومی ٹیم کیلئےاس اعتبار سے تو یادگار رہا کہ10 سال بعد ٹیسٹ کرکٹ بحال ہوئی مگرمیدان میں ہماری کارکردگی اچھی نہیں رہی
شائع January 1, 2020

سال 2019ء میں پاکستان کرکٹ نے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر بہت سے اتار چڑھاؤ اور تبدیلیاں دیکھیں۔ اس سال طویل عرصے بعد پاکستان کے ڈومیسٹک اسٹرکچر میں تبدیلی کی گئی، ایسی تبدیلی جس کے باعث ڈومیسٹک کرکٹ صرف علاقائی کرکٹ تک محدود ہوگئی۔

اس تبدیلی کے پاکستان کرکٹ پر کیا اثرات مرتب ہوں گے، یہ منفی ہوں گے یا مثبت، اس حوالے سے آنے والا وقت ہی بتائے گا، لیکن میری رائے میں ڈومیسٹک کرکٹ کو صرف 6 علاقائی ٹیموں تک محدود کرکے ہم مستقبل میں بہت سا قیمتی ٹیلنٹ ضائع کردیں گے۔

اس تبدیلی کے بعد ڈومیسٹک کرکٹ اب صرف علاقائی کرکٹ تک محدود ہوگئی—فوٹو:پی سی بی
اس تبدیلی کے بعد ڈومیسٹک کرکٹ اب صرف علاقائی کرکٹ تک محدود ہوگئی—فوٹو:پی سی بی

بین الاقوامی کرکٹ میں اگر قومی ٹیم کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو میری دانست میں پاکستان کی اس سال کی کارکردگی کرکٹ کے تینوں فارمیٹس میں غیر تسلی بخش رہی۔ میں نے یہ رائے کیوں قائم کی اس کو جاننے کے لیے قومی کرکٹ کی کارکردگی کے حوالے سے تفصیلی جائزہ پیش کیا جارہا ہے۔

ٹیسٹ کرکٹ کی کارکردگی کا جائزہ

ویسے تو سال 2019ء پاکستانی ٹیم کے لیے اس اعتبار سے بہت خوش قسمت سال ثابت ہوا کہ 10 سال کے طویل تعطل کے بعد اس سال ٹیسٹ کرکٹ ایک مرتبہ پھر واپس پاکستان آئی، جو ہمارے لیے کسی بھی طور پر نیک شگون سے کم نہیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چئیرمین احسان مانی نے بھی اس سال کے حوالے سے اپنی رائے دی ہے۔

لیکن اس اچھی خبر سے ہٹ کر ہم جیسے ہی میدان میں آئیں گے تو وہاں مایوسی کے سوا کچھ نہیں۔

پاکستان نے اس سال اپنا پہلا ٹیسٹ میچ جنوبی افریقہ کیخلاف کیپ ٹاؤن کے نیو لینڈز کرکٹ گراؤنڈ میں کھیلا۔ ویسے تو یہ سیریز کا دوسرا ٹیسٹ تھا، کیونکہ پہلا ٹیسٹ دسمبر میں کھیلا گیا جو محض 3 دن میں ختم ہوگیا اور اس کا نتیجہ بھی پاکستان کے حق میں نہیں آیا تھا۔

خیر سیریز کے دوسرے ٹیسٹ میچ میں بھی ماضی کی دورہءِ جنوبی افریقہ کی روایات کو برقرار رکھا گیا، یعنی اس بار بھی بلے بازوں نے مایوس کیا، جس کا نتیجہ 9 وکٹوں سے شکست کی صورت ملا۔

پھر اگر جوہانسبرگ میں کھیلے جانے والے سیریز کے تیسرے میچ کا ذکر کریں تو یہاں پاکستان کو ایک مرتبہ پھر شکست کی ہزیمت سے دوچار ہونا پڑا۔ یوں اس سیریز میں قومی ٹیم کلین سوئپ کا شکار ہوئی۔

اس سیریز کا کوئی ایک ٹیسٹ میچ بھی پانچویں دن تک نہیں گیا—فوٹو اے ایف پی
اس سیریز کا کوئی ایک ٹیسٹ میچ بھی پانچویں دن تک نہیں گیا—فوٹو اے ایف پی

اس سیریز کا ایک بھیانک پہلو یہ ہے کہ کوئی ایک ٹیسٹ میچ بھی پانچویں دن تک نہیں گیا، اور پوری سیریز میں قومی ٹیم نے ایک مرتبہ بھی کسی اننگ میں 300 سے زائد رنز نہیں بنائے، بلکہ کُل 6 اننگز میں 4 مرتبہ تو 200 رنز بھی نہیں بناسکی۔

بہرحال اس ٹیسٹ سیریز کے تقریباً 10 ماہ کے طویل عرصے بعد پاکستان کو ایک مرتبہ پھر ٹیسٹ میچ کھیلنے کا موقع ملا۔ اس مرتبہ پاکستان کی منزل ایک بار پھر مشکل مقام یعنی آسٹریلیا تھی۔

اگرچہ قومی ٹیم اس بار ایک نئے کپتان اور نئی ٹیم مینجمنٹ کے ساتھ آسٹریلیا پہنچی لیکن نتیجہ وہی پرانا ملا یعنی ایک مرتبہ پھر پاکستان اس دورے میں کھیلے جانے والے دونوں (تمام) ٹیسٹ میچ باآسانی ہار گیا۔

پاکستان کے خلاف کلین سوئپ کے بعد آسٹریلین ٹیم کا ٹرافی کے ہمراہ گروپ فوٹو— فوٹو: اے پی
پاکستان کے خلاف کلین سوئپ کے بعد آسٹریلین ٹیم کا ٹرافی کے ہمراہ گروپ فوٹو— فوٹو: اے پی

آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ میں انتہائی خراب کارکردگی پیش کرنے والی پاکستان کرکٹ ٹیم نے اس وقت سکھ کا سانس لیا ہوگا جب اس کو سری لنکا کی نسبتاً کم تجربہ کار ٹیم کے ساتھ اپنے ہی گھر میں کھیلنے کا موقع ملا ہوگا۔

پاکستان اور سری لنکا کیخلاف پہلا ٹیسٹ میچ راولپنڈی کرکٹ اسٹڈیم میں کھیلا گیا۔ یہ ایک تاریخی میچ تھا کیونکہ 10 سال کے طویل عرصے بعد پاکستان میں کوئی ٹیسٹ میچ کھیلا جارہا تھا۔ اس ٹیسٹ میچ کو بارش نے متاثر کیا اور 5 دن میں دونوں ٹیموں کی ایک ایک اننگز بھی مکمل نہیں ہوسکی لیکن اس تاریخی ٹیسٹ میچ کے آخری روز اس وقت ایک نئی تاریخ رقم ہوگئی جب اپنا اوّلین ٹیسٹ میچ کھیلنے والے کھلاڑی عابد علی اپنے ٹیسٹ ڈیبیو پر سنچری اسکور کرکے دنیائے کرکٹ کے پہلے مرد کھلاڑی بن گئے جس نے اپنے پہلے ہی ایک روزہ اور ٹیسٹ میچ میں سنچری اسکور کی ہو۔

اس سیریز کا دوسرا ٹیسٹ میچ نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں کھیلا گیا۔ اس میچ کے پہلے 2 دن تو مہمان ٹیم کا پلڑا بھاری رہا لیکن تیسرے دن پاکستان کے بیٹسمنوں نے اپنی شاندار بیٹنگ سے میچ کا رخ بدل دیا۔ اس میچ میں بھی عابد علی نے سنچری اسکور کی اور اس کے بعد وہ دنیا کے 9ویں ایسے بیٹسمین بن گئے جنہوں نے اپنے پہلے 2 ابتدائی ٹیسٹ میچوں میں یہ کام کیا ہو۔

سنچری بنانے والے صرف عابد علی نہیں تھے بلکہ ان کے ساتھ شان مسعود، کپتان اظہر علی اور بابر اعظم نے بھی یہ اعزاز حاصل کیا۔ یوں دنیا کی تاریخ میں ایسا واقع دوسری مرتبہ ہی رونما ہوا جب کسی بھی ٹیم کے ابتدائی 4 بلے بازوں نے ایک ہی اننگ میں سنچری اسکور کی ہو۔

شان مسعود، عابد علی، اظہر علی اور بابر اعظم نے سنچریاں اسکور کی— تصاویر: اے پی/ اے ایف پی
شان مسعود، عابد علی، اظہر علی اور بابر اعظم نے سنچریاں اسکور کی— تصاویر: اے پی/ اے ایف پی

اس زبردست بیٹنگ کی بدولت پاکستان نے سری لنکا کو جیت کے لیے 476 رنز کا ہدف دیا تھا لیکن سری لنکا کی ٹیم نوجوان نسیم شاہ کی باؤلنگ کے باعث زیادہ مزاحمت نہیں کرسکی اور پوری ٹیم 212 رنز پر آؤٹ ہوگئی۔ یوں پاکستان نے یہ میچ 263 رنز سے جیت لیا۔

اس میچ میں پاکستان کے نوجوان فاسٹ باؤلر نسیم شاہ نے سری لنکا کی دوسری اننگز میں 5 وکٹیں حاصل کیں اور یوں وہ ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں ایک اننگز میں 5 وکٹیں حاصل کرنے والے دوسرے کم عمر ترین باؤلر بن گئے۔ ٹیسٹ کرکٹ میں عابد علی کی دھماکے دار انٹری اور بابر اعظم کا اس فارمیٹ میں تسلسل کے ساتھ رنز کرنا پاکستان کے لیے ایک مثبت پیغام ہے۔

بابر اعظم

بابر اعظم نے اس سال صرف 6 ٹیسٹ میچوں میں 68.44 کی شاندار اوسط سے 616 رنز بنائے اور اس کارکردگی کی بدولت وہ سال 2019ء میں ٹیسٹ کرکٹ میں سب سے زیادہ رنز بنانے والوں کی فہرست میں 12ویں نمبر پر ہیں۔

یہاں یہ بات اہم ہے کہ ٹیسٹ کرکٹ میں زیادہ رنز بنانے والوں کی فہرست میں بابر اعظم سے آگے جو 11 کھلاڑی ہیں انہوں نے بابر اعظم سے زیادہ ٹیسٹ میچ کھیلے ہیں۔

پاکستان کرکٹ بورڈ اگر پاکستان کو ٹیسٹ کرکٹ کی ایک قوت بنانا چاہتا ہے تو ایسا کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ قومی ٹیم کے لیے سال میں کم از کم 8 یا 9 ٹیسٹ میچ منعقد کروانے کے لیے کوششیں کرے۔

اگر بابر اعظم سمیت پاکستانی ٹیم کے دیگر کھلاڑیوں کو بھی دیگر ٹیموں کے کھلاڑیوں کی طرح زیادہ سے زیادہ ٹیسٹ میچ کھیلنے کا موقع ملے تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ اگلے 10 سال میں ہمارے کھلاڑی بھی بہت سے قومی اور بین الاقوامی ریکارڈ توڑ دیں گے۔

عابد علی، دیر آید درست آید

سال 2019ء میں ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کے لیے سب سے بڑی اننگ عابد علی نے کھیلی جنہوں نے کراچی ٹیسٹ میں سری لنکا کے خلاف 174 رنز کی اننگز کھیلی۔

سینئر اظہر علی اور اسد شفیق ناکام

اس سال پاکستان کے 2 سینئر کھلاڑیوں اسد شفیق اور اظہر علی نے تسلسل کے ساتھ اسکور نہیں کیا اور ان کی خراب کارکردگی پاکستان کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔

یاسر شاہ، جو اس سال باؤلر کم، بیٹسمین زیادہ ثابت ہوئے

پاکستان کے لیے اس سال ٹیسٹ کرکٹ میں یاسر شاہ نے اپنی باؤلنگ سے زیادہ بیٹنگ میں کردار ادا کیا۔ یاسر شاہ 204 رنز بناکر پاکستان کی طرف سے سب سے زیادہ رنز اسکور کرنے والوں کی فہرست میں چھٹے نمبر پر رہے۔

آسٹریلیا کے خلاف ایڈیلیڈ ٹیسٹ میں یاسر شاہ نے اپنے کیریئر کی پہلی ٹیسٹ سنچری اسکور کرکے سب کو ہی حیران کردیا۔ انہوں نے 113 رنز کی اننگ کھیلی اور یہ اننگ پاکستان کی اس سال کی پانچویں بڑی اننگ ہے۔

لیکن دوسری طرف باؤلنگ کے شعبے میں یاسر شاہ اس سال خاصے ناکام رہے۔ یاسر نے 4 ٹیسٹ میچوں میں صرف 4 وکٹیں حاصل کیں۔ اگر یاسر شاہ نے اپنی باؤلنگ کارکردگی کو بہتر نہیں کیا تو پاکستان کو جلد ہی ان کا متبادل تلاش کرنا ہوگا۔

شاہین آفریدی، ایک ابھرتا ہوا ستارہ

اس سال پاکستان کے لیے 17 وکٹیں حاصل کرنے والے 19 سالہ شاہین آفریدی کامیاب ترین باؤلر ثابت ہوئے۔ شاہیں آفریدی اور نسیم شاہ اگر اپنی فٹنس برقرار رکھیں تو پاکستان کا مستقبل بہت روشن ہے۔

ایک اور سال گزر گیا، فواد عالم کو موقع اب بھی نہ ملا

سال 2019ء آیا اور گزر گیا لیکن فواد عالم ڈومیسٹک کرکٹ میں مسلسل کارکردگی دکھانے کے باوجود پاکستان کرکٹ ٹیم میں واپسی کے منتظر ہیں۔ امید ہے کہ آنے والے سال میں فواد عالم کی قسمت بھی بدلے گی اور وہ ایک مرتبہ پھر پاکستانی ٹیم کی نمائندگی کریں گے۔

سال 2020ء ٹیسٹ چیمپئن شپ کے لیے اہم

پاکستان کو سال 2020ء میں بھی صرف 7 ٹیسٹ میچ کھیلنے ہیں اور یہ تمام ٹیسٹ میچ عالمی ٹیسٹ چیمپئن شپ کا حصہ ہوں گے۔ میں توقع کرتا ہوں کہ ٹیسٹ کرکٹ کے میدانوں میں پاکستان موجودہ سال میں گزشتہ سال سے بہتر کارکردگی پیش کرے گا۔

ٹی20 کرکٹ کی کارکردگی کا جائزہ

پاکستان کے لیے سال 2018ء ٹی20 کرکٹ کے حوالے سے بہت شاندار رہا تھا۔ 2018ء میں پاکستان نے کرکٹ کے اس فارمیٹ میں 19 میچ کھیل کر 17 فتوحات حاصل کیں تھیں جس میں 9 مسلسل میچ جیتنے کے ساتھ ساتھ 11 مسلسل سیریز جیتنے کا کارنامہ بھی شامل تھا۔

لیکن 2019ء میں قومی ٹیم اس فارمیٹ میں بھی ناکام رہی۔ پاکستان نے اس سال 9 ٹی20 میچ کھیلے اور صرف ایک میں ہی کامیابی ملی۔ اس سال کے شروع میں پاکستان کو پہلے جنوبی افریقہ کیخلاف 3 میچوں کی سیریز میں شکست کا سامنا کرنا پڑا اور پھر اس کے بعد اکتوبر کے مہینے میں پاکستان کو سری لنکا کے خلاف ہوم سیریز میں غیر متوقع 0-3 سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

سری لنکا سے خلاف اس شکست کے بعد پی سی بی کے کرتا دھرتاؤں نے مسلسل 11 سیریز جیتنے والے کپتان سرفراز احمد کو ایک سیریز میں شکست کی بنیاد پر ٹیم کی کپتانی سے ہٹاکر کپتانی کی ذمہ داری نوجوان بابر اعظم کے سپرد کردی۔

مزید پڑھیے: سرفراز آپ ہمیں بالکل اچھے نہیں لگے!

بابراعظم کی قیادت میں پاکستان کو آسٹریلیا میں کھیلی جانے والی 3 میچوں کی سیریز میں 0-2 کی شکست کا سامنا ہوا۔ درحقیقت یہ شکست 0-3 سے ہی ہونی تھی، لیکن بارش نے ایسا نہیں ہونے دیا۔

ٹی20 میں پاکستان کی جانب سے زیادہ رنز بنانے والے بابر اعظم

سال 2019ء میں ٹی20 کرکٹ میں پاکستان کی طرف سے بابر اعظم 374 رنز بناکر سرِفہرست رہے۔ انہوں نے جوہانسبرگ میں جنوبی افریقہ کیخلاف 90 رنز کی جو اننگ کھیلی وہ پاکستان کے لیے اس سال ٹی20 کرکٹ کی سب سے بڑی اننگ تھی۔

افتخار احمد، ایک اچھا اضافہ

پاکستان کے لیے خوش آئند بات یہ ہے کہ ٹی20 کرکٹ میں ان کو افتخار احمد کی شکل میں ایک ایسا کھلاڑی مل گیا ہے جو اننگ کے اختتامی اوورز میں اچھے اور بڑے شاٹس کھیلنے کی پوری پوری صلاحیت رکھتا ہے۔

کیا ہم ٹی20 ورلڈ کپ کے لیے تیار ہیں؟

سال 2020ء میں ٹی20 کرکٹ کا عالمی کپ آسٹریلیا میں کھیلا جائے گا۔ 2019ء میں قومی ٹیم کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے تو اس بات کا خطرہ موجود ہے کہ اگر پاکستان نے درست ٹیم کا انتخاب نہیں کیا تو گزشتہ ٹی20 ورلڈ کپ کی طرح اگلے ورلڈ کپ میں بھی پاکستان کوئی خاطر خواہ پیش قدمی نہیں کر پائے گا۔

مزید پڑھیے: کرکٹ بورڈ نے بابر اعظم کے ساتھ ایسا کیوں کیا؟

ایک روزہ کرکٹ کی کارکردگی کا جائزہ

قومی ٹیم نے ٹیسٹ اور ٹی20 کی طرح ایک روزہ کرکٹ کا آغاز بھی جنوبی افریقہ ہی میں کیا۔ اگرچہ یہاں بھی نتیجہ ہمارے حق میں نہیں آیا، مگر مقابلہ سخت رہا اور 5 میچوں کی سیریز میں 2-3 سے جنوبی افریقہ نے کامیابی حاصل کی۔

اس ایک روزہ سیریز کو اس حوالے سے بھی یاد رکھا جائے گا کہ دوسرے میچ میں پاکستان کے کپتان سرفراز احمد نے جنوبی افریقی آل راؤنڈر ایندائل فلکوایو پر 'نسل پرستانہ' جملے کس دیے۔

لیکن جیسے ہی سرفراز احمد کی جانب سے کہی گئی بات پر نوٹس لیا گیا تو انہوں نے جنوبی افریقی آل راؤنڈر سے معافی مانگی اور معاملہ بہت حد تک حل بھی ہوگیا تھا، مگر اچانک انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے سرفراز احمد پر 4 میچوں کی پابندی کا فیصلہ سنایا جس پر پی سی بی نے مایوسی کا اظہار کیا۔

قومی ٹیم کے کپتان سرفراز احمد جنوبی افریقی آل راؤنڈر ایندائل فلکوایو سے معذرت کر رہے ہیں— تصویر بشکریہ ٹوئٹر
قومی ٹیم کے کپتان سرفراز احمد جنوبی افریقی آل راؤنڈر ایندائل فلکوایو سے معذرت کر رہے ہیں— تصویر بشکریہ ٹوئٹر

ایک روزہ کرکٹ میں اس سال پاکستان کو اپنی دوسری سیریز متحدہ عرب امارات میں آسٹریلیا کیخلاف کھیلنی تھی۔ مارچ کے مہینے میں کھیلی جانے والی اس سیریز میں پاکستان نے اپنے ریگولر کپتان سمیت 6 صف اول کے کھلاڑیوں کو آرام دینے کا فیصلہ کیا، جو بہت بھاری پڑا، کیونکہ 5 میچوں کی سیریز میں قومی ٹیم کو 0-5 کی کلین سوئپ کا منہ دیکھنا پڑا۔

مزید پڑھیے: قومی ٹیم 0-5 سے کیوں ہاری؟ کہاں کہاں غلطیاں ہوئی؟

اس سیریز کے چوتھے میچ میں عابد علی کو ایک روزہ کرکٹ میں ڈیبیو کرنے کا موقع ملا اور انہوں نے ایک طویل انتظار کے بعد ملنے والے اس موقع کو غنیمت جان کر اپنے پہلے ہی میچ میں سنچری داغ دی۔ وہ یہ کارنامہ انجام دینے والے پاکستان کے تیسرے کھلاڑی ہیں۔

آسٹریلیا کے ساتھ ایک مایوس کن سیریز کھیل کر قومی ٹیم عالمی کپ کی تیاری کے سلسلے میں میزبان انگلینڈ سے سیریز کھیلنے پہنچی، مگر مقام بدلا، ٹیم بدلی لیکن نتیجہ نہیں بدلا۔ قومی ٹیم کو اس سیریز میں 0-4 کے مارجن سے شکست کی خفت اُٹھانی پڑی۔

انگلینڈ کی سیریز کو پاکستان عالمی کپ کے لیے ایک بہترین ٹیم منتخب کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہتا تھا لیکن سیریز کے بعد سلیکشن کمیٹی کچھ الجھن کا شکار ہوگئی اور انہوں نے عالمی کپ کے لیے سلیکٹ کی گئی ٹیم میں عابد علی کی جگہ نوجوان فاسٹ باؤلر محمد حسنین کو ترجیح دی اور پھر مزے کی بات یہ ہوئی کہ انہیں وہاں کسی ایک میچ میں بھی موقع نہیں دیا گیا۔

عالمی کپ میں پاکستان کا پہلا میچ ویسٹ انڈیز کے خلاف تھا، جس میں اسے المناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اگلے میچ میں پاکستان نے انگلینڈ کو ایک غیر متوقع شکست دے کر ٹورنامنٹ میں واپس آنے کی کوشش کی لیکن آسٹریلیا اور بھارت سے ہونے والی شکستوں اور سری لنکا کے خلاف میچ میں بارش نے قومی ٹیم کی سیمی فائنل تک رسائی کو تقریباً ناممکن بنادیا۔

مزید پڑھیے: شکست کا خوف تو تھا لیکن عبرتناک شکست کا نہیں!

لیکن پھر عالمی کپ میں پاکستان نے اپنے آخری 4 میچ مسلسل جیتے اور نیوزی لینڈ کے برابر پوائنٹس حاصل کرلیے، مگر شاید قسمت ہمارے ساتھ نہیں تھی کیونکہ بہتر رن ریٹ کی بنیاد پر نیوزی لینڈ عالمی کپ کے سیمی فائنل میں پہنچ گیا۔

شاہین آفریدی کے ریکارڈز

اسی ورلڈ کپ میں بنگلہ دیش کیخلاف کھیلے گئے میچ میں پاکستان کے شاہین آفریدی نے 35 رنز کے عوض 6 وکٹیں حاصل کیں۔ یہ باؤلنگ کارکردگی پاکستان کی طرف سے عالمی کپ کی تاریخ کی بہترین باؤلنگ ہے۔ شاہین آفریدی اس کارکردگی کی بدولت عالمی کپ میں ایک اننگ میں 5 وکٹیں حاصل کرنے والے کم عمر ترین کھلاڑی بن گئے۔ اس کے ساتھ ساتھ آفریدی کی یہ کارکردگی سال 2019ء میں پاکستان کی جانب سے اس فارمیٹ میں سب سے بہترین کارکردگی بھی رہی۔

شعیب ملک کی ریٹائرمنٹ

گزشتہ صدی میں بین الاقوامی کرکٹ میں آنے والے شعیب ملک اس سال ہونے والے عالمی کپ میں مایوس کن کارکردگی پیش کرکے بالآخر بین الاقوامی کرکٹ سے رخصت ہوئے۔

اس عالمی کپ کے بعد پاکستان نے ستمبر کے مہینے میں سری لنکا کے خلاف ہوم سیریز کھیلی اور یہ سیریز قومی ٹیم باآسانی 0-2 سے جیت گئی۔

سال 2019ء میں پاکستان نے 25 ایک روزہ میچ کھیلے جس میں سے 15 میں فتوحات ملیں، 9 میچوں میں شکست کا منہ دیکھنا پڑا جبکہ ایک میچ بلا نتیجہ رہا۔

ایک روزہ کرکٹ میں بھی بابر سب سے آگے رہے

اس سال ایک روزہ کرکٹ میں بابر اعظم 20 اننگز میں 1092 رنز بناکر سرِفہرست رہے جبکہ اس سال ایک روزہ کرکٹ میں باؤلنگ کے شعبے میں شاہین افریدی 27 وکٹیں لیکر سب سے کامیاب باؤلر ٹھہرے۔

بابر اعظم اور شاہین آفریدی ہماری امید ہیں

بابر اعظم اور شاہین آفریدی 2 ایسے کھلاڑی ہیں جو اس سال پاکستان کے لیے کرکٹ کے ہر فارمیٹ پر روشن چہرے کی طرح نمودار ہوئے۔ یہ دونوں کھلاڑی اگر اسی طرح محنت کرتے رہے تو امید یہی ہے کہ یہ نہ صرف قومی ٹیم کے لیے کارآمد ثابت ہوں گے، بلکہ مستقبل میں بڑے ناموں میں ان کا شمار ہوگا۔

پاکستان کرکٹ نے سال 2019ء میں جو غلطیاں کیں، امید ہے کہ قومی ٹیم ان سے چھٹکارا حاصل کرتے ہوئے اگلے سال بہتر کارکردگی پیش کرے گی۔

خرم ضیاء خان

خرم ضیاء خان مطالعے کا شوق رکھنے کے ساتھ ساتھ کھیلوں کے معاملات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: KhurramZiaKhan@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔