• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm

عراق: فضائی حملوں کے بعد مظاہرین کا امریکی سفارتخانے پر حملہ

شائع December 31, 2019
عراقی مظاہرین نے امریکی سفارتخانے کی دیوار کے ساتھ مظاہرین نے آگ لگائی ہوئی ہے— فوٹو: رائٹرز
عراقی مظاہرین نے امریکی سفارتخانے کی دیوار کے ساتھ مظاہرین نے آگ لگائی ہوئی ہے— فوٹو: رائٹرز
عراق میں جاری پرتشدد مظاہروں کے نتیجے میں اب تک 350 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں— فوٹو: رائٹرز
عراق میں جاری پرتشدد مظاہروں کے نتیجے میں اب تک 350 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں— فوٹو: رائٹرز

عراق کے دارالحکومت بغداد میں کیے گئے فضائی حملے میں 2 درجن سے زائد جنگجوؤں کی ہلاکت کے بعد ہزاروں مظاہرین نے امریکی سفارت خانے پر حملہ کردیا۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق فوجی لباس میں ملبوس مرد اور کچھ خواتین نے چیک پوائنٹس کی جانب مارچ کیا اور اس دوران عراقی سیکیورٹی فورسز نے انہیں روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔

مظاہرین نے سفارتخانے کی بیرونی دیوار عبور کی اور 'امریکا مردہ باد' کے نعرے لگاتے ہوئے سفارتخانے پر حملہ کردیا۔

مظاہرین کے دھاوا بولنے سے قبل ہی امریکی سفارتکار اور سفارتخانے کے اکثر عملے کو باحفاظت وہاں سے نکال لیا گیا تھا۔

یہ کئی سالوں میں پہلا موقع ہے کہ مظاہرین امریکی سفارتخانے تک پہنچنے میں کامیاب ہو سکے ہیں جہاں یہ سفارتخانہ کئی سیکیورٹی چوکیوں کے حصار کے بعد انتہائی محفوظ علاقے میں واقع ہے۔

مظاہرین نے مسلح گروہوں کے نیٹ ورک 'ہشاد الشیبی' کی حمایت میں پرچم لہرائے جو بڑے پیمانے پر سیکیورٹی فورسز میں شامل ہوچکا ہے۔

29 دسمبر کو عراق کے مغربی حصے میں واقع فوجی اڈے پر امریکی فضائی حملوں میں کتائب حزب اللہ کے 25 جنگجو ہلاک ہوگئے تھے۔

مذکورہ فضائی حملے عراقی فوجی اڈوں پر راکٹوں کے حملے کے جواب میں کیے گئے تھے جہاں عراق کے فوجی اڈوں پر امریکی فورسز تعینات ہیں۔

مزید پڑھیں: عراق: مظاہرین نے آئل فیلڈ سے تیل کی ترسیل روک دی

ان فضائی حملوں کی ذمہ داری کسی تنظیم نے قبول نہیں کی تھی لیکن امریکا نے حزب اللہ پر الزام عائد کیا تھا۔

عراقی مظاہرین امریکی سفارت خانے کی دیواروں کے پاس پہنچ گئے تھے جہاں انہوں نے امریکا مخالف نعرے بازی کی اور پرچم بھی نذرِآتش کیے۔

مظاہرین نے سفارت خانہ بند کرنے کے مطالبے اور پارلیمنٹ سے امریکی فورسز کو ملک چھوڑنے کا حکم دینے پر مبنی پوسٹرز تھامے ہوئے تھے۔

مشتعل مظاہرین نے پتھراؤ کیا اور سفارتخانے کی دیواروں پر نصب سیکیورٹی کیمرے اتار کر پھینک دیے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بغداد میں امریکی سفارتخانے پر مظاہرین کے حملے کی مذمت کرتے ہوئے اس کا ذمہ دار ایران کو قرار دیا۔

انہوں نے اپنی ٹوئٹ میں کہا کہ ایران، بغداد میں امریکی سفارتخانے پر حملے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے، ان کو مکمل ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا اور اہم امید کرتے ہیں کہ سفارتخانے کی حفاظت کے لیے عراق طاقت کا استعمال کرے گا۔

علاوہ ازیں امریکی محکمہ خارجہ نے بتایا کہ بغداد میں امریکی سفارت خانے پر حملے میں امریکی اہلکار محفوظ ہیں اور ان کے انخلا کا تاحال کوئی منصوبہ نہیں ہے۔

محکمہ خارجہ کے ترجمان نے بیان میں کہا 'ہماری پہلی ترجیح امریکی اہلکاروں کی حفاظت ہے'۔

ترجمان نے کہا 'امریکی اہلکار محفوظ ہیں اور اس میں کوئی خلاف ورزی نہیں ہوئی'۔

انہوں نے کہا کہ 'سفارت خانہ خالی کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے'۔

سفارتخانے سے مظاہرین کو پیچھے ہٹنے کے لیے کئی مرتبہ انتباہ جاری کیا گیا لیکن مظاہرین کی پیش قدمی نہ رکنے پر سفارتخانے میں موجود امریکی اہلکاروں نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے شیل فائر کیے۔

ایک پوسٹر پر لکھا ہوا تھا کہ ’پارلیمنٹ کو امریکی فوجیوں کو باہر نکال دینا چاہیے یا ہم نکال دیں گے‘۔

یہ بھی پڑھیں: عراق میں پرتشدد مظاہرے جاری، سیکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے 35 افراد ہلاک

قبل ازیں 29 دسمبر کو حکومت مخالف مظاہرین نے مختلف شہروں میں احتجاجی ریلیاں نکالیں اور اہم آئل فیلڈ سے تیل کی ترسیل بھی روک دی تھی۔

واضح رہے کہ عراق میں بے روزگاری، کرپشن کے خلاف اور حکومت کی تبدیلی کے مطالبے پر شروع ہونے والے احتجاج میں شدت آگئی ہے۔

اس سے قبل نومبر میں بغداد اور دیگر شہروں میں حکومت مخالف احتجاج کے نتیجے میں مظاہرین نے سول نافرمانی کی نئی مہم شروع کرتے ہوئے تمام سرکاری دفاتر اور کاروباری مراکز کو بند کردیا تھا۔

اسی طرح 29 نومبر کو پولیس کی مظاہرین پر فائرنگ کے نتیجے میں 35 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے تھے۔

عراق میں جاری پرتشدد مظاہروں کے نتیجے میں اب تک 350 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

مزید پڑھیں: عراق میں حکومت مخالف مظاہروں میں شدت، 93 ہلاکتوں کی تصدیق

ان مظاہروں کا سلسلہ یکم اکتوبر سے جاری ہے جہاں مظاہرین ایران کی حمایت یافتہ حکومت پر بدعنوانی میں ملوث ہونے، عوامی کاموں کے حوالے سے شکایات اور بے روزگاری کی شرح انتہائی بلند ہونے کے الزامات عائد کر کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

تاہم مظاہرین کا سب سے سنگین الزام یہ ہے کہ عراقی حکومت ایران کی حمایت اور اس کے دفاع کے لیے اپنے ہی عوام پر ظلم کر رہی ہے۔

نجف میں ایرانی قونصل خانے کو نذر آتش ہوتے ہوئے دیکھنے والے ایک عینی شاہد نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر برطانوی خبر رساں ایجنسی 'رائٹرز' کو بتایا تھا کہ نجف میں پولیس اور سیکیورٹی فورسز ہم پر اس طرح گولیاں برسا رہی ہیں جیسے ہم پورے عراق کو آگ لگا رہے ہیں۔

مظاہروں میں شریک ایک اور فرد نے ایرانی قونصل خانے کو آگ لگانے کے واقعے کو بہادری اور عراقی عوام کا ردعمل قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہمیں ایرانیوں کی ضرورت نہیں، ہم ایران سے ان ہلاکتوں کا بدلہ لیں گے۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024