سال 2019ء پاکستانی معیشت کے لیے کیسا رہا؟
سال 2019ء کے چند ہی ایام باقی رہ گئے ہیں۔ اس سال دنیا سمیت پاکستان میں بھی بہت کچھ ہوا۔ جب سال ختم ہوگا تو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کے پہلے ڈیڑھ سال مکمل ہوجائیں گے۔
عمران خان جو عوام کو کرپشن اور بدعنوانوں سے نجات دلا کر خوشحالی اور ترقی کے سہانے خوابوں کے ساتھ حکومت میں آئے تھے، ان کی حکومت میں معیشت کا جو حال ہوا وہ خود عمران خان نے 22 نومبر کو میانوالی میں خطاب کرتے ہوئے بتادیا۔
معیشت کے حوالے سے بیان دیتے ہوئے وزیرِاعظم پاکستان نے بہت سے اسباق پڑھا ڈالے جس میں مہنگائی میں اضافے، روپے کی قدر میں کمی کے ساتھ ساتھ کرنٹ اکاونٹس خسارے کے خاتمے کا دعوٰی کرتے ہوئے خان صاحب نے فرمایا کہ پاکستان صحیح راستے پر لگ گیا ہے اور ہمارا راستہ ٹھیک ہوگیا ہے۔
ان کی کہی بات سر آنکھوں پر، لیکن یہاں یہ سوال ہمیں خود سے بھی پوچھنا چاہیے کہ کیا واقعی پاکستان صحیح راستے پر لگ گیا ہے؟
ہم اس سوال کے جواب کو ڈھونڈنے کے لیے وزیرِاعظم عمران خان کی اسی تقریر میں اٹھائے گئے مختلف نکات کی روشنی میں دعوؤں اور حقیقت کا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے۔
ساتھ ساتھ عمران خان کے تعینات کردہ گورنر اسٹیٹ بینک نے موڈیز کی جانب سے پاکستان کے معاشی مستقبل کو منفی سے مستحکم کرنے پر جو بیان جاری کیا ہے، اس پر بھی معیشت کے موجود حالات میں جائزہ لکھا جائے گا۔
روپے کی شرح مبادلہ
سال 2019ء پاکستانی معیشت کے ساتھ ساتھ پاکستانی روپے کی قدر کے لیے بھی بدترین سال ثابت ہوا ہے۔ اس حوالے سے وزیرِاعظم خان نے اپنے خطاب میں یوں بات کی، ’یہ اللہ کا کرم ہے کہ آج ہمارا روپیہ صرف 35 فیصد گرا اور ڈالر آج 155 کا۔ لیکن یہی ڈالر 300 پر بھی جاسکتا تھا۔
میں ذاتی طور پر اس بیان کو غیر ذمہ دارانہ بیان تصور کرتا ہوں، کیونکہ عمران خان نے یہ بیان دے کر روپے کی مستقبل میں گراوٹ کا بینچ مارک مقرر کردیا ہے۔ اب اگر کسی بھی وجہ سے روپے کی قدر گری تو سٹے باز اس کو 300 روپے تک لے جانے کی کوشش کریں گے۔ یہی بینچ مارک اب تمام پالیسی سازوں اور معاشی تجزیہ کاروں کے ذہنوں میں بھی نقش رہے گا، اور وہ اس صورتحال کو لے کر مسلسل خدشے کا شکار رہیں گے۔
مگر حال ہی میں آئی ایم ایف سے پاکستان آنے والے گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر روپے کی قدر میں کمی کو اسٹیٹ بینک کی پالیسی کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ موڈیز کی جانب سے پاکستان کے معاشی مستقبل کو منفی سے مستحکم کرنے پر اپنے جاری کردہ بیان میں گورنر اسٹیٹ بینک کا کہنا تھا کہ ’یہ مثبت پیش رفت حالیہ مہینوں میں اقتصادی پالیسی سازوں کی جانب سے کیے گئے سخت فیصلوں کے اعتراف کی عکاسی کرتی ہے جن میں بتدریج ایکسچینج ریٹ کی قدر میں کمی بھی شامل ہے، جو مئی 2019ء میں مارکیٹ پر مبنی ایکسچینج ریٹ نظام پر منتج ہوئی۔
خان صاحب کہہ رہے ہیں کہ روپے کی قدر میں کمی سابقہ حکومت کی وجہ سے ہوئی مگر ان کے لگائے ہوئے گورنر جن پر خان صاحب کو فخر ہے وہ کہہ رہے ہیں پالیسی کے تحت روپے کی قدر میں کمی کی گئی ہے۔
سال 2019ء کے پہلے 6 ماہ مسلسل گراوٹ دیکھی گئی اور 26 جون کو روپیہ تاریخ کی کم ترین سطح پر دیکھا گیا۔ اس دن لوگوں نے ایک ڈالر 164 روپے سے زائد میں خریدا۔
جولائی میں مالی سال کے آغاز سے ہی روپے کی گرتی قدر پر کسی قدر روک لگ گئی اور اس کی وجہ آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے معاہدے پر عملدرآمد، قرض کی اقساط کی فراہمی کے ساتھ ہی سعودی عرب کی جانب سے ایندھن کی مؤخر ادائیگی پر فراہمی نے فاریکس مارکیٹ کو ٹھنڈا کیا اور یوں اس نے روپے کی قدر کو مستحکم کرتے ہوئے ڈالر اور دیگر کرنسیوں کے مقابلے میں کمی کی جانب گامزن کیا۔
روپے کی قدر میں اتار چڑھاؤ کے علاوہ اسٹیٹ بینک نے فاریکس کمپنیوں کے کاروبار پر بھی سختی کی جس میں ڈالر کے حوالے سے کوریئر سروس کا خاتمہ، شناختی کارڈ کی شرط پر عمل، بغیر کاونٹر ڈیلنگ کی بندش اور ڈالر خریدنے یا فروخت کرنے والوں کا ڈیٹا جمع کرنے جیسے اقدامات شامل تھے۔ ان شرائط کی وجہ سے ایکسچینج کمپنیوں کے ذریعے ڈالر میں سرمایہ کاری کرنے والوں کی حوصلہ شکنی ہوئی اور ایکسچینج کمپنیوں میں ڈالر فروخت کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔
فاریکس ایسوسی ایشن کے سربراہ ملک بوستان کا کہنا ہے کہ ان کی ایسوسی ایشن ماہانہ انٹر بینک میں 25 کروڑ ڈالر اور سالانہ 3 ارب ڈالر سے زائد انٹر بینک مارکیٹ میں سرینڈر کرتی ہے، جس سے حکومت کے پاس اضافی ڈالر دستیاب ہورہے ہیں۔
ملک بوستان کا کہنا ہے کہ ایکسچینج مارکیٹ میں سختی کی وجہ سے بلیک مارکیٹ میں ڈالر کی فروخت ہورہی ہے۔ بلیک مارکیٹ کا ڈالر ایران اور افغانستان منتقل ہورہا ہے اور پھر یہ چمن اور کوئٹہ کے بارڈر سے تافتان جارہا ہے۔
افراطِ زر یا مہنگائی کی شرح میں اضافہ
زیرِ غور تقریر میں خان صاحب نے اپنی حکومت کے قیام کے تقریباً ڈیڑھ سال بعد بھی مہنگائی کی ذمہ داری سابقہ حکومت پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ کہتے ہیں ہم مہنگائی لے کر آئے، مہنگائی اس لیے آئی کہ وہ اتنا بڑا خسارہ چھوڑ کر گئے کہ روپیہ یہاں تک گر گیا، اور جب روپیہ گرا تو ساری چیزیں مہنگی ہوگئیں‘۔
مگر مہنگائی کی داستان بھی روپے کی قدر میں کمی کی طرح اتنی سادہ نہیں ہے بلکہ حکومتی پالیسی کا نتیجہ ہے۔ کسی بھی ملک میں مہنگائی کو کنٹرول کرنا مرکزی بینکوں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اس مقصد کے لیے دنیا بھر کے مرکزی بینک ایسی پالیسی اپناتے ہیں جس سے ملک میں قیمتوں میں استحکام رہے اور بنیادی شرح سود اور افراطِ زر دونوں میں تال میل قائم رہے، تاکہ ملکی کرنسی کو مستحکم کیا جاسکے۔
مگر پاکستان کے مرکزی بینک کے سربراہ رضا باقر نے ایسی پالیسی اپنائی جس کے بعد روپے کی قدر میں تیزی سے گراوٹ ہوئی اور انہی پالیسیوں نے مہنگائی کو جنم دیا۔ گورنر اسٹیٹ بینک کے اسی بیان میں مہنگائی کی وجہ یوں بیان کی گئی کہ ’بڑھتی ہوئی مہنگائی کی جزوی وجوہات یہ ہیں: ایکسچینج ریٹ میں مسابقت کی بحالی کی ضرورت، سرکاری شعبے میں مالیاتی خسارے کم رکھنے کے لیے بڑھے ہوئے سرکاری نرخ، اور غذائی رسد میں غیر متوقع تعطل ہے‘۔
گورنر اسٹیٹ بینک کی اس ٹیکنیکل زبان میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ روپے کی قدر میں کمی مہنگائی کی سب سے اہم وجہ ہے۔
لیکن اسٹیٹ بینک ماہانہ بنیادوں پر مہنگائی سے متعلق جو مانیٹر جاری کرتا ہے اس کے مطابق اکتوبر تک عمومی مہنگائی کی سطح 11.1 فیصد تھی۔ مگر مانیٹری کے صفحہ 2 پر موجود Heat Map of CPI Inflation کو بہت ہی خطرناک بتاتا ہے۔
اس کے مطابق جنوری 2019ء میں عام استعمال کی اشیا میں عمومی طور پر 7.2 فیصد کی شرح سے اضافہ ہورہا تھا، جس میں غذائی اجناس کی قیمتوں میں 2.4 فیصد کا اضافہ تھا۔ طویل عرصے تک اسٹور کی جانے والی Perishable یا غذائی اجناس کی قیمتوں میں 5.3 فیصد کا اضافہ تھا، جبکہ Non-Perishable یا جلدی خراب ہونے والی غذائی اجناس میں 16.7 فیصد قیمتوں میں کمی تھی یعنی Inflation کے بجائے Deflation یا تخفیفِ زر تھا۔ پھر توانائی میں 21فیصد مہنگائی ہوئی تھی جبکہ توانائی کے علاوہ مہنگائی 10.4 فیصد تھی۔
اکتوبر کے نسبتاً ٹھنڈے مہینے میں یہ صورتحال مزید گرم ہوگئی اور عام استعمال کی اشیا کی قیمتوں میں عمومی اضافہ 11.1 فیصد ہوا ہے، جس میں سے غذائی اجناس کی قیمتوں میں اضافہ 13.6 فیصد ہوا ہے۔ غلے کی قیمت میں 11.5 فیصد جبکہ جلد خراب ہوجانے والی غذائی اشیا کی قیمت 26.7 فیصد تک مہنگی ہوگئی۔
پاکستان بیورو آف اسٹیٹس کے مطابق نومبر کے دوران شہروں میں کھانے پینے کی اشیا 16.6 فیصد اور دیہی علاقوں میں 19.3 فیصد کی شرح سے مہنگی ہوئی ہیں۔
صنعتوں کی پیداوار
معیشت میں مہنگائی اور روپے کی قدر صنعتی پیداوار کو بُری طرح متاثر کرتے ہیں۔ اگر صنعتی پیداوار کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ مالی سال 2016ء میں صنعتی پیداوار 5.7 فیصد، سال 2017ء میں 4.6 فیصد اور سال 2018ء میں 4.9 فیصد کی شرح سے اضافہ ہوا۔ جون 30 کو ختم ہونے والے مالی سال کے لیے صنعتی ترقی کا ہدف 7.6 فیصد رکھا گیا تھا، مگر صنعتی ترقی محض 1.4 فیصد کی شرح سے ترقی کرسکی۔
اسٹیٹ بینک خود اپنی رپورٹ میں صنعتی ترقی کی گراوٹ کی وجوہات میں حکومت کی جانب سے ترقیاتی اخراجات میں کٹوتی اور سخت زری (مانیٹری) پالیسی کو بیان کرتا ہے۔ یہ سست رفتاری سرکاری و نجی شعبے دونوں کی کم سرمایہ کاری کی بنا پر تعمیرات سے منسلک صنعتوں میں زیادہ نمایاں تھی۔
گاڑیاں بنانے کی صنعت میں مقامی وسائل پر انحصار کم ہے، اس لیے روپے کی قدر میں کمی سے گاڑیاں بنانے کی صنعت بُری طرح متاثر ہوئی ہے۔ ٹیکسٹائل اور غذائی صنعتوں کی کارکردگی بھی پست رہی ہے۔
غربت میں اضافہ
مہنگائی میں اضافے اور صنعتی پیداوار کا براہِ راست تعلق غربت سے ہے۔ اگر معیشت میں تیز رفتاری سے مہنگائی بڑھے اور کاروباری ادارے اور صنعتوں میں کام رک جائے تو اس کا نتیجہ غربت میں اضافے پر پڑتا ہے۔ مگر اس کی چند اضافی وجوہات گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر نے اپنے جاری کردہ بیان میں یوں بیان کی کہ ’اگرچہ مارکیٹ میں یہ پیش رفت خوش آئند ہے تاہم یہ یقینی بنانا بھی ضروری ہے کہ ابھرتی ہوئی مالی بہتری کو متوسط اور پست آمدنی والے طبقوں کے لیے حقیقی فائدے میں ڈھالا جائے۔ معاشرے کے ان طبقات نے رد و بدل کے مشکل فیصلوں کا بیشتر بوجھ برداشت کیا ہے جن میں تنخواہ دار ملازمین کی تنخواہوں سے براہِ راست انکم ٹیکس کی بھاری کٹوتی، بھاری بالواسطہ ٹیکس، اور بلند مہنگائی شامل ہیں۔
ماہرِ معاشیات ڈاکٹر عبدالحفیظ پاشا کا دعوٰی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے ڈیڑھ سالوں میں 80 لاکھ افراد خط غربت سے نیچے جاچکے ہیں، اور مزید ایک کروڑ افراد مالی سال کے اختتام تک خط غربت سے نیچے پہنچ جائیں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ قومی غربت کا تناسب جو جون 2018ء میں آبادی کا 31.3 فیصد تھا، وہ اب جون 2020ء تک گر کر 40 فیصد تک پہنچ جائے گا۔ اس طرح پاکستان میں خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد 6 کروڑ 90 لاکھ سے بڑھ کر 8 کروڑ 70 لاکھ ہوجائے گی۔ اگر موجودہ وقت کی بات کی جائے تو اس وقت یہ تعداد اپنی حد پر پہنچ چکی ہے۔ جس سے غربت میں 26 فیصد کا نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ عبدالحفیظ پاشا نے یہ اعداد و شمار کہاں سے جمع کیے؟ تو اس کا جواب انہوں نے یہ دیا کہ یہ اعداد و شمار cost based methodology کے تحت جمع کیے گئے ہیں۔
وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی اسد عمر پہلے ہی انکار کرچکے ہیں کہ حکومت کے پاس غربت میں اضافے سے متعلق اعداد و شمار موجود نہیں ہیں، مگر وہ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ غربت میں اضافہ ہوا ہے، اور کہتے ہیں کہ حکومت نے غربت کو قابو کرنے سے متعلق اقدامات بھی کیے ہیں، جس میں ان غریبوں کو تحفظ دینا شامل ہے جو میکرو اکنامک ایڈجسٹمنٹ سے پیدا ہوئے ہیں۔
حکومت کی جانب سے ٹیکسوں میں بے پناہ اضافے، توانائی کے ٹیرف کی منتقلی اور کرنسی کی قدر میں تیز رفتار کمی کی وجہ سے غربت میں اضافہ ہوا ہے۔ جون 2020ء تک ہر 10 میں سے 4 پاکستانی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہوں گے۔ ڈاکٹر پاشا کے مطابق سال 2015ء میں غربت کی شرح 36.8 فیصد تھی جو 2018ء میں 31.3 فیصد ہوئی اور طویل عرصے بعد غربت کی شرح میں 5.5 فیصد کی کمی ہوئی تھی، جس سے 60 لاکھ افراد خطِ غربت سے نکل آئے تھے۔
پاکستان میں مالی سال 19ء-2018ء کے دوران فی کس آمدنی میں اعشاریہ 9 فیصد کا اضافہ ہوا۔ سال 18ء-2017ء میں غربت 31.3 فیصد تھی جو 19ء-2018ء میں بڑھ کر 35 فیصد ہوگئی اس طرح محض ایک مالی سال میں غربت کی شرح میں 3.7 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔
زرِمبادلہ کے ذخائر
سال 2019ء کے دوران پاکستان کے زرِمبادلہ ذخائر میں بہتری دیکھی گئی۔ گزشتہ سال دسمبر میں یہ ذخائر 13 ارب 75 کروڑ ڈالر تک گِرگئے تھے۔ اگر ان کو تقسیم کیا جائے تو اس میں اسٹیٹ بینک کا حصہ 7 ارب 20 کروڑ رہا جبکہ کمرشل بینکوں کے زرِمبادلہ ذخائر 6 ارب 55 کروڑ ڈالر سے زائد تھے۔ اس حصے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ روپے کی قدر میں کمی کے سبب لوگوں نے اپنی بچتوں کو ڈالر میں تبدیل شروع کردیا ہے اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔
گزشتہ چند ماہ کے دوران پاکستان کے سرکاری زرِمبادلہ ذخائر میں اضافہ ہوا ہے، جس سے یہ افواہ جنم لینے لگی کہ نواز شریف یا آصف زرداری نے ڈیل کے نتیجے میں یہ رقم پاکستان منتقل کی ہے۔ اس سے پہلے کہ یہ افواہ مزید پھیلتی، گورنر اسٹیٹ بینک نے خود اس کی تردید کردی۔
پاکستان کے زرِمبادلہ ذخائر میں اضافے کی بڑی وجہ جولائی سے سعودی عرب کی جانب سے ایندھن کی تاخیری ادائیگی کی سہولت کا آغاز ہونے کی وجہ سے بھی ہوا ہے۔ اس کے علاوہ براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے۔
مقامی قرضہ
پاکستان کے قرض میں گزشتہ ایک دہائی کے دوران تیزی سے اضافہ ہوا ہے، اور اس پر عمران خان بطور اپوزیشن لیڈر کڑی تنقید کیا کرتے تھے جو بڑی حد تک درست بھی تھی۔ عمران خان کا دعوٰی تھا کہ حکومت میں آنے کے بعد قرضوں میں کمی کریں گے مگر ان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد قرضوں میں کمی آنے کے بجائے بہت تیزی سے اضافہ ہوگیا ہے۔
پاکستان کا قرضہ کتنا ہوگیا ہے؟ اس حوالے سے قومی اسمبلی میں پوچھے گئے سوال میں ہی سارے جواب ہیں۔ یہ اعداد و شمار وفاقی ادارہ شماریات یا اسٹیٹ بینک کے نہیں بلکہ وفاقی وزارتِ خزانہ کے جوابات ہیں جس میں بتایا گیا ہے کہ حکومت کے قیام سے ستمبر 2019ء تک وفاقی حکومت نے بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لیے 9 ہزار 300 ارب روپے کا قرض لیا ہے۔ روپے کی قدر میں کمی کے بھی قرض پر اثرات مرتب ہوئے ہیں اور روپے کی قدر میں گراوٹ سے ملک کو 2 ہزار 600 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے اور قرض میں 28 فیصد اضافہ صرف روپیہ گرنے کی وجہ سے اضافہ ہوا ہے۔
سابقہ حکومتوں نے بے انتہا قرض کیوں لیا؟ اس کی وجوہات جاننے کے لیے وزیرِاعظم عمران خان نے ڈپٹی چیئرمین نیب حسین اصغر کی سربراہی میں کمیشن قائم کیا جس کا مقصد سال 2008ء سے 2018ء کے دوران لیے گئے قرضوں کی تحقیق کرنا تھا۔ کمیشن کی جو رپورٹ میڈیا میں شائع ہوئی اس کے مطابق تمام رقم براہِ راست حکومتی کھاتوں میں آئی اور کسی فرد واحد کے بینک میں منتقل نہیں ہوئی۔
غیر ملکی قرضہ
پاکستان میں مقامی قرض کے علاوہ غیر ملکی قرض پر زیادہ کڑی تنقید ہوتی رہی ہے جو اب بھی جاری ہے۔ عمران خان کشکول توڑنے کا وعدہ لے کر حکومت میں آئے مگر آتے ہی انہیں کشکول لے کر ملک ملک گھومنا پڑگیا، تاکہ کسی بھی طرح پاکستان کے فوری طور پر واجب الادا قرض کو اتارا جائے اور ملک کو نادہندہ ہونے سے بچا لیا جائے۔
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اگست 2018ء سے ستمبر 2019ء کے درمیان مجموعی طور پر 10 ارب 36 کروڑ ڈالر کا نیا قرض لیا ہے، جس میں دوست ملکوں سے ایک اعشاریہ 8 ارب ڈالر کے قرضے حاصل کیے جن میں سرِفہرست چین ہے جس سے ایک اعشاریہ 5 ارب ڈالر اور دوسرے نمبر پر سعودی عرب ہے جس سے 151 ملین ڈالر حاصل کیے گئے۔
اس کے علاہ دیگر امداد اور قرض دینے والے اداروں سے 2 ارب 75 کروڑ ڈالر کا قرض حاصل کیا گیا ہے، جس میں ایشیائی ترقیاتی بینک اور دیگر ادارے شامل ہیں۔
پاکستان نے مارکیٹ بیس قرض بھی بڑی مقدار میں حاصل کیا ہے اور 4 ارب 80 کروڑ ڈالر کمرشل بینکوں سے حاصل کیے جس میں چینی بینکوں کے کنسورشیم سے 2 ارب 23 کروڑ ڈالر بھی شامل ہیں۔ عالمی مالیاتی فنڈ کی جانب سے اب تک پاکستان کو 99 کروڑ 12 لاکھ ڈالر موصول ہوئے ہیں۔
غیر ملکی قرضوں کی اس فہرست میں ایشیائی ترقیاتی بینک سے حال ہی میں لیا گیا 1 ارب 20 کروڑ ڈالر کا قرض شامل نہیں ہے۔ اگر اس قرض کو بھی مجموعی قرض میں شامل کیا جائے تو ڈیڑھ سال میں لیا گیا قرض 11 ارب 56 کروڑ ڈالر سے تجاوز کرجائے گا، اور یہ اتنی مدت میں پاکستان کی جانب سے لیا جانے والا سب سے بڑا قرض ہے۔
اسٹاک مارکیٹ کی کارکردگی
سالِ نو کے آغاز پر اسٹاک مارکیٹ نے پہلے ہی دن بہت زبردست کارکردگی دکھائی اور ایک دن میں انڈیکس 929 پوائنٹس اضافے کے بعد 37 ہزار 996 پوائنٹس پر بند ہوئی تھی۔
پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ کو سمجھنے کی کوشش کریں تو یہ سال 2019ء میں ایک پینڈولم کی طرح متحرک رہی۔ سال کے آغاز یعنی یکم جنوری 2019ء کو پاکستان اسٹاک مارکیٹ کا ہنڈرڈ انڈیکس 37 ہزار 996 کی سطح پر تھا اور فروری کی 4 تاریخ کو ہنڈرڈ انڈیکس 41 ہزار 614 کی سطح پر دیکھا گیا۔ جس کے بعد مارکیٹ میں تیزی سے گراوٹ دیکھنے کو ملی اور 16 اگست کو اسٹاک مارکیٹ موجودہ سال کی کم ترین سطح 28 ہزار 764 کی کم ترین سطح پر پہنچ گئی۔ جس کے بعد مارکیٹ میں گرتے سنبھلتے بتدریج بہتری دیکھی گئی اور دسمبر کی 11 تاریخ کو انڈیکس 40 ہزار 531 کی سطح پر دیکھا گیا۔
پاکستان اسٹاک مارکیٹ کے سرمایہ کاروں اور انتظامیہ کی جانب سے مارکیٹ کو سپورٹ کرنے کے لیے فنڈ لانے کی تجویز دی گئی تھی جس کو اقتصادی رابطہ کمیٹی نے بھی منظور کرلیا تھا۔
اسٹاک مارکیٹ کے لیے 25 سے 30 ارب روپے مالیت کے 2 فنڈز قائم کرنے کے لیے منظوری دی گئی اور فنڈ کو آئندہ 10 دن تک قائم کرنے کا عندیہ دیا گیا تھا۔ ایک فنڈ State Enterprise Fund (ایس ای ایف) اور دوسرا Equity Market Opportunity Fund (ای ایم او ایف) کو قائم کرنا تھا۔ یہ فنڈ مختلف اداروں نے مل کر قائم کرنا تھا اور کسی بھی نقصان کی صورت میں حکومت اس نقصان کو پورا کرتی۔
پاکستان اسٹاک مارکیٹ نے چین سے رابطہ بڑھانے کے لیے بھی اقدامات میں پیش رفت کی ہے اور چین کے شینزن ایکسچینج سے ٹریڈنگ اور سرویلنس کا نظام خرید لیا ہے۔ اسٹاک ایکسچینج کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے چیئرمین سلیمان مہدی کہتے ہیں کہ پاکستان اسٹاک ایکسچینج نے اس نظام کو خرید کر ایک نیا سنگِ میل عبور کرلیا ہے۔
بیرونِ ملک تجارت اور ادائیگیوں کا توازن
ان اقدامات سے ہماری برآمدات کی مسابقت بڑھ گئی، مہنگی درآمدات کم ہوگئیں اور ملکی صنعتوں کو یہ موقع ملا کہ وہ درآمدات کے ساتھ مقابلہ کرسکیں، اور اس کا نتیجہ کرنٹ اکاونٹ میں مستحکم بہتری کی صورت میں نکلا، جو واجبات نکالنے کے بعد اسٹیٹ بینک کے ذخائر بڑھانے کا اہم محرک رہا ہے۔ اسٹاک مارکیٹ میں اضافہ بھی مارکیٹ کے بہتر ہوتے ہوئے احساسات کا ایک عکس ہے اور اس بڑھتے ہوئے احساس کا بھی کہ ملک کی مالیات مستحکم بنیادوں پر کھڑی ہیں۔
وزیرِاعظم عمران خان اس حوالے سے کہتے ہیں کہ ’مجھے اپنی معاشی ٹیم پر اس لیے فخر ہے کہ گزشتہ 4 ماہ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ یہاں سے ڈالر باہر جانے سے زیادہ ڈالر پاکستان آرہے ہیں، اور یہ تبدیلی اشارے دے رہی ہے کہ ملک میں خسارہ ختم ہوگیا ہے۔ پھر گزشتہ 4 سال میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ ڈالر خرچ کیے بغیر روپے کی قدر 4 روپے بڑھ گئی ہے، اور ایسا اس لیے ہوا کہ ہم نے بجٹ بیلنس کردیا ہے‘۔
پاکستان میں حکومتی خسارے چاہے وہ بجٹ خسارہ ہو یا بیرونی ادائیگیوں میں خسارہ جس کو کرنٹ اکاونٹ خسارہ بھی کہتے ہیں، پی ٹی آئی حکومت نے اسے اب سیاسی مسئلہ بنا دیا ہے۔ عمران خان کی میانوالی میں کی گئی تقریر میں دعوٰی کیا گیا ہے کہ اب ملک میں کرنٹ اکاونٹ خسارہ ختم ہوگیا ہے۔ ملک میں ڈالر زیادہ آرہے ہیں اور باہر کم جارہے ہیں۔ یہ بات کسی حد تک ہی درست ہے کیونکہ کرنٹ اکاونٹ خسارہ مکمل طور پر ختم نہیں ہوا بلکہ اس میں نمایاں کمی ہوئی ہے۔ جولائی سے اکتوبر کے دوران کرنٹ اکاونٹ خسارہ 1 ارب 47 کروڑ ڈالر رہا ہے جبکہ 30 جون کو ختم ہونے والے مالی سال میں یہ 13 ارب 83 کروڑ ڈالر پر تھا۔
روپے کی قدر میں نمایاں کمی کے باوجود پاکستان کا برآمدی سیکٹر کوئی خاص کارکردگی دکھانے میں ناکام رہا ہے اور یورپ کے لیے جی ایس پی پلس کا اسٹیٹس ملنے کے باوجود پاکستان سے ٹیکسٹائل کی برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا ہے۔ پاکستان کو خدمات اور مصنوعات کی تجارت میں 7 ارب 80 کروڑ ڈالر کا خسارہ ہوا ہے جبکہ 30 جون کو ختم ہونے والے مالی سال کو 32 ارب 78 کروڑ ڈالر کا خسارہ ہوا تھا۔
غیر ملکی سرمایہ کاری
پاکستان میں ہونے والی سرمایہ کاری کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ جن کمپنیوں نے پاکستان میں منصوبے لگائے ہیں وہ اب اپنے منافع کو بھی پاکستان سے لے جارہی ہیں۔ اسٹیٹ بینک کے دستیاب اعداد و دشمار کے مطابق جنوری سے اکتوبر کے دوران غیر ملکی سرمایہ کاروں نے منافع کی مد میں 1 ارب 61 کروڑ ڈالر سے زائد اپنے پرنسپل دفاتر میں منتقل کیے ہیں۔
اگر سرمایہ کاری کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاروں نے 35 شعبہ جات میں سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔
پاکستان کا مالی سال جون میں ختم ہوتا ہے اس لیے گزشتہ مالی سال کے دوران غیر ملکی سرمایہ کاروں نے پاکستان میں ایک ارب 73 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کی جبکہ مالی سال 18ء-2017ء میں غیر ملکی سرمایہ کاروں نے پاکستان میں 3 ارب 47 کروڑ ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کی تھی۔
جولائی سے شروع ہونے والے مالی سال میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں بہتری دکھائی دے رہی ہے اور اب تک غیر ملکی سرمایہ کار براہِ راست 66 ارب ڈالر سے زائد کا سرمایہ پاکستان منتقل کرچکے ہیں۔ اس کے علاوہ اسٹاک مارکیٹ اور حکومتی قرض میں غیر ملکی سرمایہ کاری بھی ہورہی ہے۔ مگر چونکہ ملنے والے منافع کو واپس باہر بھیجا جارہا ہے اس لیے یہ سرمایہ کاری پائیدار ثابت نہیں ہو رہی۔
لگتا ہے کہ جیسے ہی موڈیز نے پاکستان کے معاشی مستقبل کو منفی سے مستحکم پر منتقل کیا ہے اس کے ساتھ ہی حکومت کے معاشی اعتماد میں بھی اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔
پاکستان چین اقتصادی راہداری (سی پیک)
پاکستان اور چین کی اقتصادی راہدری یا سی پیک کے حوالے سے معاملات سست روی کا شکار ہیں۔ اس سال سی پیک کے حوالے سے متعدد خبریں گردش کرتی رہیں جس میں امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ میں جنوبی ایشیائی امور کی سب سے اعلیٰ عہدیدار ایلس ویلز کا بیان بھی شامل ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سی پیک پاکستانی قرضوں میں اضافے کا سبب بنے گا۔
مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کے قیام کے بعد سے سی پیک تقریباً کولڈ شیلف میں رکھ دیا گیا ہے۔ سی پیک میں 3 طرح کے منصوبوں پر سرمایہ کاری ہونا تھی جس میں چینی سرمایہ کاری منصوبے، حکومتِ پاکستان سرمایہ کاری منصوبے اور دونوں ملکوں کے مشترکہ منصوبے شامل ہیں۔
سال 2019ء میں گوادر ایئرپورٹ سی پیک کا واحد بڑا منصوبہ ہے جس کا سنگِ بنیاد رکھا گیا ہے۔ جبکہ متعدد منصوبے جو منظوری کے مرحلے میں تھے مگر تاحال منظور نہیں ہوسکے ہیں۔ حکومت نے پہلے ہی سی پیک سے متعلق منصوبوں میں مختص رقوم میں 60 فیصد تک کٹوتی کردی تھی اور بجٹ میں رکھی گئی باقی ماندہ رقوم بھی سی پیک منصوبوں میں لگانے کے بجائے ممبران قومی اسمبلی فنڈ میں منتقل کردی گئیں۔
گوادر پورٹ تاحال فائبر آپٹک کے لنک کا منتظر ہے۔ فائبر آپٹک لنک نہ ہونے کی وجہ سے ایف بی آر اور کسٹم کا کمپوٹرائزڈ نظام گوادر پورٹ پر نصب نہیں ہوسکا ہے۔ پھر گوادر پورٹ کے حوالے سے ایف بی آر نے اب تک اپنے قواعد و ضوابط مرتب نہیں کیے ہیں۔ جبکہ منصوبے میں اہم ترین 250 کلومیٹر طویل سڑک کی تعمیر بھی نہیں ہوسکی ہے۔
موجودہ حکومت کا کہنا تھا کہ سی پیک میں انسانی ترقی، غربت کے خاتمے اور زرعی شعبے کے تعاون کو فروغ دیا جائے گا مگر تاحال اس حوالے سے کوئی نئے معاہدے منظرِ عام پر نہیں آسکے ہیں۔
تجزیہ
سال 2019ء بھی معاشی لحاظ سے پاکستان کے لیے بہت اچھا سال ثابت نہیں ہوسکا ہے اور آئی ایم ایف یا دیگر اداروں کی جانب سے پاکستانی معیشت پر جو پیش گوئی کی جارہی ہے، اس کی روشنی میں سال 2020ء بھی معیشت کے لیے کوئی خاص بہتر ثابت ہوتا نظر نہیں آرہا، اور معاشی ترقی آبادی میں ہونے والے اضافے کے مساوی ہی رہے گی۔
پاکستان کی معاشی ترقی میں سب سے اہم رکاوٹ سرمایہ کاری کا نہ ہونا ہے۔ پاکستان میں 1980ء کی دہائی سے لے کر اب تک بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری نہیں ہوئی، بلکہ یہ مسلسل کم ہوتی رہی ہے۔ یہی وہ بنیادی وجہ ہے جس کی وجہ سے پاکستان اپنی ہم عصر معیشتوں سے خاصا پیچھے رہ گیا۔
اس حوالے سے اوپر بھی بیان کیا گیا ہے مگر خلاصہ کرتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ معیشت میں مجموعی استحکام، ریگولیٹری عدم استحکام، بچتوں کی کم ترین شرح، کھوکھلی معاشی مارکیٹ اور سب سے بڑھ کر ایک بڑی غیر رسمی معیشت کی موجودگی بنیادی وجوہات ہیں۔
معیشت میں اصلاحات کی اشد ضرورت محسوس ہورہی ہے جو آئی ایم ایف پروگرام اور ایف اے ٹی ایف کی شرائط کی روشنی میں جاری ہیں۔ ان دونوں اداروں کی اصلاحات سے ملک کے اندر مالیاتی نظم و نسق کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ مگر اس کے ساتھ ملک میں موجود انفرااسٹرکچر کی کمی کو دُور کرنے کے لیے اقدامات ضروری ہیں۔ اس حوالے سے سی پیک کو مزید بہتر بناکر معیشت کو اپنے قدموں پر کھڑا کیا جاسکتا ہے۔
راجہ کامران نیو ٹی وی سے وابستہ سینئر صحافی ہیں۔ کونسل آف اکنامک اینڈ انرجی جرنلسٹس (CEEJ) کے صدر ہیں۔ آپ کا ٹوئٹر ہینڈل rajajournalist@ ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔