سال 2019ء دنیا کیلئے مشکل سال ثابت ہوا، اور مستقبل بھی اچھا نہیں
اگرچہ سال 2019ء بس ختم ہونے کو ہے، مگر افسوس یہ کہ سال ختم ہونے پر بھی دنیا پر بے یقینی کے سائے مکمل آب و تاب کے ساتھ موجود ہیں، اور ان کے ختم ہونے کا کوئی امکان بھی نظر نہیں آرہا۔
ٹیکنالوجی، انفارمیشن اور گلوبلائزیشن کے دور میں یہ فائدہ ضرور ہوا ہے کہ دنیا بھر سے آئیڈیاز، انسانی صلاحیت، رقوم، سامان اور خدمات کی دنیا بھر میں نقل و حرکت اور فراہمی آسان ہوئی ہے، لیکن یہی آسانی مسائل کا سبب بن رہی ہے اور دنیا پہلے سے زیادہ پیچیدہ اور خطرناک ہوگئی ہے۔
امریکا کی قیادت میں قائم عالمی نظام دم توڑ رہا ہے، ماحولیاتی تبدیلیوں سے لے کر سائبر جنگوں تک کئی طرح کے خطرات منڈلا رہے ہیں۔
حکومتیں اپنے عوام کی توقعات پوری کرنے میں ناکام ہیں۔ تاریخ کا یہ سبق ہے کہ جو حکومتیں اپنے ملک میں غیر مقبول ہوجاتی ہیں وہ بیرونی دنیا اور ہمسایوں کے لیے بڑا مسئلہ بن جاتی ہیں، کیونکہ یہ حکومتیں عوام کی حمایت کے حصول کے لیے اور مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے دنیا کے ساتھ جھگڑے کھڑے کرتی ہیں اور پھر یہ جھگڑے بڑے حادثات کا سبب بن جاتے ہیں۔
چین کی ابھرتی معاشی اور فوجی طاقت، امریکا میں بڑھتی تقسیم، مشرق وسطیٰ کے بحران، یورپ میں قوم پرستی اور پاپولسٹ حکومتوں کا رجحان، دنیا بھر میں 7 کروڑ سے زائد بے گھر افراد اور ٹیکنالوجی و ماحولیات کی وجہ سے درپیش عدم استحکام کے مسائل اس وقت دنیا کو درپیش ہیں۔
- جنوبی بحیرہ چین میں فوجی کشیدگی کے خطرات،
- امریکا اور چین کے درمیان تجارتی اور ٹیکنالوجی کی جنگ،
- مشرق وسطیٰ میں ایران سے تصادم کے خطرات،
- سعودی عرب میں امریکی فوجی دستوں میں اضافہ اور اس کے تناظر میں امریکا کے اندر ایک اور بڑے دہشتگرد حملے کے خطرات،
- یورپی یونین کے لیے دردِ سر بنا ہوا اٹلی کی حکومت کے قرضوں کا بحران اور اطالوی حکومت کا یورپی یونین کے بجٹ اصولوں سے انحراف،
- یوکرین میں روس کی مداخلت اور جنگ کے امکانات،
- دنیا کی بڑی طاقتوں میں سائبر جنگ
یہ سب وہ امکانات و خطرات ہیں جو دنیا کو کسی بھی بڑے حادثے میں دھکیل سکتے ہیں اور دنیا کی سیاسی قیادت میں رابطوں کا فقدان ان بحرانوں کو گہرا کرنے میں کردار ادا کر رہا ہے۔
دنیا کو لاحق بڑے بڑے مسائل
کمزور پڑتی اقوامِ متحدہ
بین الاقوامی اداروں کی بقا کو بھی خطرہ لاحق ہے، اقوام متحدہ کو رکن ممالک کی طرف سے واجب الادا رقوم کا بحران پیدا ہوچکا ہے۔ دنیا بھر میں جنگوں اور قدرتی آفات سے بے گھر ہونے والوں کی مدد کے لیے اس ادارے کے پاس مناسب فنڈز نہیں۔ کثیرالقومی اداروں کو چھوڑ کر اپنے اپنے مفادات کا تحفظ کرنے کا چلن ہے۔
یورپی یونین کے مسائل
یورپی یونین کے اندر یونین مخالف سیاستدان مضبوط ہو رہے ہیں۔ پھر یورپی یونین کے اندر یورپی شہریوں کی آزادانہ نقل و حرکت پر اب اختلاف شروع ہوچکا ہے، تارکینِ وطن کا مسئلہ یورپی یونین کے ملکوں میں اختلاف کا بڑا سبب بن رہا ہے، روس کے ساتھ تعلقات بھی یورپی ملکوں کے اندر وجہ نزاع ہیں۔
کمزور پڑتا امریکا اور اس کے صدر ٹرمپ
70 سال سے کامیاب ترین فوجی اتحاد نیٹو کو ٹرمپ کی پالیسیوں سے خطرہ ہے، امریکا نے روس کے ساتھ جوہری میزائلوں کا معاہدہ بھی یکطرفہ ختم کردیا اور ماحولیات پر پیرس معاہدے سے بھی نکل چکا۔ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کو بھی ٹرمپ انتظامیہ تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔ یہ وہ حالات ہیں جن میں دنیا کا مستقبل غیر یقینی اور عدم تحفظ کا شکار ہے۔ مستقبل کے بحرانوں سے بچنے کے لیے ان حالات میں نئے معاہدوں اور نئے بین الاقوامی اداروں کی تشکیل کے امکانات بہت کم ہیں۔
اگرچہ امریکا واحد سپر پاور ہے لیکن امریکی خود اب اس بات پر متفق نہیں کہ دنیا میں ان کا کردار کیا ہونا چائیے؟ صدر ٹرمپ کو الزام دیا جارہا ہے کہ وہ اس کی وجہ ہیں، جبکہ ٹرمپ صرف ایک علامت ہیں اس کنفیوژن کی۔ اگر ٹرمپ دوبارہ منتخب نہیں ہوتے تب بھی دنیا اور اس میں امریکی کردار پہلے جیسا نہیں ہوگا۔
سابق صدر جارج ڈبلیو بش کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے 8 سال بعد امریکیوں نے بارک اوباما کو صدر کیوں چنا تھا؟ کیونکہ اوباما نے وعدہ کیا تھا کہ وہ عراق اور افغانستان کی جنگیں ختم کرے گا۔ یہی وعدہ ٹرمپ نے کیا کہ وہ جنگیں ختم کرکے فوج واپس لائیں گے اور امریکی ترقی پر توجہ دیں گے، پھر ٹرمپ پر الزام کیوں؟
امریکی دنیا کو چلانے کا عزم نہیں رکھتے، اس سے بھی پیچھے چلے جائیں یعنی 1992ء میں صدر کلنٹن نے سرد جنگ کے خاتمے کا اعلان کیا تھا اور جنگوں پر اٹھنے والے اخراجات کو امریکا میں لگانے کا وعدہ کیا تھا۔
بطور سپر پاور امریکا دنیا کو چلانے کے حوالے سے ہمیشہ ہی ہچکچاہٹ کا شکار رہا، اور اسی ہچکچاہٹ نے دنیا میں طاقت کا خلا پیدا کیا۔ یورپ اپنے اقتصادی اور معاشی مسائل میں الجھا ہوا ہے، چین کے صدر شی جن پنگ نے چین کے نئے دور کے آغاز کا اعلان کیا لیکن جب دنیا چلانے اور اس کا بوجھ اٹھانے کی بات آتی ہے تو چین بھی آگے نہیں بڑھتا۔
گلوبلائزیشن: نعمت یا زحمت؟
گلوبلائزیشن کی وجہ سے دنیا ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوئی ہے، دنیا بھر میں قومی تہواروں پر جو آتش بازی ہوتی ہے اس کا بڑا حصہ چین سے آتا ہے، دنیا بھر میں کسٹمر سروسز بھارت سے فراہم ہو رہی ہیں، کاروں کے پارٹس کئی ملکوں میں تیار ہوتے ہیں، 2 عشروں کے دوران ایک ارب سے زیادہ افراد گلوبل مڈل کلاس کا حصہ بنے، ترقی کی رفتار بڑھی لیکن اسی گلوبلائزیشن کی وجہ سے یورپ اور امریکا میں بے روزگاری بڑھ گئی، جبکہ کاروبار چین، لاطینی امریکا، جنوب مشرقی ایشیا اور سب سہارا افریقا کی طرف منتقل ہوئے اور کمپنیوں نے وہاں کا رخ کیا۔
آج جو امریکا اور چین کے درمیان تجارتی جھگڑا ہے وہ اسی گلوبلائزیشن کا ایک ثمر ہے۔ اس سے پہلے حکومتیں کاروبار میں رکاوٹ نہیں بن رہی تھیں لیکن اب ملازمت کے مواقع کے لیے حکومتیں رکاوٹ بنیں گی۔
ٹیکنالوجی، انفارمیشن اور سائبر جنگ کے خطرات
ٹیکنالوجی کی وجہ سے پہلے ہی کئی پروفیشن داؤ پر لگے ہیں اس پر ملازمتیں اگر بیرونِ ملک منتقل ہوں گی تو سیاست اس کی راہ میں آئے گی۔ خوراک اور سروسز کی گلوبل سپلائی سب سے زیادہ متاثر ہوگی لیکن یہ اثرات فوری نہیں، کیونکہ جب تک کمپنیوں کو یہ نہیں لگے گا کہ اب سخت فیصلوں کے بغیر گزارا نہیں وہ کاروبار کو پہلے کی طرح چلانے کی کوشش کریں گی، لیکن بالآخر کمپنیاں خوراک اور سروسز کے شعبہ میں مقامی کسٹمرز کے لیے مقامی پیداوار پر مجبور ہوں گی۔
ڈیٹا اور انفارمیشن کے شعبہ میں بھی دنیا 2 حصوں میں بٹ رہی ہے۔ اس سے پہلے ورلڈ وائڈ ویب یا انٹرنیٹ کے لیے ایک ہی طرح کے اصول اور معیار تھے، لیکن اب امریکا اور چین 2 مختلف آن لائن سسٹم تشکیل دے رہے ہیں۔
امریکی انٹرنیٹ اور ایکو سسٹم نجی شعبہ کے پاس ہے جس پر امریکا کا مکمل کنٹرول نہیں، جبکہ چین کا ایکو سسٹم مکمل طور پر ریاستی کنٹرول میں ہے۔
یہ 2 انٹرنیٹ سسٹم مستقبل کی سائبر جنگ کا حصہ ہوں گے۔ یہ 2 انٹرنیٹ سسٹم دنیا کے 2 حصوں میں تقسیم کا سبب بنے گا، مستقبل کی دیوار برلن کہاں کھنچے گی؟ کیا یورپ امریکا کے ساتھ ہوگا؟ کیا یورپ کا ہر ملک انفرادی فیصلہ کرے گا؟ بھارت کہاں کھڑا ہوگا؟ جنوبی کوریا اور جاپان کی پوزیشن کیا ہوگی؟ ابھی اس کا اندازہ ممکن نہیں۔
امریکا میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کیا مستقبل میں بھی نجی شعبہ کے پاس ہوگی یا پھر امریکا ٹیکنالوجی ملٹری کمپلیکس بنائے گا؟ اس کے لیے ابھی کچھ انتظار کرنا ہوگا۔
چین بمقابلہ امریکا
2019ء میں چین اور امریکا کی طرف سے ایک دوسرے کی مصنوعات پر اضافی ٹیکسوں کے نفاذ سے دوسری سرد جنگ کا آغاز ہوچکا ہے۔اس جنگ کو ٹرمپ نے شروع کیا لیکن اسے ڈیموکریٹ پارٹی میں بھی حمایت حاصل ہے اور ڈیموکریٹ صدارتی امیدوار الزبتھ وارن نے چین کے معاملے میں سخت مؤقف کی حمایت کی ہے۔
امریکا اور چین ٹیکنالوجی کی جنگ میں ہیں۔ ہواوے کے فائیو جی (5G) نیٹ ورک پر امریکا کے خدشات اور ہواوے پر امریکی پابندیاں اس کا ثبوت ہیں۔
پھر امریکا کی طرف سے سنکیانگ کے مسلمانوں کے حقوق پر شور اور وہاں اس حوالے سے قانون کا پاس ہونا اسی سرد جنگ کا نتیجہ ہے۔ ہانگ کانگ کے مظاہروں کو بھی امریکا کی طرف سے مدد مل رہی ہے۔ اس سرد جنگ میں کیوبا کے میزائل بحران جیسا کچھ نہیں ہوگا بلکہ اس جنگ کا نتیجہ سائبر حملوں کی صورت میں نکل سکتا ہے یا پھر خلائی جنگ شروع ہوسکتی ہے، لیکن بین البراعظمی جنگ کے امکانات نہیں۔ یہاں یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ 20 دسمبر 2019ء کو صدر ٹرمپ نے جس دفاعی بجٹ پر دستخط کیے اس میں امریکی فوج کی خلائی فورس بنانے کی منظوری بھی شامل ہے۔
2019ء صدر ٹرمپ کی ناکامیوں کا سال
2019ء صدر ٹرمپ کی سفارتی ناکامیوں کا سال بھی ہے۔ صدر ٹرمپ نے سفارتی معاملات کو کاروباری انداز میں نمٹانے کا طریقہ اپنایا جس نے امریکا کو سفارتی معاملات میں بے اعتبار کردیا۔
شمالی کوریا سے معاملات
صدر ٹرمپ نے شمالی کوریا کے لیڈر کِم جونگ اُن سے مذاکرات میں بظاہر بہت زبردست کاروباری معاملہ کرنے کی کوشش کی لیکن اس سے کِم جونگ اُن نہ صرف ناراض ہوگئے بلکہ اسے دھوکہ دہی کی کوشش سمجھا۔
مذاکرات میں شمالی کوریا کے جوہری پروگرام کی مرحلہ وار بندش پر بات ہو رہی تھی اور اس کے بدلے پابندیاں بھی بتدریج ختم ہونی تھیں لیکن ٹرمپ نے شمالی کوریا کا سارا جوہری پروگرام فوری لپیٹنے اور اسے امریکا کے حوالے کرنے کی بات کی اور اس کے بدلے تمام پابندیاں بھی فوری اٹھانے کی پیشکش کی۔
لیبیا کے صدر معمر قذافی یہ بھگت چکے تھے اور کِم جونگ اُن اس کا انجام جانتے تھے، اب صدر ٹرمپ، شمالی کوریا کی طرف سے نئے سال کے تحفے کے انتظار میں اپنے پام بیچ ریزورٹ پر چھٹیاں گزار رہے ہیں۔
6 اکتوبر کو صدر رجب طیب اردوان کے ساتھ فون پر بات کے بعد صدر ٹرمپ نے شام سے فوجی انخلا کا اعلان کیا اور ترکی کو شام کے مسئلہ میں مرضی کی اجازت دی۔ دنوں کے اندر امریکی اسپیشل فورسز کو ترک شام سرحد پر چیک پوسٹیں خالی کرنے کلا حکم ملا، امریکا نے کرد اتحادیوں کو اکیلا چھوڑ دیا اور 2 ہفتے بعد صدر ٹرمپ ترکی کو شام میں مداخلت سے روکنے کی کوشش کرتے پائے گئے۔ ساتھ ہی امریکی فوجیوں کو واپس شام جانے کا حکم ملا جس کا مقصد ٹرمپ کے اپنے الفاظ میں شام کے تیل کے ذخائر پر قبضہ برقرار رکھنا تھا۔
صدر ٹرمپ کے یہ الفاظ امریکا پر جنگی جرم کا الزام عائد کرنے کے لیے کافی ہیں کیونکہ کسی دوسرے ملک کے وسائل پر قبضہ جنگی جرم کے زمرے میں ہی آئے گا۔
اس بیان کے بعد پینٹاگون کو اس کی وضاحتیں کرنا پڑیں اور کہا گیا کہ ان کا مقصد تیل ذخائر دہشت گردوں کے ہاتھ لگنے سے روکنا ہے۔امریکی فوج ایک بار پھر شام کے کردوں کو تعاون پیش کر رہی ہے لیکن کیا کرد اب ان پر اعتماد کر پائیں گے؟ صدر اردوان کردوں کو اکیلا کرنے کے لیے صدر ٹرمپ پر دباؤ جاری رکھیں گے اور ٹرمپ موڈ بدلتے ہی صدر اردوان کی بات مان بھی سکتے ہیں۔
افغانستان اور بدلتے امریکی فیصلے
افغانستان میں امریکی صدر نے 2 بڑے یوٹرن لیے۔ امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے تقریباً ایک سال طالبان کے ساتھ براہِ راست مذاکرات کیے حالانکہ کابل حکومت اس معاملے میں ان کے ساتھ نہیں تھی۔ ستمبر میں جب مذاکرات کے نتیجے میں معاہدہ تیار تھا تو امریکی صدر نے کابل میں ایک خودکش حملے کے بعد مذاکرات ختم ہونے کا اعلان کردیا، حالانکہ اس سے پہلے بھی مذاکرات کے دوران جنگ جاری تھی۔
مذاکرات ختم کرنے کا اعلان ایسے وقت ہوا جب امریکی صدر طالبان کے ساتھ کیمپ ڈیوڈ میں ملاقات کا ارادہ رکھتے تھے۔ مذاکرات ختم ہونے کے 3 ماہ سے بھی کم عرصے میں ہی صدر ٹرمپ نے کابل کا سرپرائز دورہ کیا اور طالبان کے ساتھ مذاکرات جاری رہنے کا اعلان کردیا۔
ایران سے معاملات
ایران نے جون میں امریکی ڈرون مار گرایا تو صدر ٹرمپ نے ایران کی تنصیبات پر فضائی حملے کا حکم دے دیا۔ امریکی طیارے حملے کے لیے اڑان بھر چکے تھے اور صرف 10 منٹ کا وقت باقی تھا جب انہوں نے حکم واپس لے لیا اور کہا کہ انسانی جانوں کے ضیاع سے بچنے کے لیے حکم واپس لیا۔ حالانکہ کسی بھی حملے سے پہلے صدر کو اس کے نتائج اور ممکنہ ہلاکتوں کا بتایا جاتا ہے پھر اچانک ہلاکتوں سے بچنے کا کیا جواز؟ امریکی صدر کی پالیسیوں کو سفارتی پالیسیاں نہیں کہا جاسکتا، کیونکہ سفارتی سرگرمیاں بہت مربوط اور منظم ہوتی ہیں اور گہری سوچ بچار کا نتیجہ ہوتی ہیں۔
یوکرین سے معاملات
یوکرین کی معاشی اور فوجی مدد امریکی سفارتی اور فوجی پالیسی کا حصہ تھی جس کا مقصد یوکرین کو روس کے مقابلے میں مزاحمت پر مدد دینا تھا لیکن صدر ٹرمپ نے اس مدد کو اپنے سیاسی حریف کے خلاف کارروائی کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا اور اس کے نتیجے میں اب مواخذے کا سامنا کررہے ہیں۔
ڈی آف دی سنچری
اسرائیل فلسطین تنازع پر صدر ٹرمپ کی ڈیل آف دی سنچری سامنے نہیں آسکی ہے۔ اس ڈیل کے ذمہ دار ان کے داماد جارڈ کشنر تھے لیکن وہ اسرائیلی مالیاتی کمپنیوں سے قرض لینے میں مصروف رہے۔
روس سے معاملات
صدر ٹرمپ نے روس کے ساتھ میزائل معاہدہ توڑ دیا، جس کا کوئی فائدہ نظر نہیں آیا ماسوائے اس کے کہ امریکا نے چند میزائل تجربات کیے لیکن ان میزائلوں کا کوئی فائدہ اس لیے نہیں کہ ایشیا یا یورپ میں کوئی بھی ملک ان امریکی میزائلوں کی تنصیب کے لیے رضامند نہیں۔ روس کے ساتھ معاہدہ توڑنے کا ایک جواز یہ بیان کیا جا رہا ہے کہ چین کو بھی معاہدے میں شامل کرنا ہے لیکن چین اس کے لیے رضامند نہیں اور نہ مستقبل میں ایسا ہوتا نظر آتا ہے۔
نیٹو کا مستقبل خطرے میں
صدر ٹرمپ کے اپنے یورپی اتحادیوں کے ساتھ تعلقات بھی زیادہ خوشگوار نہیں۔ نیٹو سربراہ کانفرنس کے موقع پر فرانسیسی صدر، کینیڈا اور برطانیہ کے وزرائے اعظم کی لیک ہونے والی گفتگو اس کی سب سے بہتر عکاس ہے۔
70 سال پہلے نیٹو کی تشکیل کا مقصد سوویت یونین کو یورپ میں پیش قدمی سے روکنا تھا لیکن اس اتحاد کو امریکا کی من مرضی کے مطابق استعمال کیا جاتا رہا۔ اب سوویت یونین قصہ پارینہ ہوچکا۔ اس اتحاد کا آرٹیکل 5 رکن ملک کو حملے یا خطرے کی صورت میں اتحادیوں کو اس کے دفاع کا ذمہ دار قرار دیتا ہے اور آرٹیکل 5 ایک ہی بار استعمال ہوا۔
نائن الیون حملے کے بعد امریکا کا اتحادی ملکوں کو اخراجات میں برابر کی رقم نہ دینے کا طعنہ اس اتحاد میں پھوٹ ڈال رہا ہے۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد اب اس اتحاد کو زندہ رکھنے کے لیے اسے چین کے خلاف استعمال کیے جانے کی کوشش ہو رہی ہے تاہم فرانس کے صدر کا کہنا ہے کہ نیٹو کا دشمن روس ہے نہ چین، بلکہ دہشت گردی ان کے لیے بڑا خطرہ ہے۔
چین کی فوجی طاقت دن بدن بڑھ رہی ہے اور بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے تحت چین ایشیا بحرالکاہل میں معاشی مفادات پھیلا رہا ہے۔ چین کو خطرہ سمجھنے یا اس سے نمٹنے کے حوالے سے یورپی ملکوں میں اختلاف ہے۔ اٹلی بخوشی چین کے زیرِ اثر جا رہا ہے۔ اسپین بھی چین کے ساتھ معاشی منصوبے بنا رہا ہے۔ نیٹو کے بنیادی 29 رکن ملکوں کے علاوہ پارٹنر ملک جنوبی کوریا، جاپان اور آسٹریلیا چین کے بڑھتے ہوئے علاقائی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں۔ نیٹو سربراہ اجلاس کے اختتام پر مشترکہ اعلامیے میں پہلی بار چین کو ابھرتا ہوا نیا چیلنج کہا گیا جس سے نمٹنے کے لیے متفقہ سوچ پر زور دیا گیا۔
چین اور سوویت یونین میں کیا فرق ہے؟
چین کا معاملہ سوویت یونین سے مختلف ہے۔ سوویت یونین کی طرف سے جارحیت کے خطرات تھے لیکن چین حکومتوں کی مرضی کے ساتھ یورپ میں اہم انفرااسٹرکچر منصوبوں میں شریک ہورہا ہے اور کمزور معاشی حالات والے یورپی ملک چین کی سرمایہ کاری کی خاطر اسے رسائی دے رہے ہیں۔
وسطی اور مشرقی یورپ کے ملک چین کو فنانس کا ایک ذریعہ سمجھتے ہیں اور اسے اسٹریٹجک خطرے کے طور پر نہیں دیکھتے۔ امریکا کی طرف سے سخت مؤقف اور فائیو جی ٹیکنالوجی کے لیے چین کی طرف دیکھنے والوں کو دھمکیاں امریکا کے مفاد میں نہیں ہیں۔ چین کے حوالے سے متفقہ مؤقف اپنانے کے لیے وقت درکار ہے لیکن امریکی لب و لہجہ اس اتفاق رائے میں حائل ہو رہا ہے۔
یورپ کے مسائل
یورپ میں ایک اور بڑا مسئلہ برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی ہے۔ بورس جانسن یورپی یونین سے علیحدگی کی پارلیمنٹ سے منظوری لے چکے لیکن اگلا سال ان کے لیے چیلنجز سے بھرا ہے۔ سب سے بڑا چیلنج یورپی یونین کے ساتھ تجارتی معاہدہ ہے۔
تجارتی معاہدوں کا تجربہ رکھنے والوں کی رائے میں ایک سال کے اندر معاہدہ طے پانا ناممکنات میں سے ہے، ایسا صرف ایک ہی صورت میں ممکن ہے کہ برطانیہ یورپی یونین کی تمام شرائط مان لے۔
ایک سال کے اندر معاہدہ نہ ہونے کا مطلب بغیر معاہدے کے علیحدگی ہے۔ یورپی یونین کی شرائط پر معاہدہ بھی علیحدگی چاہنے والے برطانوی عوام کی امیدوں کے خلاف ہوگا اور بغیر معاہدے نکلنا بھی مفادات کو نقصان پہنچائے گا۔
برطانیہ کو آئرلینڈ میں ایک اور ریفرنڈم کے چیلنج کا بھی سامنا ہوگا جو آئرلینڈ کی برطانیہ سے علیحدگی پر منتج ہوسکتا ہے۔ یورپی یونین سے علیحدگی پر برطانیہ اور امریکا کے درمیان تجارتی معاہدے کی ضرورت پڑے گی اور امریکا برطانیہ کی مجبوری کا فائدہ اٹھانے کی پوزیشن میں ہے۔ لہٰذا اس تجارتی معاہدے پر برطانیہ کے اندر بہت شور اٹھ سکتا ہے۔
دو دہائیوں سے زائد عرصہ سے صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات بالخصوص مشرق وسطیٰ ان کی دلچسپی کے موضوعات ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔